Tuesday, 19 November 2024
  1.  Home/
  2. 92 News/
  3. Azadi (6)

Azadi (6)

شایدایسی ہی کوئی انکشاف انگیز ساعت ہوگی، غالب ؔ نے جب یہ کہا تھا

غم نہیں ہوتا ہے آزادوں کو بیش از یک نفس

برق سے کرتے ہیں روشن شمع ِ ماتم خانہ

فاتح مصر عمر وبن عبد العاصؓ مسلم تاریخ کا ایک اہم کردار ہیں۔ ان کی شخصیت کا مطالعہ فکر و نظرکے کتنے ہی در وا کرتا ہے۔ عرب کے تین سب سے زیادہ ذکی مردانِ کار میں ان کا شمار تھا۔ کسی نے پوچھا: ایسے آپ دانا ہیں مگر اسلام قبول کرنے میں اس قدر تاخیر؟ بولے: ہم یہ سمجھتے تھے، عرب سرداروں کی عقلیں پہاڑوں کے برابر ہیں۔ بات ہم پہ آپڑی تو ہم نے ٹھیک فیصلہ کیا۔

عربوں کا محاورہ یہ ہے: اسعید من وعظ بغیرہ۔ سعید وہ ہے جو دوسروں کے تجربات سے سیکھ لے۔ ایسا مگر کم ہوتاہے۔ آدمی کو خطا و نسیان سے بنایا گیا۔ تجزیے پر نہیں، وہ اپنی افتادِ طبع پہ زندگی کرتا ہے۔ ایسے کم ہوتے ہیں، جن کے بارے میں کہا جائے

تو اے مسافرِ شب خود چراغ بن اپنا

تری سرشت میں ہے پاکی و درخشانی

فاروقِ اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا تھا: ہم کسی کو دھوکے دیتے نہیں مگر دھوکے کی سب شکلوں سے واقف ہیں۔ ایک نکتہ واضح کرنا ہے، پہلی اور آخری بار۔ افتخا ر عارف نے گو یہ کہا تھا

حرفِ انکا ر سے پڑ سکتے ہیں سو طرح کے پیچ

ایسے سادہ بھی نہیں ہیں کہ وضاحت کریں ہم

عمران خان کو اقتدار سنبھالے چند ماہ گزرے تھے۔ ایک مشترکہ دوست کے ذریعے انہیں پیغام بھیجا: میں صبر کرتا ہوں مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ آپ کا میڈیا سیل کردار کشی پہ تلا رہے۔ نعیم الحق کوطلب کیا او ر کہا: یہ خرافات بند ہونی چاہئیے۔ تین سال بیت گئے، یہ خرافا ت جاری ہے۔ اقتدار اوراچانک حاصل ہونے والی دولت جذباتی توازن تہ وبالا کرتی ہے۔ ازل سے یہ آدم زاد کا المیوں میں سے ایک ہے کہ ایسے میں خدائی کی خواہش اس میں جاگ اٹھتی ہیں۔

دو وجوہات تھیں۔ کوئی دوست بگڑ جائے خاموش رہنا چاہئیے۔ مگر ایک اخبار نویس اور حکمران؟ کئی بار ارادہ کیا کہ پیشہء صحافت کو خیرباد ہی کہہ دیا جائے۔ کرنے کے اور بہت سے کام ہیں۔ چار پانچ کتابوں کا خاکہ ایک مدت سے بنا رکھا ہے۔ حرفِ مطبوعہ کو یکسر خیر باد کہنا مگر ممکن نہیں۔ ایوب خان ڈوب رہے تھے، صحافت کاجب آغاز کیا۔ طویل تجربے نے سکھایا کہ محض ایک حکمران کو اٹھا پھینکنا کافی نہیں۔ قوم ایک راہِ عمل اور جامع منصوبہ چاہئیے۔ کچھ ریاضت کیش، اہلِ نظر کی خدمت میں حاضر ہوتا رہ۔ کچھ نقوش اجاگر۔

یہ 1934ء کا ذکر ہے۔ کرتا پاجامہ پہنے ایک نوجوان چکوال سے چلا اور علامہ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ آزردہ، گلا خراب، صحن میں بات چیت کرنے والے کئی گروہوں کے درمیان وہ خاموش تھے۔ اچانک تہمد کے پلو سے آنکھیں پونچھ لیں اور کہا: افسوس کوئی مخلص مسلمان نہیں ملتا۔ قائدِ اعظم لندن میں تھے۔ پریوی کونسل میں پریکٹس کرنے لگے۔ الیکشن لڑنے کا ارادہ بھی کیا۔

ایف بی آر، عدلیہ، پولیس اور سول سروس۔ ان سول اداروں کی تشکیلِ نو کے لیے کتنی ریاضت اور کتنے مردانِ کار کی ضرورت ہے؟ کیا وہ میسر ہیں یا نہیں؟

راستہ وہاں بنتا ہے، جہاں سے لوگ گزرتے رہتے ہیں۔ جنگ سے تباہ حال جاپان، جرمنی، فرانس او ر کوریا کی تعمیرِ نو کس طرح ممکن ہو سکی؟ اس سے بھی زیادہ افلاس کے مارے چین، سنگاپور، ملائشیا اور یورپ کے مردِ بیمار ترکیہ کی، مصطفی کمال نے جسے پٹڑی سے اتار دیا تھا۔

چند آدمی درکار ہیں اور سول اداروں کی جدید تشکیل کے لیے مرتب دستاویزات۔ ان میں سے ہر چیز میسر ہے۔ جیسا کہ ٹالسٹائی نے کہا تھا: ہار پھولوں سے نہیں دھاگے سے بنتا ہے۔ ضمیر کے جہاان میں ایک کرن بھی روشن ہو تو ڈاکوؤں کی تائید بہرحال کی نہیں جا سکتی۔ عمران خان کی تائید کا جو جرم صادر ہوا، اس کی تلافی البتہ ضروری تھی؛چنانچہ ایک سے زیادہ بار قوم سے معافی مانگی۔

ارادہ یہ ہے کہ موسمِ بہار میں غور وفکر او ر آرام کا وقت بڑھا لیا جائے۔ مالک کو منظور ہو تو کچھ دن حجازِ مقدس میں بتائے جائیں۔ کتاب لکھی جائے۔ 53برس کی عملی زندگی کے مشاہدات۔ عمر بھر کے مطالعے کا نچوڑ اور 75برس کی قومی تاریخ کا جائزہ بلکہ تحریکِ خلافت سے لے کر نئے پاکستان تک کا مطالعہ۔

ہر ایک کو اپنا قرض ادا کرنا ہوتا ہے۔ اللہ کی آخری کتاب میں لکھا ہے: تمام انسان اپنے اعمال کے قیدی ہیں۔ مزید یہ کہ تمام لوگوں کو ایک دوسرے پہ انحصار کرنا ہوتا ہے اور کبھی کبھی تواتنا زیادہ کہ وہ حالات کے قیدی ہو جاتے ہیں۔ جیسے عمران خا ن کو اسٹیبلشمنٹ پہ انحصار کرنا ہے۔ اسٹیبلشمنٹ کی اہم ترین شخصیات کو وزیرِ اعظم کو۔ شہباز شریف کو اپنے بڑے بھائی پہ اور ان کی بھتیجی کو بھی۔ آصف علی زرداری کو راولپنڈی والوں کی مہربانی درکار ہے اور مولانا فضل الرحمٰن کو نواز شریف کی سرپرستی۔ سنہری ہی سہی، بادشاہ لوگوں کی زنجیریں بہت بھاری ہوتی ہیں۔ سپین کا حکمران زنداں میں پڑا سوچتا تھا:

خوبخود زنجیر کی جانب کھنچا جاتا ہے دل

تھی اسی فولاد سے شاید میری شمشیر بھی

عمران خان کو اقتدار میں لانے والے چند قلم ہی نہیں۔ 2018ء کے الیکشن میں اسٹیبلشمنٹ کو پی ٹی آئی کی سرپرستی پہ اخبار نویسوں نے آمادہ نہیں کیا تھا، جنہیں گالی بکنا معمول بن چکا۔

قومی مزاج کو اگر وہ نہیں سمجھتے۔ اگرسیکھے بغیر گھڑسواری کی کوشش کی تو ذمہ دار وہ خود ہیں۔ پسماندہ اور جذباتی معاشرے زود فراموش ہوتے ہیں۔ بھولنے والے سب بھول گئے کہ الیکشن 2013ء کے ہنگام ہی احتجاج کی آواز پوری قوت سے بلند کی تھی، جب ٹکٹ بانٹے گئے۔ بانٹے کہاں، پھینک ڈالے، بیچ ڈالے یا خوشامدیوں کو عطا کر دیے۔ کس سہولت سے بھلا دیا گیا کہ 2014ء کے دھرنے کی ڈٹ کر مخالفت کی تھی اور مسلسل۔ موقف اس کا یہ تھا کہ دھاندلی کرنے والوں نے ڈٹ کر دھاندلی کی مگر عمران خان اپنی حماقت سے ہارے۔

سب سے اہم یہ کہ اقتدار میں آئے تو ان سے کوئی واسطہ نہ رکھا۔ بیوروکریٹ افتخار درانی، فواد چوہدری، بابر اعوان، پھر ایک اور وزیر کے ذریعے، ایوانِ وزیرِ اعظم کے ایک متعلقہ افسر کے ذریعے ناچیز سے رابطہ بڑھانے کی کوشش کی گئی۔ ہر بار معذرت کی۔ راولپنڈی کے سب راستے ذہن سے نوچ کر پھینک دیے؛حتیٰ کہ تقریبات کے بھی۔

فرمانِ الٰہی یہ ہے: عسیٰ ان تکرھو شیا وھو خیر لکم وعسی ان تحبو شیئا وھو شر الکم۔ ایک چیز سے کراہت تمہیں ہوتی ہے؛حالانکہ خیر اس میں چھپا ہوتا ہے۔ ایک چیز سے والہانہ محبت تم کرتے ہو، حالانکہ شر اس میں پوشیدہ ہوتا ہے۔

بندے نہیں جانتے، مالک جانتا ہے۔ ایک فرمان کا مفہوم یہ ہے: آدمی اپنی تگ و دو میں تھکا دیا جاتا ہے۔ ہوتا بالاخر وہی ہے، جو خالقِ کون و مکان کو مطلوب ہو۔ پروردگار نے آزادی عطا کی او ر آزادی سے بڑی نعمت کوئی نہیں۔ شایدایسی ہی کوئی انکشاف انگیز ساعت ہوگی، غالب ؔ نے جب یہ کہا تھا

غم نہیں ہوتا ہے آزادوں کو بیش از یک نفس

برق سے کرتے ہیں روشن شمع ِ ماتم خانہ

About Haroon Ur Rasheed

Haroon Ur Rasheed

Haroon Ur Rasheed is a well known analyst and columnist. Currently, he is working with 92 News. He has worked for Dunya News, 92 News and Geo.