تحمل کی ضرورت ہے، تدبر کی، ٹھنڈے دل سے غور و فکر کی۔ مستقبل خطرے میں ہے اور سوچ بچار کی بجائے ہم چیخ و پکار میں جتے ہیں!
انسانی زندگی، ایک مشین کی مانند نہیں ہو سکتی کہ اس کے کل پرزے ایک آہنگ میں بروئے کار آئیں۔ پھر بھی ایک ترتیب اور سلیقہ تو لازم ہے کہ مطلوبہ نتائج فراہم کر سکے۔ کسی نے کہا تھا:زندگی کو اس طرح برتنا چاہئے جیسے یہ دوسری بار ملی ہو۔ پہلی حیات کی غلطیاں نہ دہرائی جائیں۔ عربوں کا محاورہ ہے:دانا اور سعید فطرت وہ ہے، دوسروں سے جو سیکھ سکے۔ بلادِ شام کے مفکر علامہ طنطاوی نے کہا تھا:پوری انسانی تاریخ کے تناظر میں سوچنے والا ہی کسی معاشرے کا لائحہ عمل مرتب کر سکتا ہے۔ ہاں!ایسے لوگ نادر و نایاب ہی ہوتے ہیں۔
دوسرا نسخہ اللہ کی آخری کتاب میں لکھا ہے:"ان کے امور باہم مشورے سے طے پاتے ہیں "۔ مشورہ کس سے؟ مخلص اور اہل آدمیوں سے۔ سرکارؐ کے فرامین میں سے ایک یہ ہے:کوئی چیز خریدنا ہو تو تین دکانوں سے نرخ پوچھ لیا کرو۔ پیچیدہ اجتماعی حیات میں، مشورے کا دائرہ ظاہر ہے زیادہ وسیع ہونا چاہئے۔ تحمل اور احتیاط کے ساتھ، مختلف نقطہ ہائے نظر کا فہم۔ اور بے شک جرأت کا کوئی بدل نہیں۔ جو خطرہ مول نہیں لے سکتا، وہ کوئی کارنامہ بھی انجام نہیں دے سکتا۔ کارنامہ کیا وہ گرہ ہی نہ کھول سکے گا۔
شہزاد اکبر کی رخصتی، محض ایک واقعہ نہیں، ایک مرض کی علامت ہے۔ ہیجانی اندازِ فکر کی۔ جب ایک ذاتی خواہش کی شدت تجزیہ کرنے کی صلاحیت سے محروم کر دے۔ موصوف کے تقرر پہ تعجب کا اظہار کیا گیا۔ سب سے پہلے جرم و سزا کے میدان میں عالمگیر شہرت کے حامل خان صاحب کے ایک ذاتی دوست کو اس منصب کی پیش کش کی گئی۔ تب غالب تاثر یہ نہیں تھا کہ انتقام کا جذبہ حکمران کے حواس پہ سوار ہو چکا۔
ان صاحب نے خان صاحب سے کہا کہ سوچنے کی انہیں مہلت دی جائے کہ یہ ایک بھاری ذمہ داری ہے۔ یہ بھی کہا کہ ایسی مہمات آسانی سے سر نہیں ہوتیں۔ سات آٹھ سال کا عرصہ درکار ہو گا۔ یافت بہت کم ہو گی۔ سامنے کی بات یہ تھی کہ سرمایہ جہاں منتقل ہو چکا، وہ تعاون کیوں کریں گے۔ خود ان کی معیشت اسی سے لہلہاتی ہے۔
چند دن کے بعد شہزاد اکبرمتعین کر دیئے گئے۔ خان صاحب سے پوچھا گیا کس امید پر یہ بار عظیم ان پہ ڈالا گیا۔ وزیر اعظم کا جواب حیران کن تھا: جمائما خان قبائلی علاقوں میں ڈرون حملوں پہ فلم بنانے آئیں تو شہزاد صاحب نے ان کی مدد کی تھی۔ نیب سے وہ وابستہ رہے تھے لیکن کسی فیصلہ کن منصب پر نہیں۔ وکیل تھے اور کچھ ایسے نہیں کہ چرچا ہوتا۔ باقی قیاس کی بات ہے۔ شہزاد اکبر کے لہجے میں لوچ اور لجاجت بہت ہے۔ ذاتی ترقی کی بے پایاں آرزو، جو انہیں جرمنی لے گئی، وگرنہ وہ ایک کمزور پس منظر سے اٹھے تھے۔
شخصی اعتبار بھی قابل رشک نہ تھا۔ محنتی ضرور رہے ہوں گے اور ایک حد تک منصوبہ ساز بھی۔ اسی لیے ایک کے بعد دوسری سیڑھی چڑھتے گئے۔ اسی رفتار سے ان کے اعتماد بلکہ زعم میں اضافہ ہوتا گیا۔ لاہور آتے تو گورنر ہائوس میں قیام کرتے۔ ایک ذمہ دار افسر نے بتایا: آمد پر وہ گورنر سے رسمی ملاقات کرتے اور نہ واپسی پر۔ یہ تو سب جانتے ہیں کہ وزیر داخلہ، بریگیڈیئر اعجاز شاہ ہوں یا شیخ رشید، ان سے کہہ دیا گیا تھا کہ آنجناب کے راستے میں مزاحم نہ ہوں۔ شیخ صاحب نے تو اظہار بھی کر دیا تھا کہ زبان بند رکھنا، ان کے بس میں نہیں۔
تقرر سے زیادہ تعجب خیز واقعہ دوسرا ہے۔ ایک ہفتہ ہی گزرا تھا۔ خان صاحب قوت متخیلہ سے مالا مال، بلند بانگ دعوے کرنے والے اپنے نائب کے بارے میں شکوک و شبہات کا شکار ہو گئے۔ ایک بار پھر اپنے دوست سے رابطہ کیا اور اصرار کیا وہ کمان سنبھالیں۔ انہوں نے معذرت کر لی۔ انہیں اندازہ ہونے لگا تھا کہ عہدے بانٹنے میں خان صاحب اتنے ہی فیاض ہیں، جتنے سخی شاعر اور ادیب الفاظ کے بارے میں ہوتے ہیں۔ یہ کہ عقیدت مندی کا اظہار کرنے والا کوئی بھی شخص انہیں چکمہ دے سکتا ہے۔ ایسے لوگوں کی خطائیں بھی معاف ہوسکتی ہیں، جیسے وزارت صحت کو برباد کرنے والے کو پارٹی کا سیکرٹری جنرل بنا دیا گیا۔
یہ وہ کہانیاں ہیں جو کسی حکمران کے معزول ہونے کے بعد لکھی جاتی ہیں۔ گاہے کچھ تاریخ کا حصہ بھی بنتی ہیں۔ ساڑھے تین برس کے بعد وزیر اعظم پہ انکشاف ہوا کہ یہ صاحب ناکردہ کار ہیں؟ آئن سٹائن نے کہا تھا:اگر مجھے ایک گھنٹہ وقت دیا جائے کہ کرۂ ارض کو بچا لو، برباد ہونیوالا ہے تو 55منٹ میں منصوبہ بندی میں صرف کروں گا۔
خان صاحب کی کوئی تیاری تو تھی ہی نہیں۔ 2014ء کے دھرنے کی اس ناچیز نے ڈٹ کر مخالفت کی تھی۔ مسلسل اور متواتر۔ کچھ نہ کچھ دھاندلی ضرور ہوئی تھی مگر اپنی ناکامی کے ذمہ دار وہ خود تھے۔ ٹکٹوں کی غلط تقسیم وگرنہ کم از کم ستر، اسی سیٹیں لے مرتے۔ پھر یہ کہ سال بھر کے بعد ہی رائے عامہ کسی حکمران کو برطرف کرنے کی حمایت نہیں کر سکتی۔ یہ بھی عرض کیا تھا کہ پانچ لاکھ مظاہرین جمع کرنے کی امید بڑی خوش فہمی ہے۔
دھرنے کی ناکامی کے بعد کہ آخری دنوں میں چند درجن افراد ہی ہوتے، اس ناچیز کو یاد کیا۔ تامل کا شکار تھا، بالآخر ملنے گیا۔ کوئی تیسرا آدمی موجود نہ تھا۔ پرتکلف کھانے کے بعد، جس کے وہ عادی ہیں۔ کسی ملازم کو زحمت دینے کی بجائے خود انہوں نے آتشدان میں لکڑیاں ڈالیں اور بیتے دنوں کی تفصیل بیان کی۔ کمال ضبط سے کام لیا اور کوئی گلہ نہ کیا۔
دو باتیں ان کی خدمت میں عرض کیں، اوّل یہ کہ پارٹی کی تنظیم پر توجہ دیں۔ جمہوری جماعتیں ہی، جمہوری معاشرے کی تشکیل کرتی ہیں۔ ثانیاً یہ کہ اپنی دلہن کو ایسی کوئی ذمہ داری سونپ دیں، ہمہ وقت جو انہیں مصروف رکھے۔ محترمہ کی ذہنی توانائی چین سے انہیں بیٹھنے نہ دے گی۔ کچھ دن کے بعد خبر آئی کہ وہ ایک عدد فلم بنا رہی ہیں۔ فون کیا کہ یہ بچگانہ پن ہے۔ کہا:تمہی اسے سمجھائو۔ میں کیا سمجھاتا؟
شادی ٹوٹ چکی تو رنجیدہ تھے۔ اللہ کے بندے، کسی سے مشورہ کیا ہوتا، جیسے جمائما سے علیحدگی کے وقت ایک دانا آدمی سے کیا تھا؛چنانچہ شائستگی کے ساتھ جدائی ہو گئی۔ رنج نہ پھیلا، بدمزگی نہ ہوئی۔ کوئی مورد الزام نہ ٹھہرا۔ یہ سوا تین گھنٹے پر پھیلی ایک مشاورت کا نتیجہ تھا، معاملے کے تمام پہلوئوں پر باریک بینی سے جس میں غور کیا گیا۔ تقریباً ہر چیز طے کر لی گئی۔ خان صاحب خود فریبی کا شکار ہو جاتے ہیں اور اس کی بنیاد عالی مرتبت کی خوش فہمی ہے۔ اپنے بارے میں ان کا حیرت انگیز حسنِ ظن۔
آئنہ دیکھنے والے ترے قرباں جائوں
خود ہی سنگھار کیا، خود ہی کہا سبحان اللہ
معاملہ فہمی ہے اور نہ مردم شناسی۔ اس پر عقیدت مندوں کا ہجوم۔ کبھی حواس جاگ بھی اٹھتے ہیں۔ ایک دن بولے:حریفوں کے کارنامے ہیں، جن کے طفیل لوگ میری طرف لپکے۔ ہاں! ان کی کرشماتی شخصیت بھی۔ دلکش وعدے بھی کہ اقتدار کی آرزو نے دیوانہ کر رکھا تھا۔
ماضی کے بے رحم حکمرانوں سے نالاں، ہم سب فریب خوردہ، خواب دیکھنے لگے۔ جنرل اشفاق پرویز کیانی کو داد دیتا ہوں کہ اپنی رائے پر ہمیشہ وہ قائم رہے۔ حمایت کی نہ مخالفت۔ زبانِ حال سے بس یہ کہا:یہ ان کے بس کا نہیں۔
ریگ زاروں میں بگولوں کے سوا کچھ بھی نہیں
ہم سب جذبات کی رو میں بہہ گئے اور اب تک بہتے چلے جاتے ہیں۔ ہیجان کا شکار۔ ظہیر کاشمیری کبھی یاد آتے ہیں:
میں ہوں وحشت میں گم تیری دنیا میں نہیں رہتا
بگولہ رقص میں رہتا ہے، صحرا میں نہیں رہتا
کچھ اور پہلو بھی ہیں، بشرط زندگی پھر کبھی۔ تحمل کی ضرورت ہے، تدبر کی، ٹھنڈے دل سے غور و فکر کی۔ مستقبل خطرے میں ہے اور سوچ بچار کی بجائے ہم چیخ و پکار میں جتے ہیں!