اپنے آپ سے نجات، جہاں تک ممکن ہو اپنے آپ سے نجات۔ یہی دانش ہے، یہی سیدھا راستہ۔ اسی میں کامیابی اور ظفر مندی ہے۔ اسی سے محروم ہو جانے میں شکست اور ناکامی۔ باقی آپ کی مرضی، آپ کی قسمت۔ پی ٹی آئی ہار گئی اور بہت بری طرح۔ حتیٰ کہ جمعیت علماء اسلام سے، حتیٰ کہ مولانا فضل الرحمن سے۔ دیر تک سوشل میڈیا دیکھتا رہا۔ صرف یوسف زئی صاحب کا بیان۔ ان کا کہنا ہے کہ بنیادی سبب گرانی ہے۔ ابھی چند ماہ قبل سیالکوٹ میں وہ جیت گئے تھے۔ ثانیاً پختونخواہ میں پی ٹی آئی دوسرے صوبوں سے کہیں زیادہ طاقتور تھی۔
2013ء میں بھی ظفر مند رہی۔ 2013ء کے الیکشن سے بہت پہلے، جہاں تک یاد پڑتا ہے، دو اڑھائی برس پہلے جناب مہتاب عباسی سے عرض کیا:پختونخواہ کے بعض شہروں میں جانے کا اتفاق ہوا۔ پی ٹی آئی والوں میں وہ چمک ہے جو فتح کی امید سے پھوٹتی ہے۔ جو کچھ انہوں نے کہا، اس کا خلاصہ یہ ہے: تحریک انصاف کیا بیچتی ہے۔ آئندہ الیکشن میں بھی میں جیتوں گا یا میرا بھائی۔ وقت بدلتا ہے، زمانے کے تیور بدلتے ہیں۔ کامیاب لوگ ناکام ہوتے اور کمزور طاقتور ہو جاتے ہیں۔ دانا وہ ہیں، تبدیلی کا کسی نہ کسی درجے میں جوادراک کر سکیں۔ خاص طور پہ وہ لوگ، جو دائو پہ لگے ہوں۔ تحریک انصاف کی قیادت اس قدر بے بہرہ کیوں ثابت ہوئی!
عصر حاضر کے مقبول ترین اہل نظر میں سے ایک پائیلو کوئیلو نے کہا تھا "ناکامی نام کی کوئی چیز زندگی میں نہیں ہوتی، بس سبق ہوتے ہیں، اگر سیکھنے سے ہم انکار کر دیں تو قدرت ہمارے لئے حادثات کو دہراتی رہتی ہے"۔ کوئیلو پائیلو نے یہ بھی کہا تھا " ان تنازعات سے دور نکل بھاگو، جو طے نہیں ہو سکتے"۔ اسی کا ایک قول یہ ہے "اپنی توانائی برباد کرنے سے جو بچا رہے اس میں بالیدگی جنم لے گی۔"
ایک نہیں کتنی ہی بار خان صاحب سے عرض کیا۔ ایک نہیں کتنے ہی لوگوں نے عرض کیا کہ احتساب کسی حکومت کا واحد ایجنڈہ نہیں ہوسکتا۔ ثانیاً یہ کہ ذمہ داریاں، احتیاط سے سونپی جاتی ہیں۔ آدھی جنگ موزوں افراد متعین کرنے سے جیت لی جاتی ہے۔ سن کر نہ دیا، ایک بار بھی سن کر نہ دیا۔ نہایت حقارت سے ہر خیرخواہ کا مشورہ مسترد کر دیا۔
اسی باعث تو قتلِ عاشقاں سے منع کرتے تھے
اکیلے پھر رہے ہو یوسفِ بے کاررواں ہو کر
تنہا نہیں، خان صاحب اب بھی تنہا نہیں۔ سیاسی عصبیت جنم لے چکے تو قائم رہتی ہے۔ بیالیس برس بیت چکے۔ بھٹوکی وارثت باقی ہے۔ سمٹ کر ایک صوبے تک محدود رہ گئی، مگر باقی ہے ع
ابھی کچھ دھوپ باقی ہے دیوارِ گلستاں پر
قدرت کے ابدی اصولوں میں سے ایک یہ ہے کہ وہ مہلت دیتی ہے۔ سنبھلنے، سنورنے اور اپنی غلطیوں کی اصلاح کا۔ عظیم ترین فاتحین بھی پسپا ہوتے ہیں۔ کسی غیر متوقع شکست کا شکار مگر یہ عارضی ہو تی ہے، اکثر عارضی۔
شام کی جنگ دراصل پہلی صلیبی جنگ تھی۔ قسطنطنیہ سے آرمینیا تک، تقریباً تمام مسیحی دنیا، خالد بن ولیدؓ کے مدِّ مقابل تھی۔ نو کلو میٹر تک پھیلی ہوئی سپاہ۔ دنیا کے بہترین جنرل اور سپاہی۔ جنگ آزمودہ، جہاندیدہ اور تجربہ کار۔ بہترین ہتھیاروں سے مسلّح۔ تعداد میں کم از کم تین گنا۔ ابھی چند برس پہلے ایران کو روم نے شکست فاش سے دوچار کیا تھا۔ حوصلے ان کے بلند تھے، سرزمین اپنی۔ مسلمانوں کے مزاج آشنا شامی عرب ان کے ساتھ تھے۔
پہلی بڑی یلغار میں مسلمان گھبرائے اور پیچھے ہٹے۔ تاریخ انسانی کا سب سے بڑا سپہ سالار، اپنے ساتھیوں کی حرکت پہ برہم تھا۔ بیتی شب اس نے انہیں بتایا تھا کہ تعداد کوئی چیز نہیں ہوتی۔ تم وہ لوگ ہو جو موت کو زندگی سے زیادہ عزیز رکھتے ہیں۔ مرتے نہیں تم شہادت پاتے ہو، فردوسِ بریں کی دائمی حیات۔
جنرل مانٹگمری نے کہا تھا: ایک آدمی، بس ایک آدمی ایسا ہے، ہر زمانے کی سپاہ جس سے سیکھ سکتی ہے۔ ہر عہد کے جنرل جس سے اکتسابِ فیض کر سکتے ہیں۔ ایک ولولے کے ساتھ خالدؓ پلٹے۔ ان چار سو میں سے اکثر بھی، سرزمین ایران میں لڑی گئی جنگوں میں، جن کی اس بے مثال جنرل نے تربیت کی تھی۔ باقی تاریخ ہے۔
1937ء کے انتخابات میں 76فیصد مسلمان ووٹروں نے قائد اعظمؒ سے بے اعتنائی برتی۔ اس آدمی سے، جس کی زندگی کا ایک ایک لمحہ ان کی خدمت کے لئے وقف تھا۔ نو برس بعد 75.6فیصد مسلمان ووٹر اپنے لیڈر کے ساتھ ڈٹ کر کھڑے ہوئے۔ کھڑے ہوئے اور مسلم تاریخ کا ایک سنہری باب رقم کر ڈالا۔
وعدہ یہ تھا کہ جہاد افغانستان میں پاکستان کے کردار پر مفصل گزارشات پیش کروں گا۔ انشاء اللہ ضرور کروں گا۔ واقعہ مگر ایسا رونما ہوا کہ نظر انداز کرنا ممکن نہیں۔ پوری کی پوری تحریک انصاف سکتے کے عالم میں ہے۔ اس لئے کہ یہ ان کے سان گمان میں بھی نہیں تھا۔
پہلی بات تو یہ ہے خان صاحب کسی کی سنتے ہی نہیں۔ جیسا کہ کئی بار عرض کیا، اپنی برگزیدگی کے سحر کا شکار ہیں۔ انہیں یقین ہے کہ وہ اپنے عہد کے عظیم ترین رہنما ہیں۔ صدر عارف علوی سمیت ان کے سب فدائین بھی یہی سمجھتے ہیں۔ پارلیمنٹ کے سالانہ مشترکہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے، جنابِ صدر نے ارشاد کیا تھا کہ دنیا بھر کے لیڈروں کو عمران خان کی پیروی کرنی چاہیے۔ اس ناچیز کے محدود علم کے مطابق کاروبار حکومت پہ سب سے اہم فرمان یہ ہے "وامرھم شوریٰ بینھم" اہلِ ایمان اپنے فیصلے باہم مشاورت سے طے کرتے ہیں۔
تاریخ کا سبق بھی یہی ہے۔ نکتہ اس میں یہ ہے کہ کوئی شخص عقل کل نہیں ہوتا۔ مشاورت میں جتنی زیادہ سلیقہ مندی اور وسعت ہو، اتنی ہی زیادہ ثمر خیز ہو گی، اتنی ہی زیادہ پائیدار نتائج کی حامل۔ آج کے تین بڑے ممالک پر مشتمل، سلہٹ سے وزیرستان تک، پورے ہندوستان میں، قائد اعظم گھومتے پھرتے۔ ایک آدھ برس نہیں دو عشرے تک۔ وکلاء سے بات کرتے کہ بہت لوگوں سے ان کا ملنا جلنا ہوتا ہے۔ مسلم لیگی کارکنوں سے رائے لیتے کہ سیاسی حرکیات سے آشنا تھے۔ طلبہ اور نوجوانوں سے پوچھتے کہ لالچ اور تصنع سے اکثر پاک ہوتے ہیں۔
اس کرّہِ خاک پہ چالیس ہزار برس میں کتنے کھرب انسانوں نے زندگی کی ہے؟ ایک ہستی ایسی مقدّس بھی تھی کہ اس کی عظمت، ان سب کے سارے محاسن، ان کھربوں انسانوں کی تمام خوبیوں سے زیادہ ہے۔ اللہ کے آخری نبی رحمۃ للعالمین محمدﷺ۔ عرشِ بریں پہ مدعو کئے گئے۔ سات آسمانوں کو عبور کیا۔ دو کمانوں سے بھی کم فاصلہ۔ جبریل امین خدمت میں حاضر ہوتے۔ ہر اس سوال کا جواب آسمان سے زمین پر اترتا، جو ان کے دل میں پیدا ہو۔ بنی نوع انسان کی آئندہ تمام نسلوں میں سے کسی کو بھی جس کا جواب مطلوب ہو۔
اس کے باوجود وہ مشورہ کیا کرتے۔ اس کے باوجود وہ اپنے ساتھیوں کی بات مان لیا کرتے۔ مثال کے طور پر جنگِ احد کے ہنگام وہ بستی میں قیام اور قرار کے حق میں تھے۔ جیسا کہ بعدازاں جنگِ خندق میں۔ جواں سال مسلمانوں کے جذبات ابل رہے تھے۔ دادِ شجاعت دینے کے لئے وہ بے تاب تھے۔ آپﷺ نے ان کی بات مان لی۔ کیوں مان لی، اس لئے کہ پروردگار کی کوئی حکمت، ایک آدھ نہیں شایدبہت سی حکمتیں اس میں پوشیدہ تھیں۔ اپنے رائے اور اپنی آرزو تو کبھی ان کی ترجیح نہ تھی۔ کتاب میں لکھا ہے: وہی بات وہ کہتے ہیں جو ان پہ اتاری جاتی ہے۔
اپنے آپ سے نجات، جہاں تک ممکن ہو اپنے آپ سے نجات۔ یہی دانش ہے، یہی سیدھا راستہ۔ اسی میں کامیابی اور ظفر مندی ہے۔ اسی سے محروم ہو جانے میں شکست اور ناکامی۔ باقی آپ کی مرضی، آپ کی قسمت۔