واعظوں کی نہیں، یہ اہلِ عمل کی دنیا ہے، مکافاتِ عمل کی دنیا۔ کاشتکار وہی کاٹتا ہے، جو اس نے بویا ہوتا ہے۔ گندم از گندم، جو از جو۔
اللہ کا شکر ہے کہ پچیس دن کی مسلسل تبلیغ کے بعد بالاخر نیو یارک ٹائمز کے لیے وزیرِ اعظم نے مضمون لکھ دیا۔ یہ خوش فہمی ہرگز نہیں کہ ناچیز کے کہنے پر لکھا۔ ممکن ہے کہ کسی لاڈلے مشیر نے منا لیا ہویا جیسا کہ دستور ہے، خود اخبار ہی نے ان سے درخواست کی ہو۔ ممکن ہے، اتنی ہی التجا کے بعد کسی برطانوی اخبار میں بھی لکھ ڈالیں۔ ممکن ہے کہ آخر کار امریکی اور دو برطانوی اخبارات میں پورے صفحے کے اشتہار چھپوانے اور اپوزیشن سمیت تمام سیاسی پارٹیوں کے کچھ سلیقہ مند لیڈروں کو عالمی سفارت کاری کے میدان میں اتاریں۔ ۔ ۔ مخمصہ!سوات میں خوں ریزی کا سلسلہ جاری تھا۔ ایک شام سلیم صافی طالبان کے ایک لیڈر سے ملنے گئے، ندی کنارے۔ گفتگو کے دوران شفاف پانی میں سرخ رنگ کی آمیزش دکھائی دی۔ ہڑبڑا کر میزبان کی طرف دیکھا تو اس نے کہا : فکر مت کیجیے۔ ایک آدمی کو ذبح کرنا تھا۔
طالبان کے بارے میں نرم گوشہ رکھنے والی متحدہ مجلسِ عمل کی پانچ سالہ حکومت تمام ہو چکی تھی۔ عمران خان بھی، جو پشاور میں طالبان کا دفتر کھولنے کی تجویز پیش کر رہے تھے۔ بار بار اس ناچیز نے جنرل اشفاق پرویز کیانی سے عرض کیا کہ وہ عمران خان سے بات کریں۔ دلائل کا ایک انبار پڑا ہے۔ وہ انہیں قائل کر سکتے ہیں۔ "قائل کرنے کی کیا ضرورت ہے؟"جنرل نے کہا "حقائق سے ہم انہیں مطلع کر دیں گے " اس شاندار جواب نے سامع کو آسودہ کیا مگر جو قدم انہوں نے اٹھایا، نتیجہ اس کا الٹ نکلا۔
جنرل پاشا کو انہوں نے کپتان کے پاس بھیجا۔ معلوم نہیں، دہشت گردی پر انہوں نے بات کی یا نہیں مگر یہ ضرور کہا کہ سبکدوشی کے بعد پی ٹی آئی میں وہ شامل ہو جائیں گے۔ پھر ہمایوں اختر خان اور ایک آدھ دوسرے آدمی کو انہوں نے مشورہ دیا کہ وہ تحریکِ انصاف میں شامل ہو جائیں۔ موقع ملنے پر جنرل کی خدمت میں خاکسار حاضر ہوا اور بھنا کر کہا : جنرل نے یہ کیا کیا۔ تحریکِ انصاف کو نقصان پہنچایا اور آپ کو بھی۔ وہ صدمے کا شکار تھے اور غالباً یہی وہ لمحہ تھا، جب انہوں نے فیصلہ کیا کہ وفاداری اور ریاضت کشی کے باوجود جنرل پاشا کو مزید توسیع نہیں دی جائے گی، جس کی وہ آرزو رکھتے تھے۔ صدر زرداری جس کی پیشکش کر چکے تھے۔ مجھ سے انہوں نے یہ کہا : آپ جانتے ہیں کہ یہ میرا اندازِ فکر نہیں۔ تیر لیکن کمان سے نکل چکا تھا۔ اہم ترین ترجیح کو چھوڑ کر جنرل پاشا ان چیزوں میں الجھے تھے، جو ان کا کام نہ تھا، جو انہیں سونپا نہ گیا تھا۔ عمران خان کو اگر اقتدار حاصل کرنا تھا تو خود اپنی تگ و دو سے۔ لیکن آخری تجزیے میں وہ بھی جنرل پاشا ہی ثابت ہوئے۔ ٹکٹوں کی تقسیم کا ایک بہترین نظام وضع کرنے اور پارٹی کی تنظیم کے لیے ان کے پاس ابھی چار سال باقی تھے مگر وہ سہارے ڈھونڈتے رہے اور اب ان سہاروں کے محتاج ہیں۔ نواحِ دلی میں نادر شاہ نے ہاتھی پر سوار ہونے سے انکار کر دیا، جب معلوم ہوا کہ اس کی باگ نہیں ہوتی۔ عمران خان ہاتھی پر سوار ہیں۔
رائے عامہ ہموار کرنے کے لیے جنرل کیانی نے اخبار نویسوں سے ملاقات کافیصلہ کیا۔ بیس منتخب آدمی بلائے گئے۔ کہا تو یہ کہا : لڑیںتو کس سے لڑیں۔ دوست اور دشمن کی تمیز ہی ممکن نہیں۔ ناچیز نے اس آدمی سے ملنے کا مشورہ دیا جوالتباس سے نجات حاصل کرنے میں ان کی مدد کر سکتا۔ مدد تو ان کی اللہ نے کی کہ امن معاہدہ ہو جانے اور مطالبات تسلیم ہو جانے کے باوجود صوفی محمد نے اعلان کر دیا کہ وہ پاکستان کے آئین اور پارلیمان کو تسلیم نہیں کرتے۔ اس پر ردّعمل کی ایک لہر اٹھی اور اس لہر پر سوار ہو کر پاکستانی فوج نے سوات میں دہشت گردوں کا صفایا کر دیا۔ اخبار نویس ہیں، جو سارا کریڈٹ جنرل راحیل شریف اور جنرل باجوہ کو دیتے ہیں۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ان دونوں کا کردار بھی ہے لیکن اس پالیسی کی بنیاد جنرل کیانی نے رکھی تھی۔ شمالی وزیرستان کے سوا پورا قبائلی علاقہ وہ صاف کر چکے تھے۔ اگرچہ کبھی حد سے زیادہ وہ محتاط ہو جاتے۔ شمالی وزیرستان اس کی ایک مثال ہے۔ اس پر پھر کبھی۔ اتنی سی بات مگر یاد رہے کہ سوات کا آپریشن 90دن میں مکمل کر لیا گیا تھا۔ تین ماہ کے اندر ہجرت کرنے والی آبادی اپنے گھروں کو لوٹ گئی، جہاں شادمانی کا عہد ان کامنتظر تھا۔ اس کے بعد ایسا کوئی برق رفتار آپریشن کیوں نہ ہو سکا۔ فیضؔ نے کہا تھا
ہم سہل طلب کون سے فرہاد تھے لیکن
اب شہر میں تیرے کوئی ہم سا بھی کہاں ہے
ہم ایک جذباتی قوم ہیں۔ ٹوٹی ہوئی کشتی کی طرح پراپیگنڈے کے پانیوں میں بہتے چلے جاتے ہیں۔ لگ بھگ تین سال گزر چکے تھے جب سوات میں جنرل کیانی سے ملاقات ہوئی۔ چار جنرلوں اور سید مشاہد حسین کی موجودگی میں انہوں نے اعتراف کیا کہ جس مردِ بزرگ سے ملاقات کا مشورہ دیا تھا، وہ ان کے بہت کام آیا "کم از کم بانوے فیصد اندازے ان کے درست ہوتے ہیں " انہوں نے کہا اور مشاہد حسین سے کہا کہ وہ ان سے جا کر ملیں۔ یہ بھی کہا کہ دہشت گردی پر قوم کی تعلیم کے لیے مشاہد صاحب کو ٹاک شوز میں شریک ہونا چاہئیے۔ مشاہد ان دنوں سیاست فرما رہے تھے۔ وہ سیاست، جس کے پیڑ پہ کبھی پھل نہیں لگتا۔
اب وہ فخرِ امام کی کشمیر کمیٹی کا حصہ ہیں، امیر جماعتِ اسلامی، جنابِ سراج الحق بھی۔ مشاہد حسین سید شاید وہ واحد آدمی ہیں، جو کشمیر پر سفارت کاری کا ایک جامع منصوبہ رکھتے ہیں۔ جو اس پورے کھیل کو سمجھتے ہیں کہ عمر گزری ہے اسی دشت کی سیاحی میں۔ مشاہد ان لوگوں میں سے ایک ہیں، جو آنکھیں کھول کر جیتے ہیں۔
کمیٹی کے اجلاس میں وہ یہ منصوبہ لے کر گئے۔ پیر سے جمعرات تک رات دس بجے نشر ہونے والے 92نیوز کے پروگرام "مقابل" کا ایک پورا دن میں نے موصوف کی نذر کرنے کا فیصلہ کیا۔ ڈائریکٹرز پروگرام اس پر گھبرااٹھا۔ اس نے کہا : یہ آپ کیا کر رہے ہیں۔ پروگرام کے اسلوب میں گنجائش ہی نہیں کہ گھنٹہ بھر ایک ہی مہمان ہو۔ ایک ایسے آدمی سے سفارش بھی کروائی، جس کی بات آسانی سے ٹالی نہیں جا سکتی۔ اس پرجوش، نجیب نوجوان اور ان مردِ بزرگ سے میں نے یہ کہا : میری رائے یکسر غلط ہو سکتی ہے لیکن خوب سوچ سمجھ کر اور مشاورت کے بعد یہ فیصلہ میں نے کیا ہے۔ الحمد للہ، یہ فیصلہ درست ثابت ہوا۔ کسی پروگرام پر ایسا اطمینان مجھے کبھی نہیں ہوا، جو اس پر۔ وہ جو کہتے ہیں "Exceptions confirms the rules" اگر اسلوب کی پاسداری کا عزم کرتے ہوئے کبھی کبھار انحراف کیا جائے تو یہ انحراف نہیں ہوتا۔ ٹیلی ویژن سے پہلے کالم نگاری اور نیوز روم میں کچھ تجربات کیے تھے۔ اللہ کے فضل سے کامیاب رہے۔ ٹی وی پروگرام ابھی چمکا نہیں۔ اللہ کو منظور ہوا تو چمکے گا کہ بالاخر اب یکسوئی ہے۔ یکسوئی کے بعد فقط ریاضت درکار ہوتی ہے، اور کچھ بھی نہیں۔ راستے کے نشیب و فراز جب آپ پہچان لیتے ہیں تو ایک اعتماد اور سرخوشی کے ساتھ بڑھتے چلے جاتے ہیں۔ حتیٰ کہ رحمتِ پروردگار کے ساتھ ہمالیہ کی چوٹی پر جا پہنچتے ہیں۔ بات ادھوری رہ جاتی ہے۔ آج اسی جملے کی تشریح کرنا تھی۔ " واعظوں کی نہیں، یہ اہلِ عمل کی دنیا ہے، مکافاتِ عمل کی دنیا۔ کاشتکار وہی کاٹتا ہے، جو اس نے بویا ہوتا ہے۔ گندم از گندم، جو از جو۔ " باقی انشاء اللہ کل۔