اسرائیل تک کو تسلیم کرنے پہ آمادہ۔ سنگینوں کے سامنے سجدہ ریز۔ اقتدار، دولت اور اقتدار، اقتدار اور اولاد۔ گویا اس خاک داں پہ، اس نیلے آسمان تلے ہمیشہ انہیں زندہ رہنا ہے۔
قائدِ اعظم نے یہ جملہ کبھی نہیں کہا تھا: پاکستان میں نے اور میرے ٹائپسٹ نے بنایا اور یہ کہ میری جیب میں سب سکے کھوٹے ہیں۔ کہا ہوتا تو کسی اخبار میں چھپتا، ان کی تقاریر یا خطوط کے مجموعے میں شامل ہوتا۔ پوری زندگی ریکارڈ پر ہے۔ ایک سوانح نگار کے انتظار میں، پوری طرح جو انصاف کر سکے۔ فقط خراج تحسین نہیں بلکہ اس نادرِ روزگار کے مختلف اور منفرد پہلوؤں کا احاطہ:
پاپوش میں لگائی کرن آفتاب کی
جو بات کی خدا کی قسم لاجواب کی
ایک ایسے معاشرے میں، اس طرح کے مضحکہ خیز دعوے ہمارے عصر کے لیڈر کرتے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو دل کی بھڑاس نکالنے کے لیے خطابت کا جادو جگاتے ہیں، خطابت بھی کیا، اکثر یاوہ گوئی۔
نسیم بیگ مرحوم کے ہاں ہر شب گفتگو کے چراغ جلتے۔ ملاقاتیوں میں مرحوم جنرل حمید گل، مجید نظامی مرحوم، ایس ایم ظفر، ڈاکٹر شعیب سڈل اور افتخار عارف سے لوگ شریک ہوتے۔ ایک بار کہا تھا:قائد اعظم عوامی مقبولیت کے لیے ایک اشارہ بھی پسند نہ کرتے۔ تحریکِ پاکستان کے کارکن تھے، عمر بھر رہے۔ کیف کے عالم میں کبھی ارشاد کرتے:ارے بھائی آپ بڑے لیڈر اور بڑے دانشور ہیں، تمام تاریخ، سب جغرافیہ، آپ کے تجزیوں میں سبھی کچھ ہے۔ اگر نہیں تو خالق کون ومکاں کا نام تک نہیں، نشان تک نہیں۔
کتنے ہی واقعات ہیں کہ بابائے قوم نے نامقبولیت گوارا کی مگر موقف پر قائم رہے۔ شملہ میں سائیکل رکشوں کا جلوس تھا اورہیٹ گود میں۔ کسی نے کہا: یہیں رہنے دیجیے کہ مسلمان پسند نہیں کر تے۔ فوراً ہی اٹھا کے سر پہ رکھ لیا۔ کمسن بچیوں کی شادی کے سوال پر صاف صاف کہہ دیا: قوم اپنا نیا لیڈر چن لے۔ برگد کے پیڑ تلے کچھ نہیں اگتا۔ محمد علی ایسے رہنما صدیوں میں پیدا ہوتے ہیں۔ ایسا کوئی رہنما افق پہ نمودار ہو تو اکثرایک صدی تک کوئی بڑا لیڈر طلوع نہیں ہو تا۔ پنڈت جواہر لعل نہرو کے تر دماغ پرنسپل سیکرٹری ایم او متھائی نے لکھا ہے: برصغیر کو متحد رہنا تھا۔ لیکن پھر ایک آدمی تاریخ کے راستے میں کھڑا ہو گیا۔ اس کا نام جناح تھا۔
عمران خان کے بعض فیصلوں پر تنقید کی تو ان کے ایک فدائی نے لکھا:اپنے Tweet اب آپ خود ہی Tweet Reکیا کریں۔ مجھے کیا الیکشن لڑنا ہے حضور۔
عرض کیا تھا کہ لانگ مارچ لغو سا خیال ہے۔ رگ رگ میں اترتی کشیدگی کو سینچنے کے سوا حاصل کیا؟ شہروں میں احتجاج ہونا چاہئیے۔ میری تو وہ کم سنتے ہیں۔ کسی اور کا مشورہ مان لیا۔ لانگ مارچ سے دستبرداری کا ہر چند اعلان نہیں کیا۔ آنجناب کو چین کہاں، آرام کہا ں:
میں ہوں وحشت میں گم میں تیری دنیا میں نہیں رہتا
بگولا رقص میں رہتا ہے، صحرا میں نہیں رہتا
کہاں قائدِ اعظم اور کہاں ان کے نام لیوا لیڈر۔ چار عشرے کی سیاست میں آپ نے صرف ایک بار سول نافرمانی کی اجازت دی تھی۔ کلکتہ میں جہاں استعمار کے سائے تلے کانگرس وحشت پہ تلی تھی۔ ہمارے لیڈر قائدِ اعظم کے پیروکار ہرگز نہیں۔ آصف علی زرداری کے والدِ گرامی حاکم علی زرداری تو سخت بیزار تھے۔ بابائے قوم کو اس بنا پر پاگل کہا کہ اولین کابینہ میں مشرقی اور مغربی پاکستان کی نمائندگی مساوی نہ تھی۔ سطحی آدمی کو کون سمجھاتا کہ اخلاقی عظمت کے امین تاریخ ساز لیڈرفقط اہلیت پہ فیصلہ کرتے ہیں۔ اختلاف بھی قائدِ اعظم سے ہو سکتاہے مگر انہیں "پاگل کا پتر" کہناگنوار پن نہیں تو اور کیا ہے۔ بڑے زرداری اصل میں اے این پی کے کارکن تھے، آصف علی زرداری بھی۔ پیپلزپارٹی میں انتخابی ظفر مندی کے لئے شامل ہوئے۔ کسی بے تاب تاجر کی طرح ہر حال میں منافع ہی سیاسی لیڈر کی ترجیح ہوتی ہے۔ تاجر سے بھی زیادہ۔ وہ اپنی ساکھ کے لیے نقصان بھی گوارا کرتا ہے، کبھی سچ بھی بولتا ہے۔
فرحت اللہ بابر نے کہا کہ FATFپر وہ لوگ داد کے طالبِ ہیں، جو اس دلدل میں دھکیلنے کے ذمہ دار تھے۔ اشارہ نون لیگ کی طرف ہے۔ اسی کے کارناموں پر ایف اے ٹی ایف کا سیاہ دروازہ کھلا۔ 20جون 2018ء کو شریفوں کے عہدِ اقتدار میں انجام دیے گئے کارہائے نمایاں پر ملک کو "سرمئی فہرست" میں ڈالا گیا۔ عائد کردہ 34شرائط میں سے 32کا تدارک عمران حکومت کے اولین تین برسوں میں ہوا۔ دو کی تکمیل آخری دو ہفتوں میں۔
سندھ کے وزیرِ اطلاعات کا ارشاد یہ ہے: پاکستان اگر فیٹف سے نکلا تو داد کے مستحق بلاول بھٹو ہوں گے۔ وہی بلاول جو امریکہ اور بھارت سے تعلقات کی بحالی کے لیے بے چین ہیں۔ امریکہ جو کشمیر میں قتلِ عام کے مرتکب بھارت کا تزویراتی حلیف ہے۔ بھارت، جس نے بیس کروڑ مسلمانوں کی زندگی عذاب بنا دی ہے۔ کہیں بھی کسی بھی مسلمان کو کسی بھی بہانے قتل کیا جا سکتا ہے:
بہ زیرِ شاخِ گل افعی گزید بلبل را
نواگرانِ نا خوردہ گزند را چہ خبر
شاخِ گل کے نیچے بلبل کو سانپ نے ڈس لیا۔ جسے تکلیف نہیں پہنچی، اسے کیا؟ آصف علی زرداری اور بلاول بھٹو کے معتمدِ خاص سلیم مانڈی والا کا ارشاد یہ ہے:فائدہ ہو تو اسرائیل کو مان لیا جائے۔ کون سا مفاد؟ جس قوم کے ہاتھوں میں زنجیریں ہیں، بیڑیاں بھی اس کے پاؤں میں پہنا دی جائیں؟ مانڈوی والا کو کون بتائے کہ جس قوم کی ہمت ٹوٹ جائے، اپنے نظریات سے جو دستبردار ہو جائے، اس کا جواز ہی باقی نہیں رہتا۔ ملک اور معاشرے کی بجائے وہ چراگاہ بن جاتا ہے۔
آصف علی زرداری لاہور میں تشریف لائے۔ ہیلی کاپٹر پہ سوار، نواب شاہ سے براہِ راست ایک کھرب پتی کے عطا کردہ محل میں اترے۔ زیر دستوں سے ارشاد کیا: آئندہ گلبرگ میں بلاؤں گا کہ آپ کو دقت نہ ہو۔
فرمایا: ضرورت آ پڑے تو نون لیگ والے ہماری بات سنتے ہیں۔ ارشاد کیا: آئندہ ہفتے پھر آؤں گا۔ دو ہاتھوں سے جو آدمی چائے کی پیالی مشکل سے اٹھا سکتاہے، اتنا بار کیوں اٹھاتا ہے۔ آئند ہ کے الیکشن کے لئے پنجاب میں بیس سیٹوں کی بھیک مانگ رہے ہیں۔ فرمایا: ابنِ آدم کو سونے کی ایک وادی عطا ہو تو دوسری کی آرزو کرے گا۔ فرمایا: جوں جوں عمر بڑھتی ہے، زندہ رہنے کی خواہش بڑھتی جاتی ہے۔ اسد اللہ خاں غالبؔ کے آخری ملاقاتیوں میں سے ایک نے بیان کیا کہ معالج نے انہیں صرف سوا تولہ الکحل کی اجازت دی تھی۔ دستبردار اس سے بھی نہ ہوئے:
گو ہاتھ میں جنبش نہیں، آنکھوں میں تو دم ہے
رہنے دو ابھی ساغر و مینا میرے آگے
اسرائیل تک کو تسلیم کرنے پہ آمادہ۔ سنگینوں کے سامنے سجدہ ریز۔ اقتدار، دولت اور اقتدار، اقتدار اور اولاد۔ گویا اس خاک داں پہ، اس نیلے آسمان تلے ہمیشہ انہیں زندہ رہنا ہے۔