ڈنگ سیائو پنگ کو عمران خان سے زیادہ مزاحمت کا سامنا تھا۔ رفتہ رفتہ، دھیرے دھیرے اس نے انہیں سمجھایا: سوال یہ نہیں ہوتا کہ اس کا رنگ سیاہ ہے یا سفید، دیکھنا یہ ہوتاہے کہ بلی چوہے پکڑتی ہے یا نہیں۔ رفتہ رفتہ بتدریج اپنے لوگوں کو اس نے قائل کر لیا اور اس لیے بھی وہ قائل ہو گئے کہ ہن برس رہا تھا، ویرانے آباد ہو رہے تھے۔ اپنے نائبین کو عمران خان کیا قائل کر سکتے ہیں؟
چیف آف آرمی سٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ کے ساتھ ملاقات میں کاروباری روپڑے۔ "خدا کے لیے کچھ کیجیے "، ان میں سے کئی ایک نے کہا۔ ہرگزرتے دن کے ساتھ کاروبار مشکل سے مشکل تر ہے۔ تجویز پیش کی کہ فوجی افسروں کی ایک کمیٹی بنا دی جائے جو ان کی شکایات کا ازالہ کرے۔
کوئی پکارو کہ اک عمر ہونے آئی ہے
فلک کو قافلۂ روز و شام ٹھہرائے
شکایت وزیرِ اعظم نہیں بلکہ نائبین سے ہے۔ وزیرِ اعظم کی نہیں، ماحول کی۔ تاریک سائے چھٹنے میں نہیں آتے۔ کارخانے بند ہوتے جا رہے ہیں۔ سود کی شرح زیادہ ہے۔ مہنگائی بڑھتی جاتی ہے ؛چنانچہ بے روزگاری بھی۔
جمعرات کی صبح ساڑھے گیارہ بجے وزیرِ اعظم کے ساتھ کراچی، لاہور، فیصل آباد، گوجرانوالہ اور سیالکوٹ کے ایوان ہائے صنعت و تجارت کی ملاقات تھی۔ پھٹ پڑے، وہ لوگ پھٹ پڑے۔ "شناختی کارڈ کی شرط نے کاروبار تباہ کردیے ہیں۔ "انہوں نے کہا: ایک فیصد لوگ بھی شناختی کارڈ دکھانے پر آمادہ نہیں۔ ایف بی آر کے با صلاحیت چئیرمین شبر زیدی نے اس پر یہ کہا: آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدے کے تحت وہ مجبور ہیں۔ اگر اصل شناختی کارڈ نمبر آپ نہیں لکھ سکتے تو جعلی لکھ دیا کریں۔ اپنے چوکیدار، سیلزمین، پڑوسی، عزیز یا کسی جاننے والے کا۔ بعد ازاں ان میں سے ایک نے کہا کہ اگر ہم ایسا کریں تو کل کلاں وہ مارے جائیں گے۔ "پھر دوسرا راستہ کیا ہے؟" ان صاحب سے پوچھا۔ جواب یہ تھا"دوسرا راستہ یہ ہے کہ میں کاروبار بند کر دوں۔ "
یہ سوال زیرِ بحث آیا کہ سیلز ٹیکس ادا کرنے والے رجسٹرڈکیوں نہیں کیے جاتے۔ ملک میں بجلی کے تیرہ لاکھ کاروباری اورساڑھے سات لاکھ صنعتی کنکشن ہیں، جب کہ ایف بی آر میں ان کی تعداد صرف تینتالیس ہزار ہے۔ بیس لاکھ، سترہ ہزار کہاں گئے۔
شبر زیدی کا کہنا یہ تھا کہ اس فہرست کی تدوین مشکل نہیں، تقریباً ناممکن ہے۔ اس لیے کہ بہت سے لوگوں نے دوسروں کے نام پر کنکشن لے رکھے ہیں۔ دوسروں کے نام؟ ناقابلِ فہم، زیادہ سے زیادہ فرضی اور جعلی نام کتنے ہو سکتے ہیں۔ کسی بھی کاروباری آدمی کی فیکٹری یا دوکان دوسرے کے نام نہیں ہو سکتی۔ دوسرے کے نام پر کرایہ داری کا معاہدہ بھی شاید ہی کوئی کرتا ہو۔
چینی انقلاب کی سترھویں سالگرہ پر بی بی سی نے ایک رپورٹ جاری کی ہے۔ بھرپور نہیں، تشنہ سی لیکن بنیادی نکات کا احاطہ کہ کس طرح غربت اور افلاس کا مارا ہوا ملک ظفرمندی کی راہ پر گامزن ہوا۔ چالیس برس میں پچاسی کروڑ آدمی غربت کی دلدل سے باہر آگئے۔
مائوزے تنگ کا چین معاشی بے بسی کی مثال تھا۔ 1950ء کی دہائی میں زرعی کو صنعتی معیشت میں بدلنے کی پالیسی بری طرح ناکام رہی۔ دس سے چالیس ملین افراد قحط سے ہلاک ہوئے۔ شاید یہ انسانی تاریخ کا سب سے بڑا قحط تھا۔ زراعت بھی مائوزے تنگ کے تجربات کی نذر ہو گئی۔ ایک دن ملک بھر میں چڑیاں مارنے کا حکم دیا، جو ان کے خیال میں اناج کا بڑا حصہ ہڑپ کر جاتیں۔ چڑیاں مار ڈالی گئیں تو انکشاف ہوا کہ جو کیڑے وہ کھا تی تھیں، اب فراوانی سے پھوٹ پڑے ہیں اور اناج کا زیادہ بڑا حصہ وہ چاٹ جاتے ہیں۔ سیاسی مخالفین سے نجات پانے کے لیے 1960ء کے عشرے میں مائو نے ثقافتی انقلاب کی تحریک برپا کی، بہت سے دوسرے لوگوں کے علاوہ جن میں ڈنگ سیائو پنگ کا فرزند مجروح ہوا۔ تیسری منزل سے وہ نیچے لڑھکا دیا گیا۔
1976ء میں مائوزے تنگ کی وفات کے بعد تبدیلی کا آغاز ہوا۔ کسانوں کو پہلی باراپنی زمین پر کاشتکاری کی اجازت دے دی گئی۔ کمیونسٹ انقلاب کے بعد پہلی بار چینیوں کو اشیائے خور و نوش فراوانی سے میسر آنے لگیں۔ اس سے پہلے کبھی گوشت غائب ہوتا، کبھی مٹر اور گوبھی۔ ان دنوں ڈرائیور کی ملازمت سب سے بہتر سمجھی جاتی کہ دن بھر شہر میں گھومنے والا آدمی اپنے خاندان کے لیے کچھ نہ کچھ ڈھونڈ نکالتا۔ 1976ء میں مائوزے تنگ کی وفات کے موقع پر چین کی بر آمدات دس بلین ڈالر تھیں، جو 1985ء میں پچیس بلین ڈالر ہو گئیں۔ کھلی منڈی کے حصول رائج ہوئے تو بیرونی سرمایہ کاری کا سیلاب آیا۔ اس لیے کہ سستی محنت میسر تھی۔ امریکہ میں جس مزدور کو پچاس ڈالر روزانہ ادا کرنا ہوتے، عومی جمہوریہ چین میں دس ڈالر پہ دستیاب تھا۔ آج چینی بر آمدات تین ٹرلین ڈالر سالانہ ہیں اور اوسط آمدن 180ڈالر سے بڑھ کر دس ہزار ڈالر فی کس ہو چکی۔
دوسرے عوامل کے علاوہ امریکہ کے ساتھ اگرچہ آج تجارتی جنگ درپیش ہے۔ ترقی کی شرح دس گیارہ فیصد سے کم ہوتے ہوتے پانچ سے چھ فیصد رہ گئی۔ اس کے باوجود چین آج بھی دنیا کا سب سے بڑا معاشی انجن ہے۔ عالمی ترقی میں آج بھی اس کا حصہ پینتیس فیصد ہے، امریکہ سے کئی گنا زیادہ۔ one belt، one road initiative یعنی دنیا بھر میں تجارتی راہداریوں سے دنیا کی آدھی آبادی منسلک ہو گی۔ عالمی معیشت کا کم از کم بیس فیصد۔ انکل سام اس صورتِ حال سے خوفزدہ ہے۔ بھارت کے ساتھ اس کے تزویراتی تعلق اور افغانستان پر قبضہ جمائے رکھنے کی پالیسی میں یہ بھی ایک سبب ہے۔
بی بی سی کی رپورٹ میں جس چیز کا ذکر نہیں، وہ چینی کمیونسٹ پارٹی کی تشکیل ہے۔ کمال حب الوطنی اور پورے عزم کے ساتھ، حکمران جماعت اس بات کو یقینی رکھتی ہے کہ کاروباری اداروں میں ایک ایک تقرراہلیت کی بنیاد پر ہو۔ جو ادارے کامیاب رہیں، اس کے عملے اور افسر کو بونس ملے، جو ناکام رہیں، وہ سزا پائیں۔ بدعنوانی کا ارتکاب کرنے والوں کو گولی سے اڑا دیا جاتاہے اور اس گولی کی قیمت بھی لواحقین کو ادا کرنا ہوتی ہے۔ تعلیم کا فروغ بھی اسی تیزی سے ہوا۔ 2070ء تک ستائیس فیصد چینی یونیورسٹیوں سے فارغ التحصیل ہوں گے۔ یہ تعداد مغرب کے سب سے ترقی یافتہ ممالک سے بھی زیادہ ہوگی۔
Ease to business، کاروبار کی کھلی آزادی، یہ ہے بنیادی اصول۔ غیر ملکی تو بعد میں آئے، آغازِ کار میں سمندر پار چینیوں نے پانچ صنعتی مراکز میں چار برس کے لیے ٹیکس کی چھوٹ مانگی تو ڈنگ سیائو پنگ نے یہ کہا: چار کیوں، پانچ برس۔
گراں خواب چینی سنبھلنے لگے
ہمالہ کے چشمے ابلنے لگے
پرلے درجے کے قدامت پسند کمیونسٹ سینہ تان کر کھڑے تھے۔ ڈنگ سیائو پنگ کو عمران خان سے زیادہ مزاحمت کا سامنا تھا۔ رفتہ رفتہ، دھیرے دھیرے اس نے انہیں سمجھایا: سوال یہ نہیں ہوتا کہ اس کا رنگ سیاہ ہے یا سفید، دیکھنا یہ ہوتاہے کہ بلی چوہے پکڑتی ہے یا نہیں۔ رفتہ رفتہ بتدریج اپنے لوگوں کو اس نے قائل کر لیا اور اس لیے بھی وہ قائل ہو گئے کہ ہن برس رہا تھا، ویرانے آباد ہو رہے تھے۔ اپنے نائبین کو عمران خان کیا قائل کر سکتے ہیں؟