سورج نصف النہار پہ آپہنچا۔ بہت دن تاریخ کے چوراہے پر ہم سو لیے۔ یہ جاگ اٹھنے کا وقت ہے۔ بھارتی مسلمانوں کا کیا ہوگا۔ کل کچھ تصاویربرادرم عدنان عادل نے بھیجی تھیں۔ دل خون ہو گیا۔ ایک زخمی مسلمان اپنا دکھڑا سنا تا رہا، جسے مارا پیٹا گیا تھا۔ چہرے پر بے بسی، الجھن اور کنفیوژن۔ کانوں سے بہتا ہوا خون۔ جیتا جاگتا سرخ لہو۔ راہ چلتی عبا پوش بچیوں پر ٹھنڈا پانی پھینکتے ہوئے آر ایس ایس کے غنڈے۔ باہمت لیکن پریشا ں حال وہ بھاگتی چلی جاتی تھیں۔ مسلمانوں کی گاڑیوں پر ڈنڈے برساتے ہوئے وحشی۔
مجھے اس میں رتی برابر بھی شبہ نہیں کہ بھارتی مسلمان اب بیدار ہوں گے اور ایک لائحہء عمل تشکیل دیں گے۔ وہی نہیں، شاید آخر کاردلت بھی، جن کی تعداد مسلمانوں سے کم نہیں۔ قومیں اسی وقت زندہ ہوتی ہیں، جب ان کا وجود خطرے سے دوچار ہو۔
بے بسی کیوں؟ خالق کون و مکاں نے اپنی کائنات شیطان کو نہیں سونپ دی۔ حکومتیں اور حکمران بزدل و مصلحت کیش سہی، عالمِ اسلام میں ردّعمل پھوٹے گا اور متشکل ہوگا۔ احتجاج کی پہلی آواز آسودہ عرب ملک کویت سے ابھری، عالمی سیاست سے عموماً جو لاتعلق رہتا ہے۔ ارکانِ پارلیمنٹ نے مطالبہ کیا ہے کہ کویت کے حکمران بھارت سے احتجاج کریں۔ چند ماہ پہلے بھی کچھ زخمی آوازیں سنائی دی تھیں کہ عرب ممالک میں بھارتیوں کے داخلے پر پابندی لگا دی جائے۔ اسلامی سربراہی کانفرنس منمنائی تو ہے۔ اقوام متحدہ سے اس نے مطالبہ کیا تو ہے کہ بھارتی مسلمانوں کی حالت زار کو دیکھا جائے۔
آنے والا کل کیا لائے گا، حتمی طور پر کچھ کہنا مشکل ہے۔ یہ بہرحال طے ہے کہ مودی اور اس کی ملت جس راستے پر چل نکلی ہے، نتیجہ تباہی کے سواکچھ نہیں۔ اڈولف ہٹلر اپنی پوری قوتِ قاہرہ کے ساتھ چند لاکھ یہودیوں کو مٹا نہ سکا تو پندرہ بیس کروڑ مسلمان کیسے فنا کیے جا سکتے ہیں۔ اگر وہ کرناٹک کی پرعزم طالبہ کی طرح اعتماد کے ساتھ ہوشمندی کا راستہ اختیار کریں۔ تشددکے جواب میں تشدد اور غیر آئینی طرزِ عمل کی بجائے پر امن احتجاج کی راہ چنیں۔ عربی، انگریزی، اردو، فارسی، پشتو، فرانسیسی اور ہسپانوی زبان میں چھوٹے چھوٹے باتصویر پیغامات پوری دنیا میں پھیلا دیں۔
دیوبند، اہلِ حدیث، شیعہ او ربریلوی کی تقسیم سے اوپر اٹھیں۔ مجھے یقین ہے کہ وہ اوپر اٹھیں گے۔ اس لیے کہ جب کوئی قوم اپنے وجود کو خطرے میں پاتی ہے تو اس کی حسیات بیدار اور بالاخر توانائی بروئے کار آتی ہے۔ یکسوئی پیدا ہو جائے، لائحہء عمل مرتب اور ترجیحات طے کر لی جائیں تو بند دروازے ہر حال میں کھلتے ہیں۔
پاکستان کا کردا ر یہ ہونا چاہئے کہ مستقل مزاجی کے ساتھ بھارتی انتہا پسندوں کو بے نقاب کرتا رہے۔ خوش قسمتی سے امریکی اور یورپی پریس بھارتی مسلمانو ں کے باب میں ایسا بھی بے حس نہیں۔ خبریں چھپ رہی ہیں، مضامین اور تبصرے بھی۔ ارون دتی رائے اور کرن تھاپر سمیت کئی ایک بھارتی دانشور بھی اپنی قوم کو جتلا رہے ہیں کہ تشدد کا خونی خنجر خود ان کی ہلاکت کا باعث ہو گا۔ پاکستانی لیڈروں کا مسئلہ یہ ہے کہ اپنی تمام توانائی وہ ایک دوسرے کے خلاف برتنے پر تلے ہیں۔ ایک دوسرے کو تباہ کرنے کے درپے۔
نون لیگ اور پی ٹی آئی کے میڈیا سیل نہ صرف حریف کی کردار کشی کرتے ہیں بلکہ اختلاف کرنے والے اخبا رنویس کی بھی۔ اقتدار سے چمٹا رہنے کے سوا ان کی کوئی ترجیح نہیں۔ عمران خان پہ انتقا م سوار ہے۔ کوئی انہیں بتانے والا نہیں کہ احتساب کسی حکومت کا واحد ایجنڈا نہیں ہو سکتا۔ خلقِ خدا کو امن درکار ہے، رزق کمانے کے مواقع اور ایک نظامِ عدل۔ امرا بے لگام ہیں اور ٹیکس ادا کرنے سے انکاری۔ اسمبلیوں کے اکثر امیدوار پرلے درجے کے بے ہمت اور موقع پرست، غلامانہ ذہنیت کے حامل۔ صدیوں سے یہی ا ن کا چلن ہے۔
عمران خان کا مسئلہ تو صرف حریفوں کی ناک رگڑنا اور تخت پہ براجمان رہنا ہے۔ شریف، زرداری خاندان اور حضرت مولانا اور بھی بدتر کہ نہ صرف لوٹ کا مال بچانا چاہتے ہیں بلکہ مستقبل میں آزادی سے شکار کے مواقع بھی۔ اسٹیبلشمنٹ ششد ر کھڑی ہے، عظیم شخصیات اپنے ادنیٰ مفادات سے چمٹی ہوئی:
ارادے باندھتا ہوں، سوچتا ہوں توڑ دیتا ہوں
کہیں ایسا نہ ہو جائے کہیں ویسا نہ ہو جائے
تاریخ یہ کہتی ہے کہ بہترین صلاحیت آزادی میں بروئے کار آیا کرتی ہے، تقلید یا غلامی میں نہیں۔ آزادی تو ہم چاہتے ہیں لیکن ڈسپلن کے بغیر آزادی کیا ہے؟ حیوانیت!
مدت کے بعد وزیرِ اعظم کو ایک پیغام بھیجا: خدا کے لیے سوشل میڈیا کو منظم کرنے کی کوشش کریں۔ اظہارِ خیال کی آزادی پوری رہے لیکن اپنی شناخت ہر لکھنے والاظاہر کرے۔ دو تین دن کے بعد بتایا گیا کہ اس سلسلے میں انہوں نے بعض معزز جج حضرات اور وزیرِ قانون سے مشورے کا ارادہ کیا ہے۔ وزیرِ قانون معاملے کا پوری طرح ادراک رکھتے ہیں یا نہیں؟ اس لیے کہ یہ محض قانون نہیں، اخلاقیات کا سوال بھی ہے۔ لائحہء عمل وہی مرتب کر سکتا ہے، جو معاشرے کے تانے بانے کو سمجھتا ہو۔ فقط نئے ضابطوں کی تشکیل سے مسئلہ حل نہیں ہوگا۔
جب تک سیاست کار اور ان سے بڑھ کر حکمران اخلاقی اصولوں کے قائل نہ ہوں، دوسروں کو تلقین اور تنبیہہ نہیں کر سکتے ہیں۔ سب سے پہلے سیاسی جماعتوں کو اپنے میڈیا سیل بند کرنا ہوں گے یا کم از کم انہیں شائستہ خطوط پہ استوار کرنا ہوگا۔ عدمِ تحفظ، برہمی اور اشتعال کی جو کیفیت ان پہ طاری ہے، کیا اس میں یہ کارنامہ وہ سرانجام دے سکیں گے۔ کیااسٹیبلشمنٹ کو ہی مداخلت کرنا ہوگی؟ لیکن اس کی اپنی استعداد اب محدود ہو چکی۔
ایک بڑی مصیبت یہ بھی ہے کہ خود میڈیا بھی اس ہمہ گیر ہیجان کا حصہ ہو گیا ہے۔ وہ بھی چٹ پٹی خبریں بیچنے اور مقبولیت کی احمقانہ دوڑ میں شریک ہے، 1970ء سے 1990ء تک کی پنجابی فلم انڈسٹری کی طرح جب سلطان راہی کو گنڈاسا تھما دیا گیا تھا۔ چنانچہ فلم انڈسٹری ایک دن زمین بوس ہو گئی۔ انتہا پسندی کا آخری نتیجہ یہی ہوتا ہے۔
دہراتا ہوں کہ عقل کبھی تنہا نہیں ہوتی، منفی یا مثبت ہمیشہ اس کے ساتھ کوئی دوسرا جذبہ جڑا ہوتا ہے۔ دہراتا ہوں کہ سب سے اہم چیز حسنِ نیت ہے۔ حکمت عملی وہی کامیاب ہوتی ہے، جس کے پیچھے خلوص کارفرما ہو۔ مکرر عرض ہے کہ دین اور سیاست، زندگی کے دو اہم ترین شعبوں کو ہم نے ذہنی طور پر درماندہ لوگوں پہ چھوڑ دیا۔ ملک محض لیڈروں کے حوالے نہیں کیاجا سکتا۔ ہر شخص کے سر میں 1300 سی سی کا دماغ ہے:
افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر
ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارا
پھر سے گزارش ہے کہ لیڈروں کی، ہیجان کی ماری پوری کھیپ ناکام ہو چکی۔ راہِ راست پہ رکھنے کے لیے ہمیں ان پر مسلسل دباؤ ڈالنا ہوگا یا ان سے نجات حاصل کرنا ہوگی۔ آدمی اپنے زمانے میں زندہ رہتا ہے اور دانا وہ ہے، جو اپنے عصر کو جانتا ہو۔ جدید ٹیکنالوجی اور جدید علوم ہی کی نہیں، ہمیں نئی سیاست کی بھی ضرورت ہے۔
یہ اپنی ذات کے لوگ ہیں، زیادہ سے زیادہ اپنی پارٹیوں کے۔ سورج نصف النہار پہ آپہنچا۔ بہت دن تاریخ کے چوراہے پر ہم سو لیے۔ یہ جاگ اٹھنے کا وقت ہے۔