Tuesday, 19 November 2024
  1.  Home/
  2. 92 News/
  3. Cheest Hayat e Dawam

Cheest Hayat e Dawam

کشمیر تو ایک دن آزاد ہو کر رہے گا لیکن اس دن ہم کہاں کھڑے ہوں گے؟ ہم اپنے مالک کو کیا جواب دیں گے۔ یہی کہ ہم روتے بسورتے اور فریاد کرتے، اپنے حکمرانوں کو کوستے اور اپنے تعصبات کا علم لہراتے رہے۔ شاعر نے کہا تھا:چیست حیاتِ دوام؟ سوختنِ ناتمام۔ دائمی زندگی کیا ہے؟ سلگتے رہنا۔ اپنے مقصد کو دل کی سرزمین میں بونا اور اس کی آبیاری کرتے رہنا۔ اس نے یہ بھی کہا تھا:

الفاظ کے پیچوں میں الجھتے نہیں دانا

غوّاص کو مطلب ہے صدف سے کہ گہر سے

اگر اقبالؔ اور قائدِ اعظم ہماری طرح گریہ کرتے رہتے، جس طرح ان کے اکثر ہم عصر کیا کرتے تو پاکستان کبھی وجود نہ پاتا۔ ہماری حالت بھی آج کشمیری اور بھارتی مسلمانوں سے مختلف نہ ہوتی۔ بدترین حالات میں، جب قوم بکھری ہوئی، مضمحل اور منتشر تھی۔ ژولیدہ فکری اور ہیجان کا شکا ر۔ اپنے خواب کی تکمیل کے لیے اپنی سب تاب و توانائی، اپنی تمام جسمانی، ذہنی، اخلاقی اور علمی قوت اس میں کھپا دی۔ آج ہم آزاد ہیں تو انہی کے طفیل۔

مرنے والوں کی جبیں روشن ہے ان ظلمات میں

جس طرح تارے چمکتے ہیں اندھیری رات میں

کشمیر کی آزادی کا راستہ بھی یہی ہے۔ سوچی سمجھی حکمتِ عملی کے تحت جو عرق ریزی اور حکمت سے پیدا ہو اور کامرانی تک مستقل مزاجی سے بروئے کار رہے۔ یومِ کشمیر پر شائع ہونے والے کچھ مضامین پڑھے۔ گریہ ہے اور پیہم گریہ۔ حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کی ناکردہ کاری کا مرثیہ۔ ابھی کچھ دیر پہلے کسی کو فون کیا تو سرکاری اعلان کی بازگشت سنائی دی۔ ان کے ساتھ پورے خلوص سے ڈٹے رہنے کا عزم۔ وہ عزم کہاں ہے۔ اس کے مظاہر کیا ہیں؟

آدھا مضمون برادرم اعجاز الحق کا بھی پڑھا۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ جنرل زندہ ہوتا تو کشمیر اب تک آزاد ہو گیا ہوتا۔ ایک مکمل مضمون قاضی حسین احمد مرحوم کی خدمات پر۔ کوئی شبہ نہیں کہ قاضی حسین احمد آزادیء کشمیر سے مخلص تھے۔ 5فروری کو یومِ احتجاج انہی نے تجویز کیا تھا۔ میاں محمد نواز شریف اور عوامی دباؤ سے محترمہ بے نظیر بھٹو کو یومِ کشمیر منانے پر انہی نے آمادہ کیا تھا۔ ایک اہم نکتہ قاضی صاحب کی صاحب زادی نے اٹھایا ہے۔

خود اپنے سر پہ سہرا سجانے کی بجائے انہوں نے دوسروں کو قائل اور شریک کیا۔ جماعتِ اسلامی کی اسی حکمتِ عملی کا نتیجہ تھا کہ برسوں کشمیر ہمارے قومی ایجنڈے میں نمایاں رہا، حتیٰ کہ جڑواں میناروں کی تباہی کا واقعہ پیش آیا اور سب کچھ استعمار کی گود میں ڈال دیا گیا۔ جو قرینہ تب جماعتِ اسلامی نے اختیار کیا تھا، اب کیوں نہیں۔

یہ 1990ء تھا۔ پاکستان میں سوشلزم کی تحریک زندہ تھی۔ بائیں بازو کے ایک دانشور کو مقبوضہ کشمیر جانے کا موقع ملا۔ واپسی پر انہوں نے لکھا: ڈکٹیٹرکی تصویر کشمیر کے ہر گھر اور ہر مورچے میں مسکراتی ہے۔

اپنے سارے خلوص کے باوجود قاضی صاحب اور جنرل مرحوم کا مسئلہ مگر یہ تھا کہ ارضی حقائق پرکم ہی توجہ عنایت فرماتے۔ جنرل ادراک ہی نہ کر سکا کہ جس ایجنڈے پر وہ عمل پیرا ہے، استعمار اسے گوارا نہیں کرے گا۔ اگر اس سے وہ بغاوت کریں گے تو قوم ان کی پشت پر کھڑی نہیں ہوگی۔ اس لیے کہ وہ منقسم تھی اور اس تقسیم میں خود جنرل کا حصہ تھا۔ قاضی صاحب جذبات سے گاہے اس قدر مغلوب ہوجاتے کہ حیرت ہوتی۔ ایک بار تو انہوں نے کشمیری مجاہدین کی سب سے بڑی تنظیم حزب المجاہدین کے درویش منش سربراہ صلاح الدین کو جہاد سے غداری کا طعنہ بھی دیا۔ اپنے طور پر جب ان کے ایک کمانڈر نے عارضی جنگ بندی کا اعلان کر دیا۔ پیر صاحب اس پر آزردہ تھے۔ اتفاقاً اسی روز ان سے ملاقات ہوئی۔ عرض کیا: وہ ایک مغالطے کا شکار ہیں۔ کچھ دن میں بھول جائیں گے۔ آپ بھی بھول جائیے۔

بولے: میں تو ایک رفیق کے غلط فیصلے سے پیدا ہونے والے نتائج کو سمیٹنے اور اتحاد برقرار رکھنے کی کوشش کر رہا ہوں۔ صلاح الدین کا نکتہ یہ تھا: ردعمل ظاہر کرنے سے پہلے ان کا موقف تو معلوم کر لیا ہوتا۔ عرض کیا: انہیں خود پہ دھبہ لگنے کا اندیشہ ہوا۔

آج بھی یہی عالم ہے۔ دانشور کہتا ہے کہ عمران خان کی حکومت اور اسٹیبلشمنٹ نے کشمیر کا سودا کر لیا۔ سچی بات تو یہ ہے کہ عمران خاں نے کشمیر کا حق ادا کیا او رنہ اسٹیبلشمنٹ نے۔ ایک بھرپور اور عالمگیر سفارتی مہم تو وہ چلا ہی سکتے تھے لیکن کشمیر کمیٹی انہوں نے شہریار آفریدی کو سونپ دی۔ جس طرح کہ نواز شریف اور آصف علی زرداری نے مولانا فضل الرحمٰن کو؛حالانکہ کشمیری جدوجہد کو شرعاً وہ جہاد ہی مانتے نہ تھے، برملا کہہ چکے تھے۔ رہا آفریدی تو وہ بیچارہ کشمیر کی تاریخ سے آشنا ہے، نہ جہاد کی تحریک او ر اس کے خم و پیچ سے۔ ایسے لوگ اثاثہ نہیں بوجھ ہوا کرتے ہیں۔ ایک دوسراآدمی بھی ہے اور اس کا نام نواز شریف ہے، بعض اعتبار سے عمران خان سے جو زیادہ موثر ثابت ہو سکتا ہے۔ اس شخص کو بھارت اور مودی کی مذمت میں ایک لفظ کہنا بھی گوارا نہیں۔

کل کے اخبارات میں کشمیر کے موضوع پر ڈھنگ کی صرف ایک پکار ایسی دیکھی جو موزوں اور برمحل تھی۔ یہ غیر معروف تجارتی اداروں کی طرف سے دیا گیا ایک اشتہار ہے۔ قرآنِ کریم کی ایک آیتِ کریمہ"تمہیں کیا ہے کہ تم اللہ کی راہ میں ان بے بس مردوں، عورتوں اور بچوں کی خاطر نہ لڑو جو کمزور پا کر دبا لیے گئے اور فریاد کر رہے ہیں کہ خدایا ہمیں اس بستی سے نکال۔ اس کے باشندے ظالم ہیں اور اپنی طرف سے ہمارا کوئی حامی ومددگار پیدا کر دے۔"

قرآنِ کریم میں جہاد پر اٹھائیس آیات ہیں۔ ان میں سے صرف آٹھ کا تعلق قتال سے ہے۔ باقی اصلاحِ ذات، جسے سرکارؐ نے جہادِ اکبر کہا تھا اورجدوجہد کے دوسرے قرینے۔ جنگ بندی تو صلاح الدین ایوبی نے بھی کر لی تھی۔ تاتاریوں سے رزم آرائی کے ہنگام رکن الدین بیبرس نے رومیوں سے صلح کیے رکھی۔

ملک کے اندر او ر ملک کے باہر کتنے لوگ ہیں، کشمیریوں کے لیے جو ایثار پر آمادہ ہیں۔ دنیا بھر میں پھیلے ہوئے آر پا ر کے کشمیری اور بے شمار پاکستانی۔ دانشور جو بات کرنے کا سلیقہ رکھتے ہیں اور بدیسی زبانوں پر عبور۔ سیاستدان جو مغرب کو جانتے اور دلائل کی توفیق رکھتے ہیں۔ سرکار اور اسٹیبلشمنٹ نے انہیں متحرک کرنے کی کوئی کوشش نہیں کی۔ رہی اپوزیشن تو اس کے خلوص کا مظہر نواز شریف کی خاموشی ہے، ایک اٹل خاموشی۔

آزادیء کشمیر کی تحریک مر نہیں سکتی۔ یہ پروردگار کا وعدہ ہے کہ ہجرت اور جہاد کرنے والے کبھی ناکام نہ ہوں گے۔ سید علی گیلانی مرحوم نے کہا تھا: شاید ابھی ہم اس اخلاقی معیار کو نہیں پہنچے۔ شاید قدرت ہمیں صیقل کرنا چاہتی ہے۔

کشمیر تو ایک دن آزاد ہو کر رہے گا لیکن اس دن ہم کہاں کھڑے ہوں گے؟ ہم اپنے مالک کو کیا جواب دیں گے۔ یہی کہ ہم روتے بسورتے اور فریاد کرتے، اپنے حکمرانوں کو کوستے اور اپنے تعصبات کا علم لہراتے رہے۔

About Haroon Ur Rasheed

Haroon Ur Rasheed

Haroon Ur Rasheed is a well known analyst and columnist. Currently, he is working with 92 News. He has worked for Dunya News, 92 News and Geo.