آخرِ مئی کے یہ دن کیسی تاریخ ساز شخصیات اور کیسے عظیم الشان واقعات کی یاد دلاتے ہیں۔ جمال و جلال سے لہکے ہوئے ایام۔ یہ الگ بات کہ ہم پلٹ کر نہیں دیکھتے اور دانائے راز کی آوازنہیں سنتے۔
توفیقِ عمل مانگ نیاگانِ کہن سے
شاہاں چہ عجب گربنوازند گدارا
عہدِ رفتہ کے اکابر سے عمل کی توفیق مانگو۔ کیا عجب ہے کہ بادشاہ گدا کو نواز دیں۔ فقہی مسائل سے بحث نہیں کہ اخبار نویس کی یہ بساط ہی نہیں۔ ہاں!مگر یہ تو ہے کہ ان کی داستاں سنو تو مایوسی دھل جاتی اور جذبے جاگ اٹھتے ہیں۔ نور ہی سے اکتساب نور کیا جاتا ہے، چراغ ہی سے چراغ جلتا ہے۔
بیت المقدس کے محاصرے کو ایک ماہ بیت چکا تھا لیکن فتح کے آثار دور دور تک نہیں تھے۔ پھر یہودی علما کا ایک قاصد نمودار ہوا۔ کہ وہ مسلمان جنرل سے ملاقات کے متمنی تھے۔ یہ ابو عبیدہ بن جراح ؓتھے۔ سرکارؐ نے فرمایا تھا: ہر امت کا ایک امین ہوتا ہے۔ میری امت کے امین ابو عبیدہ ؓہیں۔ آخری ایام میں عمر فاروقِ اعظمؓ کہا کرتے: ابوعبیدہ ؓزندہ ہوتے تو انہیں میں اپنا جانشین بناتا۔ اجلی سفید پوشاک پہننے والے عثمان غنی ؓجیتے تھے اور جنابِ علی کرم اللہ وجہ بھی۔ پھر بھی انہیں ابو عبیدہؓ یاد آیا کرتے۔
یروشلم میں جب آخر کار وہ پہنچے اور ان کے حجرے میں تشریف لے گئے تو آنکھیں نم ہو گئیں۔ ارشاد کیا: آپؐ کے بعد ہم سب تھوڑے تھوڑے بدل گئے، آپ نہیں بدلے۔ وہی ایک چھوٹا سا مشکیزہ، وہی لکڑی کا ایک پیالہ، وہی ایک شمشیر، وہی ایک ڈھال، وہی بچھونا۔ وہ پہاڑ سا آدمی، خالد بن ولیدؓ جن کے ماتحت بنائے گئے۔ مسلمہ طور پر تاریخِ انسانی کے سب سے بڑے جنرل۔
شیر شاہ سوری کے حیرت انگیز کارناموں کے بارے میں سوچتے ہوئے، یہ خیال آیا کہ کیا اس عظیم فاتح نے جنابِ خالد بن ولیدؓاور عمر فاروقِ اعظمؓ کی سیرت پہ غور کیا ہوگا؟ ان جیسے تو نہیں بلکہ ظہیر الدین بابر ایسے بھی نہیں، لیکن وہ تاریخ کے عظیم ترین مدبرین میں سے ایک تھا۔ رومان پسندی و عملیت پسندی کا ایک عجیب امتزاج۔ فاروقِ اعظمؓ جیسا کون ہو سکتاہے۔ علمی جینئس، انتظامی جینئس اور عسکری نابغہ۔ کہا جاتا ہے کہ آگ، ہوا، پانی اور مٹی پر ان کا حکم چلتا تھا۔ زلزلہ آیا تو زمین پر کوڑا مارا اور کہا کیا میں نے تجھ پر عدل قائم نہیں کیا اور وہ تھم گئی۔
ہر سال زیورات سے لدی پھندی ایک کنواری دوشیزہ دریائے نیل کی نذر کی جاتی۔ معززین نے عمر بن العاص ؓسے اجازت چاہی تو امیر المومنین کو پیغام بھیجا۔ جواب میں ایک خط آیا اور ایک حکم کہ خط کو دریا میں ڈال دیا جائے۔ "تو اپنی مرضی سے بہتا ہے تو نہ بہہ اگر اللہ کے حکم سے بہتا ہے تو بہتا رہ"۔ برسات کے دن آئے تو دریا کی سطح 48فٹ بلند ہو گئی۔ ڈاکٹر حمید اللہ نے لکھا ہے:26نئے ادارے خطاب کے جلیل القدر فرزند نے تشکیل دیے۔ ہندوستان میں یہ اعزاز شیر شاہ سوری کو حاصل ہوا۔
یہ مئی کا آخری ہفتہ تھا۔ پندرھویں صدی کے آخری ایام، جب ایک پچیس سالہ نوجوان نے وہ کارنامہ کر دکھایا، سات سو برس سے مسلمان جس کی آرزو پالتے آئے تھے۔ اس آدمی کو تاریخ نے سلطان محمد فاتح کے نام سے یاد رکھا ہے۔ کمال ایسا ہے کہ لفظ کم پڑتے ہیں۔ پچھلی چھ صدیوں پر اس کا سایہ دراز ہے کہ ماپا نہیں جا سکتا۔ قسطنطنیہ کو اس نے فتح ہی نہ کیا بلکہ اپنے عہد کی ساری دنیا کا دارالحکومت بنا دیا۔
شہر میں داخل ہوا تو دنگ رہ گیا۔ عثمانی توپوں کی پیہم گولہ باری نے شہر پناہ میں شگاف ہی نہ ڈالے تھے، گھن گرج نے خوف کی ایسی گھٹا تانی کہ آبادی برائے نام رہ گئی تھی۔ عمارتیں کھنڈر نہ ہوئی تھیں۔ مکین مگر فرار ہو گئے تھے، خاص طور پر اہلِ یونان۔ دنیا بھر میں اس نے پیغامات بھجوائے: اس شہر میں آن بسو کہ یہاں بہت سے باغ اور محلات ہیں۔
اس بستی کو اب استنبول کہا جاتا ہے۔ شہر کی چاردیواری کے باہر رسولِ اکرمؐ کے ماموں ابو ایوب انصاریؓ کا مزار ہے۔ 120برس کے تھے، جب وہ جہاد کے لیے یہاں آئے۔ صدیوں بعد سلطان محمد فاتح نے ان کا مزار تعمیر کرایا اور ایک مسجد بھی۔ کیوں نہ آتے۔ آپؐ نے فرمایا تھا کہ قسطنطنیہ کو فتح کرنے والا پورا لشکر بہشتِ بریں میں اتارا جائے گا۔
کوشش تو پر خور سلیمان بن عبد الملک نے بھی کی تھی اور پوری کوشش۔ لیکن فتح اس کے نصیب میں نہ تھی۔ ہوتی بھی کیسے، سر میں ہوا بھری تھی۔ کہا کرتا: بجا کہ ابن ابی قحافہ ابوبکرؓ، صدیق ہیں۔ بجا کہ عمر ابنِ خطابؓ، فاروق ہیں، جنابِ عثمانؓ، ذو النورین اور غنی ہیں۔ بجا کہ علی ابنِ ابی طالبؓ شہرِعلم کا دروازہ ہیں لیکن میں بھی تو ایک نوجوان، وجیہہ بادشاہ ہوں۔
ان مبارک اور عظیم ہستیوں سے کسی کا موازنہ کیا۔ یہ بنو امیہ تھے، جنہوں نے اسلام میں پہلے بڑے انحراف کی بنیاد رکھی۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے امت کو تقسیم کر دیا۔ امیر المومنین علی ابن ابی طالب کرم اللہ وجہ کی مسلسل توہین کے مرتکب ہوئے؛تاآنکہ عمر بن عبد العزیزؓ عالمِ اسلام کے پاسباں ہوئے۔ مدینہ منورہ تشریف لے گئے۔ سر جھکائے اہلِ بیت کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ ایک ایک دروازے پر جاتے اور پوچھتے: میرے لیے کوئی خدمت، میرے لیے حکم کیا ہے۔ وظائف جاری کیے۔ اہلِ ایمان میں خاندانِ رسولؐ کی تکریم کا احساس اجاگر کیا۔ فقیرانہ بسر کی اور عہدِ فاروقی کی یاد تازہ کر دی۔ ان کا قصہ عجیب ہے۔
تاریخ کے نادر واقعات میں سے ایک۔ کتنی ہی منفرد جہات ہیں۔ عمر ابنِ خطاب ؓکبھی رات کو گلیوں میں گشت کیا کرتے۔ ایک مکان سے بحث کرتی دو خواتین کی آوازیں سنائی دیں۔ ماں نے بیٹی سے کہا: دودھ میں تھوڑا سا پانی ملا دو۔ بیٹی نے کہا: عمرؓ نے منع کیا ہے۔ "عمر ؓکیا تمہیں دیکھ رہا ہے؟"ماں نے اصرار کیا۔ "عمر ؓ کااللہ تو دیکھ رہا ہے"۔ سویر ہوئی تو اپنے فرزند عاصم کو انہوں نے قائل کیا کہ اس لڑکی سے شادی کر لے۔ عمر بن عبد العزیز ؓ اسی خاتون کے پڑنواسے تھے۔ سلیمان بن عبد الملک سے زندگی میں تو کوئی بڑی بھلائی سرزد نہ ہو سکی۔ آخرِ عمر خوف نے آلیا یا شاید روشنی کی کوئی کرن اس کے باطن میں رہ گئی تھی۔ جنابِ عمر بن عبد العزیزؓ کو جانشین کیا۔ باقی تاریخ ہے۔
آخرِ مئی کے یہ دن کیسی تاریخ ساز شخصیات اور کیسے عظیم الشان واقعات کی یاد دلاتے ہیں۔ جمال و جلال سے لہکے ہوئے ایام۔ یہ الگ بات کہ ہم پلٹ کر نہیں دیکھتے اور دانائے راز کی آواز نہیں سنتے۔
توفیقِ عمل مانگ نیاگانِ کہن سے
شاہاں چہ عجب گربنوازند گدارا