سب سے اہم یہ کہ دلیل نہیں، فقط دھمکی دی جا رہی ہے۔ اس سوال کا جواب کسی کے پاس نہیں کہ فیصلہ اگر سینئر ترین اور قابلِ اعتماد ججوں کو کرنا ہے تو دہائی کیوں ہے، شور شرابا کیوں، اعتماد کیوں نہیں؟
عرب شاعر امرائو القیس نے ایک موقع پر کہا تھا: خبر ایسی آئی ہے کہ یقین ہی نہیں آتا۔ یہ بات سپریم کورٹ بار ایسو سی ایشن کے صدر امان اللہ کنرانی پہ یاد آئی، دھمکیوں پہ دھمکیاں، خوفناک انجام کی دھمکیاں۔ کیا یہ ایک قانون دان کی زبان ہے؟ اللہ کی آخری کتاب میں لکھا ہے: الفتنہ اشد من القتل۔ فتنہ قتل سے بڑا گناہ ہے۔
ایک آدھ نہیں، کتنے ہی گروہ فتنہ پھیلانے میں لگے ہیں۔ کبھی ایسا صرف ایک فریق تھا۔ الطاف حسین اور ان کے ایما پر حرکت میں آنے والا ٹولہ۔ بھارتی خفیہ ایجنسی موصوف کے لیے وسائل فراہم کرتی۔ جس طرح کہ پاکستانی شہریوں کا قتلِ عام کرنے والے درندوں اور بلوچستان کے علیحدگی پسندوں کو۔ جس طرح نظریاتی تخریب کاری کے لیے مغرب بعض این جی اوز کی سرپرستی فرماتا ہے۔ یہ غلبے کی تمنا ہے، یہ طاقت کا کھیل ہے، جو کامل سفاکی اور بے رحمی سے کھیلا جاتا ہے۔ جب اس سے واسطہ آپڑے تو استقامت کے ساتھ، پورے تحمل اور ہوشمندی کی ضرورت ہوتی ہے۔ کمال ہمارا یہ ہے کہ خارجی فتنے تو الگ، باہمی اختلافات میں بھی شدید ہیجان میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ صف بندی کرتے اور نفرت کو ہوا دیتے ہیں۔
معاشرے کو مستحکم رکھنے کے لیے تنازعات طے کرنے کا نظام اہم ترین شرط ہے۔ مضبوط حکومت اور نظامِ عدل اسی لیے لازم ہیں۔ شکایت ابتد امیں اکثر معمولی ہوتی ہے۔ پھر غیبت کی شکل اختیار کرتی ہے۔ رنج اس میں گھلتا چلا جاتاہے۔ اپنے آپ سے ہمدردی کا جذبہ بڑھنے لگتا ہے۔ تجزیہ کرنے کی صلاحیت کم ہوتی چلی جاتی ہے۔ دوسروں پر غلبہ پانے کی جبلت ادراک پہ چھانے لگتی ہے۔ بغض و عناد پیدا ہوتا ہے، جتھے بنتے ہیں اور صف آرائی کا آغاز ہوجاتاہے۔ انجام جس کا کسی کو معلوم نہیں ہوتا۔
1954ء میں اوّل اوّل اس کا تجربہ قادیانیت کے خلاف تحریک میں ہوا تھا۔ پوری طرح عدالتوں کے سپرد کرنے کی بجائے طاقت سے کام لیا گیا۔ ایک طرح کا محدود مارشل لا۔ دو عشرے کے بعد آخر کار قادیانیوں کو اقلیت ہی قرار دینا پڑا، کراچی سے چترال تک پھیلی ہوئی عوامی تحریک سے جب زمین کانپنے لگی۔ یہ نہیں کہ مطالبہ کرنے والوں نے شعور اور توازن کا دامن ہمیشہ تھامے رکھا۔ 1974ء کی تحریک کے ہنگام کئی بے گناہ قتل کیے گئے۔ اصول کی بجائے نفرت جب شعار ہو جائے تو یہی کچھ ہوتاہے۔
1958ء میں بھی یہی ہوا تھا۔ ایوب خاں کے خلاف دلائل کے کیسے ہی انبار لگا دیے جائیں، واقعہ یہ ہے کہ سیاسی جماعتوں نے بھی مارشل لا کے لیے ماحول سازگار کیا۔ 1969ء، 1977ء اور 1999ء میں بھی۔ ایک کم از کم اتفاق رائے میں قومیں زندہ رہتی اور پروان چڑھتی ہیں۔ اس نکتے کو جب بھی نظر انداز کیا جائے گا، طوفان اور تباہی کا اندیشہ رہے گا۔
کہا جا سکتاہے کہ عدلیہ کے باب میں حکومتی روّیہ احتیاط کے منافی ہے۔ کہا جا سکتاہے کہ اس نے تعجیل سے کام لیا۔ کچھ کا خیال ہے کہ صحیح وقت کا انتخاب اس نے نہیں کیا۔ غیر جانبدار لوگوں میں بعض یہ بھی سمجھتے ہیں کہ اس عمل میں کہیں نہ کہیں انتقام کی خو بھی کارفرما ہے، جس طرح کہ حریف سیاسی جماعتوں کے احتساب میں۔ اس نکتہ نظر کو بھی مان لیا جائے تو بھی کیا اختلاف اور احتجاج کی بجائے، آگ بھڑکائی جائے۔ انتقام کے نعرے لگا ئے جائیں اور عدالتوں کو مقفل کرنے کی دھمکی دی جائے۔
جنرل آغا محمد یحییٰ خان، شیخ مجیب الرحمٰن اور ذوالفقار علی بھٹو کو مشرقی پاکستان کی علیحدگی کا ذمہ دار مانا جاتا ہے۔ مبصرین میں سے حسبِ توفیق، ہر ایک اپنے ناپسندیدہ حریف کو زیادہ مرتکب قرار دیتا ہے۔ جس کے لیے نرم گوشہ ہو، ظاہر ہے، اس کے حق میں کوئی نہ کوئی دلیل تراش لی جاتی ہے۔ کم یا زیادہ کی بحث سے قطع نظر، تینوں قصوروار ہیں۔ ٹھنڈے دل سے غور کرنے کی روش نہیں وگرنہ عوامل پیچیدہ تھے۔ ایک صاحب مولانا بھاشانی ہوا کرتے تھے۔ نماز روزے کے پابند، شرعی داڑھی، سادہ زندگی مگر کمیونزم کے علمبردار۔ تحریکِ پاکستان کے کارکن تھے۔ قائدِ اعظم سے ملنے گئے تو سلہٹ کے مسلمانوں کی حالتِ زار کا ذکر کرتے رو دیے۔ بابائے قوم کے مشیر ابو الحسن اصفہانی بہت متاثر ہوئے۔ قائدِ اعظم نے مگر یہ کہا: رونے والوں کی نہیں، مسلمانوں کو صاحبِ عمل لیڈر کی ضرورت ہے۔ ہاں، مسلمانوں کو محمد علی جناح ہی کی ضرورت تھی، جذباتی تواز ن کے اس پیکر کی۔
لیڈر وہ شخص ہوتاہے، جو قوم کی تقسیم اور تعصبات سے بالاہو، وسعتِ نظر رکھتا ہو۔ دانائی، تدبر اور عاقبت اندیشی اسی کا نام ہے کہ آنے والے دنوں کو ملحوظ رکھا جائے۔ آج بھاشانی بہت ہیں، 1970ء اور 1971ء میں جو آگن جالو، آگن جالو یعنی آگ لگائو، آگ لگائو کا نعرہ لگاتے رہے، لگاتے ہی رہے، حتیٰ کہ ملک ٹوٹ گیا۔ شیخ مجیب الرحمٰن کی انتہا پسندی کے لیے وہ راہ ہموار کرتے چلے گئے۔ قائدِ اعظم کی روش پہ چلنے والا آج کوئی نہیں، ٹھنڈے دل سے تجزیے، تحمل اور تدبیر پر جو قائم ہو۔ دوسروں کو بھی اسی کا مشورہ دے۔ نصیحت اس کی سنی جاتی ہے، جو خود بھی عمل پیرا ہو۔ جس کے ا خلاص پہ شبہ نہ ہو۔ جس کا کردار اس کے قول پہ گواہی دے۔
جنرل پرویز مشرف کے خلاف وکلا کی تحریک صرف اس لیے کامیاب نہ رہی کہ سیاسی جماعتیں اس کی پشت پر تھیں۔ صرف اس لیے نہیں کہ دل و جان سے میڈیا نے اس کا ساتھ دیا۔ واقعہ یہ ہے کہ آخر آخر پوری قوم اس کی حمایت میں آکھڑی ہوئی تھی۔ ایک سروے کے مطابق 83فیصد لوگ چیف جسٹس کی بحالی کے حامی تھے۔ صرف چیف جسٹس کی برطرفی نہیں، بہت سے دوسرے عوامل بھی تھے۔ لال مسجد کا سانحہ بیت چکا تھا۔ صرف چیف جسٹس نہیں، اور جج بھی عتاب کا شکار تھے۔
طویل اقتدار کے باوجود دستبرداری پہ جنرل آمادہ نہ تھابلکہ قاف لیگ کی سرپرستی جاری رکھنے پر مصر بھی۔ 12مئی ایسے سانحے رونما ہوئے تھے۔ انسان زندہ جلائے گئے تھے۔ امریکہ اور برطانیہ کم از کم بے نظیر بھٹو کو شامل و شریک کرنے کے حق میں تھے۔ اس کے لیے دبائو ڈال رہے تھے۔ اتنا دبائو کہ جنرل مان گیا تھا۔ ڈرون حملے جاری تھے۔ دہشت گردی عروج پر۔ قتلِ عام کا ایک سلسلہ تھا اور خود پاک فوج میں جنرل کی قبولیت برائے نام رہ گئی تھی۔
صورتِ حال آج مختلف ہے۔ ہنگامہ بڑھ اور پھیل سکتاہے۔ گرانی او ربے روزگاری کے باوجود رائے عامہ کی تائید مگر آسانی سے حاصل نہ ہوگی۔ وکلا بالاخر بٹ جائیں گے کہ کوئی اعلیٰ مقصد ان کے سامنے نہیں۔ ملکی تاریخ کی دو ناکام ترین کرپٹ پارٹیوں کی تائید سے حکومت کو اکھاڑ پھینکنے کی تائید کیوں کی جائے۔ پھر یہ کہ متبادل کیا ہوگا؟ یہ سب سوال ذہنوں میں اٹھیں گے اور جواب دینے والا کوئی نہیں۔
سب سے اہم یہ کہ دلیل نہیں، فقط دھمکی دی جا رہی ہے۔ اس سوال کا جواب کسی کے پاس نہیں کہ فیصلہ اگر سینئر ترین اور قابلِ اعتماد ججوں کو کرنا ہے تو دہائی کیوں ہے، شور شرابا کیوں، اعتماد کیوں نہیں؟