عدل کے لیے سخت فیصلے حکمرانوں کو صادر کرنا پڑتے ہیں اور ضرورت ہو تو کرنے چاہئیں۔ کارِ ریاست کمزور لوگوں کا کام نہیں۔ دلوں کا نم مگر باقی رہنا چاہئیے ورنہ ویرانہ ہوجائے گا، اس میں کچھ اگے گا نہیں۔ اقبالؔ نے یہ کہا تھا
دلِ مردہ دل نہیں ہے، اسے زندہ کر دوبارہ
کہ یہی ہے امتوں کے مرضِ کہن کا چارہ
حکمرانی کے لیے کیا قساوتِ قلبی لازم ہے؟ ڈاکٹر طاہر مسعود کے کالم کا پہلا جملہ پڑھا تو طبیعت میں کوفت پیدا ہوئی۔ ڈاکٹر صاحب کو چالیس بر س سے میں جانتا ہوں۔ پتھر دلی کی وہ حمایت نہیں کر سکتے۔ با ایں ہمہ اس خیال سے اذیت ہوئی کہ کارِ سیاست میں ناروا کو اکثر روا مانا جاتا ہے۔
انسانی تاریخ مغالطوں سے بھری پڑی ہے۔ قرآنِ کریم کہتاہے کہ اکثر لوگ بے علم ہوتے ہیں۔ اپنی اشتہا اور آرزوئوں کے بندے۔ فرمایا: یَا حَسْرَۃً عَلَی الْعِبَادِ۔ بندوں پر افسوس۔ ایک دوسری آیت میں رقم ہے: این تذھبون۔ تم کہاں بھٹکتے پھرتے ہو۔ درجات علم کے ساتھ ہیں، یہ فرمانِ الٰہی ہے۔ تمنائوں اور جبلتوں کی زندگی حیوانی ہے۔ بالیدگی کے ساتھ جینے کے لیے ادراک اور شعور درکار ہے۔ علم چاہئیے اور علم اگر ہو تو وہ لازماً نفیء ذات تک لے جاتا ہے۔ بیسویں صدی میں علامہ بہت، لیڈر بہت، بعض کے پرچم اتنے بلند ہیں کہ نگاہ خیرہ ہوتی ہے۔ مگر چند ممتاز لوگوں ہی میں نفیء ذات کی دمک نظر آتی ہے، ان میں سے ایک اقبال ؔ ہیں۔ ان کی وفات کے اگلے ہی دن سید ابو الاعلیٰ مودودی نے لکھا تھا: مفکر میں فرقہء ملامتیہ کے کچھ آثار پائے جاتے تھے۔
ڈاکو سے درویش ہوجانے والے فضیل بن عیاضؒ مکّہ مکرمہ میں داخل ہو ئے تو ایک ہجوم ان کی زیارت کے لیے بے تاب تھا۔ سیدنا ابراہیمؑ اور رحمتہ اللعالمینؐ کے دیار میں یہ رمضان المبارک کا مہینہ تھا۔ فضیل بن عیاضؒ نے روٹی کا ایک ٹکڑا نکالا اور چبانے لگے۔ ملامت کی آوازیں اٹھیں اور ہجوم چھٹ گیا۔ کسی نے پوچھا: آپ نے یہ کیا کیا؟ فرمایا: مسافر ہوں، روزہ مجھ پر فرض نہیں۔ خلقِ خدا امنڈ کر آئی تو طبیعت میں زعم پیدا ہوا۔ یہی اس کا علاج تھا۔ فضیلؒ کی داستان میں حاشیہ آرائی بہت ہے۔ راوی مگرمتفق ہیں کہ ڈاکے ڈالا کرتے۔ اسی ہنگام ایک سحر تلاوت کی آواز سنائی دی: کیا ابھی وقت نہیں آیا کہ توبہ کرنے والے توبہ کریں؟ فضیلؒ ڈھے پڑے، جھک گئے، سجدہ کیا اور توبہ کی۔
پھر وہ دن آیا کہ امیر المومنین ہارون الرشید کو ان سے ملاقات کے لیے سفیان ثوریؒ کی سفارش درکار ہوئی۔ ہمیشہ کی طرح ذکر و فکر میں مشغول تھے۔ سر اٹھایا تو یہ کہا: اے خوبصورت چہرے والے، تیرا کیا ہوگا؟ تجھے تو ساری امّت کا حساب دینا ہے۔ ہارون الرشید متلون مزاج بہت تھا۔ مہربان ہوتا تو بے حد مہربان اور بگڑا تو برمکیوں کا نام و نشان تک مٹا دینا چاہا، کبھی سلطنت جنہیں سونپ رکھی تھی۔ کبھی درویشوں کی بارگاہ میں جاتا اور کبھی غضب میں مبتلا حریفوں پہ ٹوٹ پڑتا۔ فضیلؒ نے اس سے کہا تھا: عمر بن عبد العزیز ؒ کا راستہ ہی نجات کا راستہ ہے۔
کم سنوں کو اپنی اولاد جانو، ہم عمروں کو بہن بھائی اور بڑوں کو بزرگ۔ بادشاہ اگر آقا ہے تو من مانی کے لیے آزاد۔ عرب محاوروں میں مگر یہ کہا گیا ہے: قوم کاسردار اس کا خادم ہوتاہے۔ تو دوسروں کی طرح اس کے سینے میں ایک گدا ز دل ہونا چاہئیے۔ اور ذمہ داری کا احساس دوسروں سے زیادہ۔ فاروقِ اعظمؓ کے ملاقاتی نے دوسری بار بھی دسترخوان سے گریز کیااور پوچھنے پر کہا: امیر المومنین ہم آپ جیسا روکھا سوکھا نہیں، مرغن کھانا کھاتے ہیں۔ ارشاد کیا: کیا میں نہیں جانتا کہ تازہ چپاتی اور تازہ قورمے کا ذائقہ کیسا ہوتاہے۔ بارِ امانت نے پابند کر رکھا ہے۔
انہی کے نسب سے عمر بن عبد العزیزؒ اٹھے۔ شہزادگی میں بسر کی تھی، خوشبوئوں میں لدے رہتے، بے شمار جاگیریں۔ دوسری بار کم ہی کوئی لباس پہنا۔ جس گلی سے گزرتے خوشبو سے مہک اٹھتی۔ اس شہزادگی میں بھی صداقت شعار اور خوددار۔ ایک بار سلیمان بن عبدالملک نے گھور کر دیکھا تو کہا: عم زاد، دنیا تیرے دسترخوان سے بہت بڑی ہے۔ اس کی مٹی میں روشنی کی کوئی کرن رہ گئی تھی ؛چنانچہ مرتے ہوئے انہیں جانشین کیا۔ جو کچھ تھا، سرکاری خزانے میں ڈال دیا۔ پھر بنو امیہ کی جاگیریں منسوخ کیں۔ نو مسلموں سے جزیہ لینے کے مکروہ رواج کو پامال کر ڈالا۔
ٹیکس گھٹاتے گئے۔ عجیب بات ہے کہ خزانہ بڑھتا گیا۔ ٹیکس گزاری گویا اب عبادت ہو گئی۔ عشاء کی نماز پڑھ چکتے تو اہلِ علم کی مجلس آراستہ ہوتی۔ مسلمہ فقیہہ تھے۔ کچھ دیر فقہ پہ بحث ہوتی، پھر کاروبارِ حکومت پر؛حتیٰ کہ رات بھیگنے لگتی۔ ایک بار کسی نے کہا: امیر المومنین، جس روش پر آپ ہیں، خزانہ اس سے خالی ہو جائے گا۔ طبیعت میں جلال چمک اٹھا۔ فرمایا: میں یہی چاہتا ہوں۔ خزانہ خالی ہو جائے اور میں اس میں جھاڑو دے دوں۔ جیسا کہ تاریخ بتاتی ہے، عملاً اس کے برعکس ہوا، بالکل برعکس۔
صدیوں بعد انہی کے نقشِ قدم پر صلاح الدین ایوبی۔ سرکاری خزانے سے کبھی کچھ نہیں لیا۔ زرعی زمین کی بیشتر آمدن بھی لٹا دیتے۔ ایک عمر ساتھ بتانے والے ان کے سوانح نگار نے لکھا ہے: ہم ان کا کچھ روپیہ چھپا دیا کرتے کہ قرض کی نوبت نہ آئے۔ حالتِ جنگ میں رچرڈ کو ایک بہترین گھوڑا پیش کیا۔ علاج کے لیے طبیب بھیجا۔ یروشلم فتح کیا تو مجبوروں کے گریہ کی تاب نہ لا سکے تھے۔ کچھ کا فدیہ خود ادا کیا۔ باقیوں کا ان کے چھوٹے سگے بھائی اور دوسرے سرداروں نے۔ دل ایسا تھا کہ عکّہ کی جنگ کے ہنگام بھتیجا شہید ہوا تو سب کے سامنے رو دیے۔
دل گیا، رونقِ حیات گئی
غم گیا، ساری کائنات گئی
قائدِ اعظم محمد علی جناح کے دفتر میں کارکنوں کی ایک بڑی تعداد تھی۔ معلوم ہوا کہ ایک رفیق ہوٹل سے کھانا کھاتا ہے۔ اس دن اپنے ساتھ شریک کیا۔۔ دوسرے دن بلایا اور دس روپے کا ایک نوٹ عنایت کیا۔ کہا: ہر روز دوپہر کو اتنے ہی پیسے خزانچی تمہیں دے دیا کرے گا۔ میری بہن کو زیادہ چپاتیاں پکانا پسند نہیں۔ اس زمانے کے ممبئی میں چونی میں ڈھنگ کا کھانا میسر تھا۔
ربع صدی ہوتی ہے، ایک مذہبی سیاسی جماعت کے سربراہ نے مدعو کیا۔ کسی نے ان کے کان میں سرگوشی کی۔ بولے: معافی چاہتا ہوں، آپ کے بھائی کی وفات کا واقعہ ذہن سے اتر گیا تھا۔ ہماری زندگی ایسی ہے کہ غم باقی رہا، نہ خوشی، ہمہ وقت مصروفیت۔ ان کی میز سے اٹھا تو سوچا: یہ بھی کیا زندگی ہے۔ درد اور مسرت کا احساس جاتا رہے تو زندگی کیسی، روئیدگی کیسی؟ شاعر نے کہا تھا۔
یہ تو برے آثار ہیں فانیؔ، غم ہو، خوشی ہو، کچھ تو ہو
یہ کیا دل کا حال ہوا، مسرور نہیں، مغموم نہیں
عدل کے لیے سخت فیصلے حکمرانوں کو صادر کرنا پڑتے ہیں اور ضرورت ہو تو کرنے چاہئیں۔ کارِ ریاست کمزور لوگوں کا کام نہیں۔ دلوں کا نم مگر باقی رہنا چاہئیے ورنہ ویرانہ ہوجائے گا، اس میں کچھ اُگے گا نہیں۔ اقبالؔ نے یہ کہا تھا
دلِ مردہ دل نہیں ہے، اسے زندہ کر دوبارہ
کہ یہی ہے امتوں کے مرضِ کہن کا چارہ