زندگی انشراحِ صدر میں ہوتی ہے، مخمصے میں نہیں۔ یکسوئی، قرآنِ کریم قرار دیتاہے کہ اللہ کے بہترین بندے یکسو ہوتے ہیں۔
بیتے مہ و سال کے کتنے ہی دلگداز منظر جی میں جاگ اٹھے ہیں۔ یادیں ہیں کہ ہجوم کرتی چلی آتی ہیں۔ اللہ اسے برکت دے، اب وہ گمنامی کی گرد میں گم ہو چکا لیکن اس کی اور اس کے فرزند کی تصویر ہمیشہ حافظے میں رہے گی۔ سی ایم ایچ راولپنڈی کی راہداری میں اپنے کڑیل مگر بری طرح زخمی بیٹے کو سہارا دیتے ہوئے وہ کسی دوسرے وارڈ یا شاید گھر کی طرف روانہ تھے۔ کچھ ہی دیر پہلے اتفاقاً ملاقات ہوئی تھی۔ اشارہ تک نہ کیا کہ کیا بیتی ہے۔
تنومند اور باہمت باپ لیکن بیٹا تو ایک جوان رعنا تھا، ایک شہسوار۔ چھ فٹ سے نکلتا قد، چوڑا سینہ۔کسی گلی سے گزرتا ہو تو لوگ پلٹ پلٹ کر دیکھیں۔ میں سکتے میں آ گیا۔ پھر ہمت باندھی اور پلٹ کر ان کے ساتھ چل پڑا۔ جس قدر ممکن تھا، دھیمی آواز میں پوچھا کہ کیا ہوا۔ وزیرستان سے اپنی جیپ میں وہ گھر لوٹ رہا تھا۔ راہ میں قاتلوں نے گھات لگائی۔ بری طرح زخمی مگر پیکرِ صبر و قرار۔ باپ کے کاندھے پر سر ٹکائے ایک ایک قدم گھسٹتا ہوا مگر چہرے پر درد کے ساتھ اطمینان۔ وہ جو زندگی کا سودا کرلینے والوں میں ہوتا ہے۔
ہم چٹانیں ہیں کوئی ریت کے ساحل تو نہیں
شوق سے شہر پناہوں میں لگا دو ہم کو
پرسوں وزیرستان کے حادثے پر ایسے کتنے ہی مناظر دھند سے ابھرے۔ اگر یہ لوگ نہ ہوتے تو پاکستان ایک اور شام، ایک اور لیبیا، ایک اور عراق، ایک اور افغانستان بن گیا ہوتا۔ کل چار اور سپاہی شہید ہوئے ہیں۔ ایک کا تعلق ہنزہ، دوسرے کا کراچی اور تیسرے کا چکوال سے ہے۔ زمین کا کوئی گوشہ ایسا نہیں، جہاں گلستان نہ مہک رہے ہوں۔ میدانِ جنگ کی کہانیاں توعبرت خیز اور ولولہ انگیز ہیں ہی۔ ہردوسرے کارزار میں بھی یہی لوگ سرخرو رہے۔ زلزلے آئیں یا سیلاب، ڈیم کے لیے چندے کی ضرورت پڑے یا سرحدوں پہ سرخ لہو کی، سب سے نمایاں وہی۔
ہم سب باتیں بنانے والے ہیں۔ حب الوطنی کے دعوے بہت مگر مشکل آپڑے تو ڈھے پڑتے ہیں۔ بحران آیا تو ساری قوم ڈالر خریدنے نکل پڑی۔ ایک دوست نے بتایا کہ اس کے حجام نے چند لاکھ روپے جمع کر رکھے تھے۔ سیاستدانوں، تاجروں او رٹیکس خوروں کی نوازش سے ڈالر مہنگا ہوا تو اس نے پوچھا : کیا میں بھی ڈالر خرید لوں؟ دودھ پینے والے مجنوں بہت، خون دینے والے بہت کم۔ یہ ایک قوم ہے یا ایک بھیڑ۔
سورج سبھی پہ ایک طرح چمکتا ہے۔ چاندنی اور تمازت ایک طرح سب بستیوں پہ اترتی ہے۔ سب زخم دہائی دیتے ہیں۔ موسمِ گل سبھی پہ یکساں مہربان ہوتا ہے مگر ردّعمل سب کا ایک جیسا نہیں ہوتا۔ شاعر نے کہا تھا :
عشق کی چوٹ تو پڑتی ہے دلوں پہ یکساں
ظرف کے فرق سے انداز بدل جاتے ہیں
یہ تربیت کا فرق ہے، تربیت اور ماحول کا۔ ایک ہی خاندان کا آدمی سیاست میں جاتاہے، پولیس میں بھرتی ہوتا ہے، صحافت یا کاروبار کا رخ کرتا ہے۔ پھر اپنے کردار میں وہ مختلف کیسے ہو جاتے ہیں۔ وہ انہی گرد آلود دیہات، روکھے پھیکے قصبات یاچمکتے دمکتے شہروں سے اٹھتے ہیں، پھر ان کی ترجیحات اور اندازِ زندگی بدل کیوں جاتا ہے۔ شہریوں میں بھی ایسے ہیں کہ رشک آتاہے۔ سرگودھا کا وہ زمیندار جس نے 101یتیم بچوں کو سایہ فراہم کیا۔ انہیں اپنے کھیتوں کی گندم کھلاتا اور اپنی بھینسوں کا دودھ پلاتا ہے۔
اپنے ذاتی وسائل سے اس معیار کی تعلیم انہیں دیتا ہے کہ سرکاری سکولوں میں جس کا تصور بھی نہیں۔ پھر ایسا کیوں ہوتا ہے کہ قومی اسمبلی کا ٹکٹ دینے کا وقت آئے تو سالہا سال کی قربانیاں نظر انداز کر کے پیپلزپارٹی اور نون لیگ سے فیض پا کر پی ٹی آئی میں براجمان ہونے والی خاتون کو اس پہ ترجیح دی جائے۔ ریڈ فائونڈیشن، غزالی فائونڈیشن، تعمیرِ ملّت فائونڈیشن اور اخوت ایسے قابلِ قدر ادارے ہیں۔
پھر ایسا کیوں ہوتا ہے کہ پنجاب حکومت اخوت کے ان کارکنوں کی تنخواہ روک لیتی ہے، جو ا س کے ایما پر غیر سودی قرضے بانٹتے اور پورے کے پورے وصول کر کے واپس کرتے ہیں۔ یہ سانحہ تو شہباز شریف کے دور میں بھی نہ ہوا تھا، تالیوں کی آواز سنے بغیر جنہیں نیند نہ آتی تھی۔ نمل کالج اور شوکت خانم ہسپتال چلانے والے عمران خان کے عہد میں ایسا کیوں ہوا َ؟ کیا پی ٹی آئی میں داد وصول کرنے اور قومی خزانے کے بل پر سیاست چمکانے کی خواہش شریف خاندان سے بھی بڑھ گئی؟
شاید ہاں، شاید نہیں مگر یہ وہی تربیت، ماحول اور ترجیحات طے کرنے کا سوال ہے۔ جنہیں راستہ معلوم نہ ہو، ان کی کوئی منزل بھی نہیں ہوتی۔
بگولہ رقص میں رہتا ہے، صحرا میں نہیں رہتا
وہ جو میر صاحب نے کہا تھا:
موسم آیا تو نخلِ دار پہ میرؔ
سرِ منصور ہی کا بار آیا
خرابی کے دن آئے تو آگے بڑھ کر فوج ہی نے مالی قربانی بھی پیش کی۔ منفی اندازِ فکر کو محض زبانی دلائل سے بدلا نہیں جا سکتا۔ طعنہ زنی کرنے والے طعنہ زنی کیا ہی کرتے ہیں۔ 1977ء کی صف آرائی میں راولپنڈی کے ایک خوشحال تاجر کا بیٹا پولیس کی فائرنگ سے زندگی ہار گیا۔ پھبتی کسنے کے عادی بے رحم ہوتے ہیں۔ جیسے آج اقتدار کے بھوکے اور این جی اوز کے دسترخوان پہ آسودہ رہنے والے۔ کسی نے طعنہ دیا کہ بھٹو مخالف تحریک کے مرنے والے امریکی ڈالروں کے مرہونِ منت ہیں۔ تب لڑکے کے باپ نے اعلان کیا کہ حکومت کا حامی کوئی جیالا جان دینے پر آمادہ ہو تو وہ ایک لاکھ روپے اس خاندان کی نذر کر دے گا۔ زندگی نذر کرنا سہل نہیں ہے۔ یہ وہی لوگ کر سکتے ہیں جو مقصد کو جان سے زیادہ عزیز رکھ سکتے ہوں۔
اکتیس برس ہوتے ہیں، ایک کشمیری رہنما سے ملاقات ہوئی۔ وادی میں جب جدوجہدِ آزادی کا آغاز تھا۔ عرض کیا : یہ بات کسی طرح سمجھ میں نہیں آتی کہ ہر طرف سے گھرے بے وسیلہ کشمیری بھارتی فوج کا مقابلہ کر سکیں۔ ٹھہرے ہوئے لہجے میں طویل قامت، باوقار آدمی نے کہا : ایک ایسی فضیلت مسلمان کو حاصل ہے کہ کوئی قوم، کوئی طاقت اس کا مقابلہ نہیں کر سکتی۔ وہ اپنا سر پیش کرنے پر آمادہ ہوجاتا ہے۔ اس رسان سے دنیا کی کوئی دوسری قوم ایسا نہیں کر سکتی۔
سیاسی زعما کے بیانات سرسری اور سطحی ہیں، ان کے کردار کی طرح کھوکھلے۔ جاری سیاست کی طرح بے معنی، جن میں کوئی رعنائی اور کوئی ولولہ نہیں۔ شخصیت میں رچائو اور گداز حسنِ کردار سے پھوٹتا ہے، قول وفعل کے آہنگ سے۔ اللہ کے آخری رسولؐ نے فرمایا : جس کے دل میں جہاد کی آرزو کبھی پیدا نہ ہوئی، وہ فسق کی موت مرا۔
فوجی فرشتے نہیں۔ بعض اوقات بھیانک غلطیاں فوجی قیادت نے کی ہیں۔ غیر فوجیوں میں بھی ایسے ہیں کہ ہیرے جواہرات میں بھی تولے جائیں تو کم۔ فرق یہ ہے کہ کچھ ٹھان لیتے ہیں، طے کر لیتے ہیں اورسود و زیاں سے بے نیاز چلتے چلے جاتے ہیں۔ کچھ متذبذب، خلجان اور التباس کے مارے۔ زندگی انشراحِ صدر میں ہوتی ہے، مخمصے میں نہیں۔ یکسوئی، قرآنِ کریم قرار دیتاہے کہ اللہ کے بہترین بندے یکسو ہوتے ہیں۔
پس تحریر:دو اور فوجی کل وزیرستان میں شہید ہو گئے۔ بھارت، امریکہ اور این ڈی ایس خرابی پر تلے ہیں۔ یہ جنگ جیتنے کے لئے سول اداروں کو فوج کی طرح مضبوط کرنا ہو گا۔