سامنے کی بات ہے کہ دشنام طرازی کی جنگ میں فاتح کوئی نہیں ہوتا۔ آخر کو سب کھیت رہتے ہیں۔ عرب بہار کو یاد کیجیے:
بڑھتے بڑھتے حد سے اپنی بڑھ چلا دست ہوس
گھٹتے گھٹتے ایک دن دست دعا رہ جائے گا
عجیب حکومت ہے اور عجیب اپوزیشن۔ تمام تر توجہ ایک دوسرے کے اعصاب توڑنے پر۔ میڈیا رزم گاہ ہے۔ زبانیں شعلے اگلتی اور زخم لگاتی ہیں۔ شیخ رشید، رانا ثناء اللہ نے ایک دوسرے کے بار ے میں جو کچھ کہا، بدترین توقعات میں بھی وہ حیران کن ہے۔
ایک پاگل پن ہے کہ زمین سے آسمان تک محیط۔ حکومت کا ہدف یہ دکھائی دیتا ہے کہ اقتدار کی باقی ماندہ مدت وہ پوری کرے۔ ظاہر ہے کہ امن اس کے لیے درکار ہے۔ پی ٹی آئی کی منزل انتخابات ہیں اور ظاہر ہے کہ اس کے لیے بھی قرار اور سکون لازم ہے۔ رانا ثناء اللہ نے شیخ رشید کو راولپنڈی کا شیطان کہا اور عمران خان کو بے شرم خاں۔ شیخ صاحب کو دھمکایا کہ گھر سے نکلنے کی اجازت نہیں ملے گی۔
شیخ صاحب نے کہا تھا کہ اسلام آباد کی طرف عوامی مارچ خونی ہو سکتاہے۔ وزیرِ داخلہ نے مراد اس سے یہ لی کہ وہ خون بہانے کے آرزومند ہیں۔ اس میں شبہ نہیں کہ رویہ شیخ صاحب کا اشتعال انگیز تھا۔ سرکاری وفد کے مدینہ منورہ جانے سے پہلے اعلان فرمایا کہ جہاں کہیں حکمران اور ان کے حواری جائینگے، ان پر آوازے کسے جائیں گے۔
واقعے کی تفصیلات معلوم ہیں اور نتائج پیدا کر چکیں۔ حجازِ مقدس سے راولپنڈی پہنچتے ہی ان کے بھتیجے شیخ راشد کو گرفتار کر لیا گیا۔ عدالت نے ضمانت پہ رہا کرنے سے انکار کر دیا اور چار پانچ دن کے بعد ریمانڈ پر جیل بھیج دیا۔ الزام یہ کہ پی ٹی آئی نے پہلے سے منصوبہ بنا رکھا تھا۔ شیخ رشید اس کے سرغنہ تھے اور بھتیجا آلہء کار۔ بعض سرکاری لیڈروں نے خان صاحب کو بھی ذمہ دار ٹھہرایا۔ پی ٹی آئی کے حامی اخبار نویسوں کا دعویٰ ہے کہ مدینہ منورہ کے گرفتار ہونے والوں میں نون لیگ کے دو کارکن بھی شامل ہیں۔ شیخ صاحب کہتے ہیں کہ ان کا بھتیجا وہاں موجود ہی نہ تھا۔
حقیقت کیا ہے، کچھ کہنا مشکل ہے۔ فوری اشتعال کے نتیجے میں واقعہ پیش آیا یا پہلے سے پھیلی کشیدگی کا نتیجہ۔ دونوں طرف کا لہجہ البتہ افسوسناک ہے۔ جلتی پہ تیل:
لگے منہ بھی چڑھانے دیتے دیتے گالیاں صاحب
زباں بگڑی تو بگڑی تھی، خبر لیجے دہن بگڑا
رانا صاحب کا کہنا یہ تھا کہ سابق وزیرِ داخلہ ایک طرف تو تیس مار خاں بنے بیٹھے ہیں۔ دوسری طرف ڈرتے کانپتے عدالت پہنچے اور ضمانت قبل از گرفتاری حاصل کی۔
پی ٹی آئی کا ہدف اگر الیکشن ہے توظاہر ہے کہ دباؤ بڑھانے کی ضرورت ہے۔ دباؤ مگر دھمکیاں نہیں۔ دھمکیوں پہ حکومت سپرانداز ہوتی ہے تو گویا انتخاب سے پہلے ہی شکست مان لی۔ عمران خان کا لہجہ سخت ہے مگر شیخ صاحب کی مانند نہیں۔ موصوف کا مسئلہ یہ ہے کہ لسانی طور پر نہایت مفلس واقع ہوئے ہیں۔ الفاظ کے انتخاب میں احتیاط ان کا شیوہ نہیں۔ نتائج سے بے پرواہ، وہ ہانکتے چلے جاتے ہیں۔ کبھی تو ایسی بات کہتے ہیں کہ آدمی دنگ رہ جاتا ہے:
پاپوش میں لگائی کرن آفتاب کی
جو بات کی خدا کی قسم لاجواب کی
انگریزی بولنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن اردو میں بھی مافی الضمیر بیان کرنے پر قادر نہیں۔ شیخ صاحب بہادر بھی بہت ہیں اور خوف زدہ بھی اتنے ہی۔ الزام یہ ہے کہ وہ قتل کیے جا سکتے ہیں۔ سات آدمیوں کی فہرست جاری کی ہے کہ حادثہ ہوا تو فلاں اور فلاں ذمہ دار ہوں گے۔
رانا صاحب نہلے پہ دہلا مارتے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ ایک طے شدہ جنگ سے پہلے دو متحارب ملکوں کے لیڈر ایک دوسرے کو للکار رہے ہوں۔ صفحۂ ہستی سے مٹا دینے کا پیام۔ کون کس کو مٹا سکتاہے۔ ہر کامیابی اور ناکامی داخلی ہوتی ہے۔ کسی بھی فرد یا گروہ کے اپنے اعمال کا نتیجہ۔ رہا الیکشن تو اس میں ووٹ گنے جاتے ہیں، گالیاں نہیں۔
اردو زبان کے سب سے بڑے شاعر نے کہا تھا کہ ہم حریفِ بذلہ ہیں، حریفِ دشنام نہیں۔ آج کے پاکستان میں گالم گلوچ کا مقابلہ ہے۔ الا ما شاء اللہ میڈیا بھی جس میں فریق بن چکا۔ اصل میدان سوشل میڈیا ہے، دشنام طرازی جہاں ان حدوں کو چھو رہی ہے کہ ہمیشہ سے تلخ تاریخ میں اس درجہ بدزبانی کی ایسی کوئی دوسری مثال شاید ہی ملے۔
1970ء کے عشرے میں پیپلزپارٹی کے لوگ غالباً اتنے ہی تند خو تھے اور ان کے لیڈر ذوالفقار علی بھٹو بھی۔ مذہبی جماعتیں بھی باہم دست و گریباں رہتیں۔ جمعیت علماء اسلام کے دو ہفتہ وار جریدے سید ابو الاعلیٰ مودودی، ان کے خاندان اور پارٹی کی کردار کشی پہ تلے رہتے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ ان میں سے ایک یعنی "خدام الدین"مولانا احمد علی لاہوری نے جاری کیا تھا۔ اب جانشینوں کے ہاتھ میں تھا۔ مولانا احمد علی لاہوری کو سید ابو الاعلیٰ مودودی نے زہد و تقویٰ کا پیکر کہا تھا۔
پھر حضرت مولانا کوثر نیازی مرحوم کا ہفت روزہ "شہاب"منظرِ عام پر آیا۔ تمام حدود اس نے پامال کر دیں۔ سید صاحب کا حسنِ بیاں ضرب المثل تھا۔ بابائے اردو، مولوی عبد الحق نے کہا تھا: "اردو زبان کو ابو الاعلیٰ مودودی نے شائستگی بخش دی"۔ کج بحثی میں ان کے پیروکار بھی مگر کم نہ تھے۔ گفتگو کرتے ان کی رگیں پھول جاتیں۔ کمیونزم کے خلاف ان کا مقدمہ اس قدر مضبوط تھا کہ چیخنے چلانے کی ضرورت ہی نہیں تھی۔ انسانی نفسیات سے متصادم ایک مکروہ نظام، جسے بالاخر ماسکو اور بیجنگ میں بھی رسوا ہونا تھا۔
لطیفوں کا لطیفہ یہ ہے کہ "خدام الدین"کے ایڈیٹر ڈاکٹر کمال نامی ایک صاحب تھے، جو بعد ازاں روسی سفارت خانے میں ملازم ہو گئے۔ جمعیت علماہِ اسلام سے پہلے جماعتِ اسلامی سے وابستہ ہونے کی کوشش کی تھی۔ رحیم یار خاں میں مقیم تھے۔ رکنیت کی درخواست ضلعی امیر ڈاکٹرنذیر مسلم کو بھیجی گئی تومولانا مودودی کی سفارش کے باوجود، صاف صاف انہوں نے انکار کر دیا اور کہا: یہ آدمی مجھے کمیونسٹ لگتا ہے۔ ان کی پیشگوئی پوری ہوئی۔ آخری عمر میں ایک بار ان سے پوچھا کہ آپ کو یہ اندازہ کیسے ہو ا۔ ان کا جواب یہ تھا: چھٹی حس سے۔ دل نہیں مانتا تھا۔ بالاخر پہنچی وہیں پہ خاک جہاں کا خمیر تھا۔
مفتی محمود کے بعد جمعیت علماء ِاسلام کے دوسرے سب سے اہم لیڈر، بفہ کے مولانا غلام غوث ہزاروی کا شیوہ کردار کشی تھا۔ غصہ ناک پہ دھرا رہتا۔ آخر کو مفتی محمود سے بھی بگڑ گئے اور بھٹو کے ساتھ جا کھڑے ہوئے۔
عوامی جلسوں میں پی ٹی آئی کی برتری ثابت ہو چکی۔ اب آگ بھڑکانے کی ضرورت کیا ہے۔ مزاج کا مگر کیا کیجیے۔ آدمی کی افتادِ طبع ہی اس کی تقدیر ہے۔ محترمہ مریم نواز کے جلسوں میں سامعین کی تعداد عمران خاں کے مقابل دسواں حصہ بھی نہیں ہوتی۔ میدان میں وہ ہار چکے لیکن سب سیاسی پارٹیاں اور اقتدار کا پورا نظام ان کی پشت پہ کھڑا ہے۔ بہت سے لوگوں کو یقین ہے اور مکمل یقین کہ امریکہ بہادر بھی ان کا پشت پناہ ہے۔
سامنے کی بات ہے کہ دشنام طرازی کی جنگ میں فاتح کوئی نہیں ہوتا۔ آخر کو سب کھیت رہتے ہیں۔ عرب بہار کو یاد کیجیے:
بڑھتے بڑھتے حد سے اپنی بڑھ چلا دست ہوس
گھٹتے گھٹتے ایک دن دست دعا رہ جائے گا