معاملہ ہے ریاست اور عوام کے تعلق کا۔ ناقص رشتے پر اعتماد کیسے استوار ہو؟ لیڈروں کو چھوڑیے، کیا دانشور غور فرمائیں گے؟
دردمندی سے کسی نے سوال کیا ہے کہ ہمارے لیڈر اور حکمران ٹیکس کیوں ادا نہیں کرتے۔ تاجر اور صنعت کار بھی۔ اوّل تو یہ تبلیغ کا کام نہیں۔ ہزاروں برس پہلے انسان نے ریاست تشکیل دی اور اپنے بعض حقوق سے دستبردار ہوا تو یہ عین فطری تھا۔ سب سے بڑھ کر آدمی کو امن اور انصاف کی ضرورت ہے۔ حیاتِ اجتماعی میں یہ موزوں لیڈروں کے انتخاب ہی سے ممکن ہے۔ جنہیں اختیار دیاجائے، وہ بھروسے کے قابل ہونے چاہئیں۔
عبادت گزاری ذاتی وصف ہے اور خلوص کارفرما ہو تو آدمی کو درجہ کمال تک لے جائے مگر رہنما کو امین اور صداقت شعار ہونا چاہیے۔ کسی مشاورتی نظام کے سامنے جوابدہ بھی۔ مشورہ کرنے و الا ہی سرخرو ہوتاہے اور وہ بھی موزوں افراد سے۔ مولانا شبیر احمد عثمانی ایسے استثنیٰ بھی ہیں وگرنہ محمد علی جناح راجہ صاحب محمود آباد اور اصفہانی ایسے لوگوں سے تبادلہء خیال کیا کرتے۔ سننے کو وہ مولانا حسرت موہانی کی تلخ ترش بھی تحمل سے سنا کرتے۔ بحث کے لیے وکلا کو ترجیح دیتے کہ بہت لوگوں سے ان کا واسطہ پڑتاہے۔ وہ حقیقت پسند بھی ہوتے ہیں۔
ہماری حکمران، نام نہاد اشرافیہ بدترین ہے۔ اپنے ذاتی مقاصد کے لیے وہ بروئے کار آتی ہے۔ مسلم برصغیر قانون کا پابند کبھی نہ تھا بلکہ نسل در نسل بادشاہوں کا خادم۔ اثر ورسوخ اور وجاہت کے اسیر۔ انہی کو جب ہم چْن لیتے ہیں، بھلے لوگ جب عملی سیاست سے الگ رہتے اور کڑھنے پر اکتفا کرتے ہیں تو نتیجہ معلوم۔
جہاں تک شہریوں کا تعلق ہے، ریاست کا ان سے وہ رشتہ ہی نہیں، جو ہونا چاہیے۔ ریاست جان و مال کی حفاظت کے لیے بنائی گئی۔ اپنے دفاع، زیردستوں اور مظلوموں کی دست گیری کے لیے۔ ایک اچھی پولیس اور نچلی سطح تک فعال نظامِ عدل جس کے لیے درکار ہوتاہے۔ کیا قائد اعظم کے بعد کبھی کسی نے ان اداروں کو جدید اور محکم بنیادوں پر استوار کرنے کی ریاضت کی؟ بابائے قوم نے یہ کہا تھا: آدھی جنگ اچھے لیڈر کے انتخاب سے جیت لی جاتی ہے۔ افتخار عارف نے یہ کہا تھا:
مٹی کی محبت میں ہم آشفتہ سروں نے
وہ قرض اتارے ہیں کہ واجب بھی نہیں تھے
مٹی سے نہیں، آدمی کو اس سازگار ماحول سے الفت ہوتی ہے، جو تحفظ اور عزتِ نفس کی ضمانت دے۔ قانون کی پاسداری اور فروغِ علم کے سوا، مغرب کی بالاتری اسی میں ہے۔ امن اور سیاسی استحکام ہی سے معیشت فروغ پاتی اور صلاحیت نکھر کر معجزے رونما کرتی ہے۔ مغرب تو الگ کہ صدیوں کا تجربہ ہے۔ دبئی، دنیا کا دوسرا بڑا تجارتی مرکز کیسے بنا؟ اچھی پولیس، تحفظ اور کشادہ مزاجی۔ حوصلہ افزائی انسانی ذہن کی سب سے بڑی ضرورت ہے۔ دبئی کا حکمران زید بن سلطان النہیان نسلاً بلوچ تھا، فطرت کے قریب تر۔ اس کے بارے میں بے سروپا افسانے ہم سنتے ہیں۔ رحیم یار خاں میں میرے کتنے ہی دوستوں نے تین عشرے تک اسے قریب سے دیکھا۔ بہت تعلیم یافتہ نہ سہی مگر وہ غور و فکر کرنے او رانسانی نفسیات کا ادراک رکھنے و الا تھا۔ خس و خاشاک پہ جس نے تاریخ تعمیر کی۔
بعض بڑی عرب ریاستوں نے ہزاروں ارب ڈالر ضائع کر دئیے۔ ایک عرب شہزادے کے محلات کی قیمت 50ارب ڈالر ہے۔ بعض امیر عرب ممالک کے دیہی علاقوں میں غربت اب تیزی سے پھیل رہی ہے۔ فارسی کے جلیل القدر شاعر حافظ شیرازی کا شعر لہک لہک کر پڑھا جاتاہے
خلل پذیر بود ہر بنا کہ می بینی
مگر بنائے محبت کہ خالی از خلل است
زیبا صورتوں میں مبتلا ہونے کی بات الگ ہے، جو جنون پیدا کرتی اور چمگادڑ کی طرح الٹا لٹکائے رکھتی ہیں۔ اجتماعی زندگی میں انصاف اور ہمدردی پائیدار استحکام کی بنیاد ہوا کرتی ہے۔ قائد اعظم کے نام ایک خط میں علامہ اقبالؔ نے لکھا: مسلم برصغیر اس سیاسی جماعت کو قبول کرے گا، جو روٹی کا مسئلہ حل کرے گی۔ اٹھارویں صدی کے آخر میں ٹیپو سلطان نے کامیاب تجربہ کیا۔ برطانیہ میں سوشل سکیورٹی سسٹم 1950ء کے عشرے میں رائج ہوا۔ ہمارے جسٹس افتخار چیمہ کو، جو نصف صدی پہلے برطانیہ میں زیرِ تعلیم تھے، ان کے پروفیسر نے بتایا تھا کہ یہ تصور انہوں نے فاروقِ اعظمؓ سے لیا تھا۔ وہ چرچل کے حلیف امیدواروں کی انتخابی مہم کے نگرانوں میں سے ایک تھے۔ سکینڈے نیویا میں تو اسے عمر لاء ہی کہا جاتاہے۔
حکمتِ عملی نہیں، یہ سچی درد مندی تھی۔ قرآنِ کریم کی پہلی آیت یہ ہے: یہ ہے وہ کتاب، جس میں کوئی شک نہیں، ان کے لیے ہدایت، غیب پرایمان لاتے ہیں، نماز قائم کرتے اور جو رزق ہم نے انہیں عطا کیا، اس میں سے خرچ کرتے ہیں۔ قرآنی آیات نازل ہونے کے باوجود، سرکارؐ نے سود پرفوراً نہیں، برسوں بعد خطبۂ حجۃ الوداع کے دن پابندی لگائی "آج سے میں سارے سود باطل قرار دیتاہوں۔ سب سے پہلے (اپنے چچا) عباس بن عبد المطلب کا"اقبالؔ یورپ سے لوٹ کر آئے تو رنج سے کہا
گرجوں سے کہیں بڑھ کے ہیں بینکوں کی عمارات
مغرب اجڑ گیا ہوتا اگر سوشلزم کی تحریک برپا نہ ہوتی۔ اس سے انہوں نے سبق سیکھا اور محنت کشوں کے لیے حالات موزوں بنائے۔ وگرنہ مفکر کی پیش گوئی بہت پہلے پوری ہو گئی ہوتی:
تمہاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خودکشی کرے گی
جو شاخِ نازک پہ آشیانہ بنے گا، ناپائیدار ہوگا
راولپنڈی میں جماعتِ اسلامی کے اہتمام سے برپا ایک سیمینار میں، عالمِ اسلام کے نامور سکالرز کے سامنے اس عاجز نے ایک سوال اٹھایا تھا۔ اگر امریکہ، یورپ اور جاپان برباد بھی ہو جائیں تو ہمیں کیا حاصل؟ حریف کی تخریب سے کیا حاصل؟ لطف تو تعمیر میں ہے۔ مختصر سی گفتگو ختم ہوئی تو یہ خیال ستاتارہا کہ قرآنِ کریم کی آیت سنانا چاہیے تھی "ولا تَھِنو ولا تحزنوا و انتم الاعلون ان کنتم مومنین" کاہلی نہ کرو اور غم نہ کھاؤ، تمہی غالب رہو گے، اگر تم مومن ہو۔ المیہ یہ ہے کہ سیکھنے، غور کرنے اور خود کو سنوارنے کی بجائے، مغرب کو کوستے ہیں۔ بدترین مولوی، بدترین حاکم ہم پہ مسلّط ہو جاتے ہیں اور ہم گریہ کرتے ہیں۔ دنیا رونے سے نہیں بدلتی، جدوجہد سے۔ برہمی اور اشتعال سے نہیں، تحمل اور منصوبہ بندی سے۔
بہت مشکل ہے دنیا کا سنورنا
تری زلفوں کا پیچ و خم نہیں ہے
عمر ابن خطابؓ نے بوڑھے یہودی کو دیکھا کہ بھیک مانگتا تھا۔ تعجب کا اظہار کیا تو اس نے کہا: کوئی عزیز رشتے دار باقی نہیں، اس پر جزیہ۔ مشیر بلائے گئے، بحث ہوئی۔ فیصلہ یہ ہوا کہ، غیر مسلم بھی ریاست کی ذمہ داری ہیں۔ دو صدیاں ہوتی ہیں، برطانیہ میں جب یہ نعرہ بلند ہوا تھا No taxation without representation۔ سرکار عوام کو جواب دہ نہیں تو ٹیکس وصول کرنے کا اختیار بھی نہیں رکھتی۔ اسلام اس سے ایک قدم آگے تھا اور تیرہ سو برس پہلے بھی۔ ریاست ہر محتاج کی ذمہ دار تھی۔
بارسوخ ٹیکس دہندگان کم از کم 4000ارب روپے ہڑپ کر جاتے ہیں۔ اکثر بڑے لیڈر ان میں شامل ہیں۔ جو کچھ وصول ہوتاہے، اس کا قابلِ ذکر حصہ ضائع کر دیا جاتاہے۔ پھر بھلے لوگ بھی ٹیکس ادا کرنے کی طرف کیوں مائل ہوں؟ وہ خیرات کو ترجیح دیتے ہیں اور ریاست آئی ایم ایف کے حضور سجدہ ریز۔
معاملہ ہے ریاست اور عوام کے تعلق کا۔ ناقص رشتے پر اعتماد کیسے استوار ہو؟ لیڈروں کو چھوڑیے، کیا دانشور غور فرمائیں گے؟