Tuesday, 19 November 2024
  1.  Home/
  2. 92 News/
  3. Faislay Asman Par Hote Hain

Faislay Asman Par Hote Hain

یہ مکافاتِ عمل کی دنیا ہے۔ نتائج سے کسی کو مفر نہیں۔ کبھی کوئی بچا نہیں۔ حکم اللہ کا ہے، بندوں کا نہیں۔ زمین پر نہیں، فیصلے آسمان پہ ہوتے ہیں۔

وہ دن یاد آتے ہیں، عمران خاں جب شریف خاندان کا معتوب تھا، بے نظیر بھٹو اور آصف علی زرداری کا بھی۔ راول جھیل کے مقابل یہ بنی گالہ کے شاندار مکان کی ایک شام تھی۔ اس نے مجھے بتایا کہ بے نظیر بھٹو اور آصف علی زرداری شوکت خانم ہسپتال کا افتتاح کرنا چاہتے تھے۔ اس نے انکار کر دیا۔ بقول عمران زرداری نے پیغام بھیجا کہ انجام اس کا اچھا نہیں ہوگا۔ کچھ دن بعد شوکت خانم ہسپتال میں بم دھماکہ ہوا۔ یہ ایک شاندار عمارت ہے۔ بظاہر باہم جڑی مگر اس کے مختلف حصے ہیں۔ ملک کے بہترین آرکیٹیکٹ نئیر علی دادا اور ایک ممتاز امریکی آرکیٹیکٹ نے یہ شاہکار تعمیر کیا تھا۔ ملحوظ رکھا گیا کہ ایک حصے کو اگرنقصان پہنچے تو دوسرا محفوظ رہے۔

عمران خاں کو یقین تھا کہ یہ آصف علی زرداری کی کارروائی ہے۔ گرمیوں کی ایک گرم دوپہر ِ اسلام آباد سے مری روڈ کی طرف مڑتے ہوئے خاں نے کہا : جنرل حمید گل کہتے ہیں کہ دھماکہ "را " نے کیا ہے، آصف علی زرداری نے نہیں۔ میری رائے بھی یہی تھی کہ آصف علی زرداری اتنا بڑا خطرہ مول لے سکتے ہیں اور نہ اس کا اہتمام کر سکتے ہیں۔ وہ خاموش رہا۔ اس کے جی میں یہ خیال پختہ تھا کہ زرداری کی خوئے انتقام نے اسے پاگل کر ڈالا ہے۔ پولیس افسرچوہدری شفقات اور عمر ورک نے دھماکے کا مجرم بعد ازاں پکڑ لیا۔

آصف علی زرداری سے عمران خاں کی بہت پہلے بھی ایک ملاقات ہوئی تھی، جب وہ شوکت خانم ہسپتال کے لیے در در چندہ مانگتا پھر رہا تھا۔ جیسا کہ اس نے مجھے بتایا، اس کی موجودگی میں جنابِ زرداری نے قرض کے خواہشمندوں سے یہ کہا کہ دس فیصد کے عوض ان کی فرمائش پوری کر دی جائے گی۔"No bureaucratic hurdles" زرداری نے جھمگٹے سے کہا : کوئی چیز رکاوٹ نہیں بنے گی۔ کام شتابی سے ہو جائے گا۔

تب عمران خاں کا تاثر زیادہ خراب نہیں تھا "وہ ایک Charming آدمی توہے " ا س نے کہا، یعنی لبھانے والا۔ غالباً وہ یہ سوچتا رہا کہ بھٹو کی بیٹی نے اس آدمی کو عمر بھر کا رفیق کیسے بنا لیا۔ اس نکتے پر اس نے کچھ زیادہ زور بھی نہ دیا۔ وہ لاہور، میں اسلام آباد میں، ملاقات وقفے وقفے سے ہوا کرتی۔ ایک دن اسے بتایا کہ ہیلی کاپٹر میں سوار راولپنڈی سے ملک سلیمان کے ہاں سیالکوٹ جاتے ہوئے بے نظیر بھٹو نے اپنے ہم سفروں سے کہا کہ اصل خطرہ نواز شریف نہیں، عمران خاں سے ہے۔ اس کے چہرے پر کچھ رونق سی پیدا ہوئی لیکن وہ خاموش رہا۔ آکسفرڈ یونیورسٹی میں دونوں ایک ساتھ رہے تھے۔ وہ اس کے بارے میں دلچسپ واقعات سنایا کرتا۔ خان کا خیال یہ تھا کہ بے نظیر بھٹو بری طرح ناکام رہیں گی۔ انہوں نے کبھی کوئی ذمہ داری سنبھالی ہی نہیں۔ ان کی تربیت ہی نہیں ہوئی۔

ادھر آغازِ کار میں بے نظیر یہ سمجھتی تھیں کہ وہ نواز شریف کو آسانی سے نمٹا دیں گی۔ دوسری طرف عمران خان سے انہیں دھڑکا سا لگا رہتا۔

اوّل اوّل خان کی پذیرائی بھی بہت ہوئی تھی۔ پھر یہ بھی جانتی تھیں کہ وہ ایک ضدی آدمی ہے، لڑاکا اور ڈٹا رہنے والا۔ بعد میں ان کی آرا بدلتی رہیں۔ عمران خاں نے مان لیا کہ بے نظیر مضبوط (Bold)بہت تھیں ؛اگرچہ سخت ناپسند کرنے کے باوجود عاصمہ جہانگیر کو وہ بے نظیر سے زیادہ بہادر گردانتا۔ عاصمہ جہانگیر طے شدہ ترجیحات کی خاتون تھیں مگر بہادر قطعی نہیں بلکہ ردّعمل کا شکار ہونے والی ضدی اور جھگڑالو عورت، جس نے اپنا اعتقاد کھو دیا تھا اور جسے نمودِ ذات کے سوا کسی چیز کی کوئی پرواہ نہ تھی۔ مردم شناسی عمران خاں میں نام کی نہیں۔

طے شدہ منصوبے کے ساتھ، مستقل طور پر عمران خاں کی کردار کشی شریف خاندان نے کی۔ اس ہدف کے ساتھ کہ وہ اسے تباہ کر کے چھوڑیں گے۔ بنی گالہ کے وسیع و عریض مکان کے پرشکوہ دروازے سے داخل ہو ں تو دائیں ہاتھ وہ پاکستانی ٹائلیں نظر آتی ہیں، جو مغل عہد کی ایک پینٹنگ کو مجسم کرتی ہیں۔ فنِ تعمیر سے دلچسپی رکھنے والی جمائما خاں یہ ٹائلیں لندن لے جا رہی تھیں کہ ضبط کر لی گئیں۔ ان پر نوادرات کی سمگلنگ کا مقدمہ بنایا گیا ؛حالانکہ بازار میں یہ ہر کہیں دستیاب تھیں۔ گرفتاری کے خدشے سے 18ماہ وہ وطن واپس نہ آسکیں۔ رنج عمران خان میں پروان چڑھتا گیا۔ ہر ڈیڑھ ماہ بعد فرسٹ کلاس میں سوار، ہفتے بھر کے لیے وہ لندن جاتا ؛ تا آنکہ نواز شریف کا اقتدار تمام ہوا۔

نواز شریف اداکاروں اور کرکٹ کے کھلاڑیوں سے بہت متاثر تھے۔ عمران خان نے پارٹی بنائی تو تیس سیٹوں کی پیشکش کے ساتھ سینیٹر مشاہد حسین کو ان سے ملاقات کے لیے بھیجا گیا۔ اس نے کہا : کیا آپ کہہ سکتے ہیں کہ نواز شریف کرپٹ نہیں اور انکار کر دیا۔ یہ 1996ء کے الیکشن تھے، جن سے قبل راولپنڈی پریس کلب میں اخبار نویسوں سے اس نے کہا تھا" میں ایک طوفان لے کر آئوں گا " وہ بھول گیا کہ اسے " انشاء اللہ " کہنا ہے۔ اپنے آپ پر ا س کا اعتماد حیران کن ہے۔ پے بہ پے کامیابیاں فریبِ نفس میں مبتلا کرتی ہیں، خوشامدیوں کے جھرمٹ میں اور بھی زیادہ۔

نواز شریف برہم تھے۔ وہ کہا کرتے: اتنی اس آدمی کی میں نے عزت کی۔ شوکت خانم ہسپتال کے لیے زمین دی۔ دوسرے کھلاڑیوں کی طرح اسے بھی ایک پلاٹ بخشا۔ تیس سیٹوں کی پیشکش کی۔ اس قدر میں نے اس آدمی کا خیال رکھا۔ یہ مجھے کرپٹ کیوں کہتاہے؟ بے نظیر بھٹو اور نصرت بھٹو کی طرح ایک دن انہوں نے اس کی کردار کشی کا فیصلہ کر لیا۔ ان کے نام معلوم ہیں، جو اس مہم میں شریک تھے۔ ایک پیرس میں ہے، ایک اللہ کے پاس جا چکا۔ دوسرے منہ چھپائے پھرتے یا تاویلیں کرتے ہیں۔

مجید نظامی سے اس مہم میں مدد مانگی گئی اور انہوں نے مدد کی۔ نواز شریف کو حکومت ملی تو عمران خان کے دفاتر پہ چھاپے مارے جاتے۔ اس کے کارکنوں کو ہراساں کیا جاتا۔ اس کی تذلیل کی جاتی، تمسخر اڑایا جاتا۔ ایک لحاظ سے یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے۔ فرق یہ کہ عمران اب زیادہ مضبوط پوزیشن میں ہے۔ دشنام طرازوں کے لشکر دونوں کے ہیں۔ نواز شریف کے پاس زیادہ تر تنخواہ دار، کم رضاکار۔ عمران خان کے پاس سرکاری، درباری اور جوش و جذبے سے ابلتے بے شمار رضاکار بھی۔

نواز شریف بے نظیر بھٹو کے ساتھ تصادم میں ابھرے تھے، فوج اور خفیہ ایجنسیوں کی چھتری تلے۔ عمران خاں زرداری اور نواز شریف، دونوں کے ساتھ تصادم میں اٹھے ہیں اورظاہر ہے کہ پشت پناہی کے ساتھ۔ اس لیے کہ اسٹیبلشمنٹ اور خلقِ خدا کی بہت بڑی تعداد شریف او ر زرداری سے نالاں تھی۔

یہ اقتدار کی جنگ ہے۔ ان سب کے درمیان بس بغض و عناد کا رشتہ ہے۔ ایسی جنگوں کا کوئی فاتح نہیں ہوتا۔ کوئی کتنی ہی دہائی دیتا پھرے، کچھ ہی کہے، ان لڑائیوں میں کبھی کوئی اصول کارفرما نہیں ہوتا۔ اپنے اعمال کی شامت میں شریف اور زرداری خاندان گرفتار ہیں۔ اچھا یا برا، عمران خان سے جو کچھ سرزد ہوگا، ایک دن اسے بھی بھگتنا پڑے گا۔

یہ مکافاتِ عمل کی دنیا ہے۔ نتائج سے کسی کو مفر نہیں۔ کبھی کوئی بچا نہیں۔ حکم اللہ کا ہے، بندوں کا نہیں۔ زمین پر نہیں، فیصلے آسمان پہ ہوتے ہیں۔

About Haroon Ur Rasheed

Haroon Ur Rasheed

Haroon Ur Rasheed is a well known analyst and columnist. Currently, he is working with 92 News. He has worked for Dunya News, 92 News and Geo.