اسدالرحمن خوش بخت ہے کہ اس کے روزشب اور اس کی آرزوئیں ہم آہنگ ہیں۔ گرامی قدر استاد نے کہا:آدمی اتنا ہی شادکام ہوتا ہے جتنا فطرت سے قریب تر ہو۔ اور اتنا ہی بے چین کہ جتنا اس سے دور۔
کم لوگ، ایسی آزاد زندگی کرتے ہیں۔ شہروں کے شور وشر سے پرے۔ ہوا جہاں جنگلوں سے خوشبو چراکر لاتی ہے۔ طلوع آفتاب سے پہلے دن کا آغاز ہوتا ہے۔ چاندنی جہاں چاندنی ہے اور بارش فقط بوندیں ہی نہیں موتی برساتی ہے۔ شام جہاں دبے پائوں اترتی ہے اور ہر شب کا سناٹا، بجائے خود ایک داستان۔ اسد الرحمن ان میں سے ایک کہانی ہے جو تفصیل کا تقاضا کرتی ہے۔ اس سے ملاقات کے لئے جب میانوالی نہیں جا سکتا۔ سبطین خان کے قصبے پپلاں سے آگے، کھیتوں کی ہریالی کے درمیان، اس وسیع مگر سادہ سے مکان میں۔ تب اس سے تازہ اشعار کی فرمائش کرتا ہوں۔ یہ تازہ غزلوں کا انتخاب ہے۔
احمد ندیم قاسمی اس حسرت کے ساتھ دنیا سے اٹھے کہ کبھی وہ وادی سون میں لوٹ جائیں گے۔ اقبال نے کہا تھا:دامن میں کوہ کے اک چھوٹا سا جھونپڑا ہو۔ اسد اللہ خان غالب بادِ صبا کے قتیل تھے:
ہے ہوا میں شراب کی تاثیر
بادہ نوشی ہے بادہ پیمائی
کیا اس تازہ کلام میں بادہ پیمائی کا اعجاز نہیں، مشرق کے عظیم فلسفی نے جس کی آرزو کی تھی:
مرا حریف یونہی مجھ سے ڈر نہیں رہا تھا
شکست خوردہ تھا مَیں اور مر نہیں رہا تھا
جسے وفا کی طلب تھی وہ میرے پاس آیا
یہ کام میرے سوا کوئی کر نہیں رہا تھا
پھر ایک نام کو انگلی سے لکھ دیا دل پر
کوئی بھی ٹوٹکا جب کارگر نہیں رہا تھا
ہر ایک اپنے ہی گھر کو بچا رہا تھا جہاں
یہ جان لو کہ وہاں کوئی گھر نہیں رہا تھا
سزا کے طور پہ زندہ رکھا گیا مجھ کو
مَیں اپنے ہونے کا تاوان بھر نہیں رہا تھا
٭٭٭
کیا پاتے ہیں عشاق بھلا کارِ جنوں سے
جیتے ہیں تسلی سے نہ مرتے ہیں سکوں سے
اب اس کو بھی ہر روز نیا اسم ہے درکار
جو سلسلہ چھیڑا تھا فقط کْن فیکوں سے
اْس دودھیا گردن میں ہے جو زلف کا حلقہ
لپٹا ہوا اک ناگ ہے مرمر کے ستوں سے
کیا طُرفہ تماشا ہے، شکیبائی کی دولت
سب مانگنے آتے ہیں ترے خوار و زبوں سے
کانوں کی لویں کھاتی ہیں جذبات کی چغلی
جلتا ہے مرا جسم عجب سوزِ دروں سے
بھولا نہیں اب تک مَیں طلسمات کی دنیا
نکلے ہوئے مدت ہوئی اْس شہرِ فسوں سے
گو رفعتِ پرواز ترا خواب ہے لیکن
بوجھل ہے تری سوچ ابھی حرفِ نِگوں سے
٭٭٭
کانوں سے اِشرَبْو کی صدا دْور تو نہیں
میٹھے کنویں سے آبلہ پا دُور تو نہیں
دیکھیں تو اشک بھر ہے مسافت تمام تر
حرفِ دعا سے دستِ عطا دُور تو نہیں
دل پھر بھی چاہتا ہے کہ یہ فاصلہ نہ ہو
حالانکہ شاہ رگ سے خدا دُور تو نہیں
گر ایک رات کاٹ لے میری طرح چراغ
خود پوچھتا پھرے گا ہوا دُور تو نہیں
آواز آ ہی جائے گی لہروں کے دوش پر
زندان سے وہ نغمہ سرادُور تو نہیں
کم پڑ رہا ہے یاں مری دیوانگی کو دشت
اے شَہپرِ جنوں! خلادُور تو نہیں
نقصِ طلب ہے راہ کی دیوار ورنہ یوں
پائے گدا سے شہرِ سخا دُور تو نہیں
٭٭٭
اگلے پَل ہی سامنے پھر کھینچ لاتا ہے مجھے
اتنی جلدی آئنہ کیا بھول جاتا ہے مجھے
وار میرا آج بھی کاری ہے لیکن کیا کروں
بَین کرتی عورتوں سے خوف آتا ہے مجھے
٭٭٭
کوئی واجب نہیں قضا مجھ پر
فرض تھی اپنی اقتدا مجھ پر
لے چلے جس کے ہاتھ لگ جاؤں
میرا دعویٰ نہیں رہا مجھ پر
مَیں تو بس ہار مان بیٹھا تھا
اور پھر کوئی ہنس پڑا مجھ پر
تیری مسجد بھی قِبلَتَین ہوئی
طنز کرتا ہے بُت کدہ مجھ پر
پہلے کیا آٹھ آسمان تھے یہ
ایک تو ٹُوٹ کے گِرا مجھ پر
مَیں نے جلنا تھا تا سحر لیکن
مہرباں ہوگئی ہوا مجھ پر
مَیں ہوں بس آخری مرید اپنا
ختم ہے میرا سلسلہ مجھ پر
٭٭٭
حدِ امکاں سے کچھ ورا بھی نہیں
یہ نہیں ہے کہ اب خدا بھی نہیں
اک توتنہا روی کی عادت تھی
دوسرا ساتھ کوئی تھا بھی نہیں
جس قدر آسماں کا پوچھتے ہو
مَیں وہاں اتنا تو رہا بھی نہیں
صرف سانسوں کے سلسلے تک ہے
درد کچھ ایسا دیرپا بھی نہیں
کوئی بتلائے میرے بارے میں
میرا خود سے تو رابطہ بھی نہیں
ہجر کی رات یہ بھی دیکھ لیا
وقت اتنا گریز پا بھی نہیں
خود کو اچھا سمجھنے لگ جاوں
اب مَیں اتنا اسد بُرا بھی نہیں
اسدالرحمن خوش بخت ہے کہ اس کے روزشب اور اس کی آرزوئیں ہم آہنگ ہیں۔ گرامی قدر استاد نے کہا:آدمی اتنا ہی شادکام ہوتا ہے جتنا فطرت سے قریب تر ہو۔