جج صاحب کا کیا ہو گا؟ محترمہ مریم نواز ان کے یمین و یسارکا کیا ہو گا؟ گرداب میں کشتی خال ہی بچتی ہے۔ بھنور میں بادشاہ کم ہی بچتے ہیں۔ گرہ بھنور کی کھلے تو کیونکر بھنور ہے تقدیر کا بہانہ۔
سید ابوالاعلیٰ مودودی کا بیان، 7دسمبر 1970ء کے اخبارات میں چھپا :کسی طرح یہ بات میری سمجھ میں نہیں آتی کہ جماعت اسلامی الیکشن ہار سکتی ہے۔ سید صاحب کا اندازہ یکسر غلط نکلا۔ ادھر بنگالی قومی پرستی کا ادھر بھٹو کاجادو سر چڑھ کے بولا۔ گل فشاں وعدے۔ مشرقی پاکستان میں شیخ مجیب الرحمن نے سب کا صفایا کر دیا۔ نورالامین اور چٹا گانگ میں چکمہ قبائل کے سردار، افسانہ نگار تری دیو رائے کے سوا سب کے سب ڈھے گئے۔ اکثربنگالی برہم تھے، باقی کسر کے مسلح جتھوں نے پوری کر دی۔ مغربی پاکستان میں قومی اسمبلی کی صرف چار نشستیں جماعت اسلامی جیت سکی:اگرچہ ان میں پروفیسر غفور احمد بھی تھے۔ نجیب یکسو اور دلاور۔
سیدابوالاعلیٰ مودودی اور مولانا امین احسن اصلاحی کے دیرینہ رفیق، ماموں جان ڈاکٹر محمد نذیر مسلم لاہور تشریف لائے اچھرہ میں مولانا اصلاحی سے ملنے گئے تو بھانجے کو ساتھ لے گئے۔ جیسا کہ ان کا شعار تھا، بے ساختہ اور بے تکلف تبصرہ کیا:ایک طرف تو یہ عالم کہ جماعت کے جیالے پٹھے پہ ہاتھ نہ دھرنے دیتے۔ دوسری طرف ایسے شکستہ دل، ایسے شکست خوردہ!
جب کشتی ثابت و سالم تھی ساحل کی تمنا کس کو تھی
اب ایسی شکستہ کشتی پہ ساحل کی تمنا کون کرے
شیخ مجیب الرحمن اور بھٹو کا ذکر چھڑااتو کہا کہ جذبات کی آگ بھڑکانے والے لیڈروں کو ان کے تضادات تباہ کر دیں گے۔ استحضارغضب کا تھا۔ اساتذہ کے شعر نو کِ زباں رہتے۔ کہا کہ:ہیولا برقِ خرمن کا ہے خونِ گرم دہقاں کامری تعمیر میں مضمر ہے، اک صورت خرابی کیفوراً ہی اس پر اضافہ بھی کیا۔
الجھا ہے پائوں یارکا زلفِ دراز میں
لو آپ اپنے دام میں صیاد آ گیا
اگلے ہی دن روزنامہ کوہستان میں اس ملاقات کی رودادلکھی۔ جماعت اسلامی کا ذکر نہ کیا کہ قلم زد ہو جاتا، باقی تمام تفصیل۔ چند ماہ قبل، انتخابی مہم کے ہنگام، اخبار کے اسی ورق پر لکھا تھا کہ مرکز جماعت اسلامی سے پانچ سو گز دور، کچی آبادی سے سفید پوشوں کو گریز ہے۔ عوامی تائید کا کیا سوال۔ نو آموز اخبار نویس کی یہ جسارت گوارا کر لی گئی۔ مہم جوئی مگر آئے دن نہیں ہوتی۔ جس کی شمشیرمستقل بے نیام رہے، سپاہی نہیں دیوانہ۔
محترمہ مریم نواز اور جج ارشد ملک صاحب کے مچیتے پریہ واقعہ یاد آیا:
ہیولا برق خرمن کا ہے خون گرم دہقان کا
میری تعمیر میں مضمر ہے اک صورت خرابی کی
ٹیپو سلطان کے مزار کی زیارت سے اقبال واپس آئے، تو وہ نظمیں لکھیں کہ جب تک اردو زبان زندہ ہے، باقی رہیں گی۔ حصول تعلیم کے لئے برطانیہ جاتے ہوئے دلّی میں خواجہ نظام الدین ؒکے مرقد پہ رکے، دعا مانگی تھی۔
مقام ہم سفروں سے ہو اس قدر آگے
کہ سمجھے منزل مقصود کارواں مجھ کو
یہ دعا قبول ہوئی اور بہ کمال و تمام۔ ایک صدی ہونے کو آئی چہار دانگ عالم میں امتّی کا نام گونج رہا ہے۔ جن کے ہادی ﷺ کو بتایا گیا تھا "ہم نے تیرا ذکر بلند کر دیا"۔
ٹیپو سلطان کی" وصیت کا عنوان ہے" اورشعر یہ ہے:
روز ازل مجھ سے یہ جبریل نے کہا
جو عقل کا غلام ہو، وہ دل نہ کر قبول
وہ جو بھٹو اور بے نظیر تھے، وہ جو مجیب اور یحییٰ تھے، عقل کے غلام نہیں تو اور کیا تھے؟ یہ جو زرداری اور شریف ہیں، عقل کے غلام نہیں تو کیاہیں؟ اپنی قوم سے مشعل بردار مفکّر نے کہا تھا:
گزر جا عقل سے آگے کہ یہ نور
چراغ راہ ہے منزل نہیں ہے
انجیل میں لکھا ہے:دیا اس لئے جلایا جاتا ہے کہ گھر میں روشنی ہو، اس کے نیچے مگر تاریکی ہوا کرتی ہے۔ چراغ تلے اندھیرا۔ قدرت ِکاملہ کے دائمی اور ابدی قوانین کو نظر انداز کر کے جوآسمانی مذاہب نے عطا کئے، عقلِ عام کا چراغ لے کر جو زندگی کو ڈھونڈتے ہیں، وہ تاریکی پاتے ہیں۔ آدمی کا علم زمین پر رینگتا ہے۔ روشنی آسمان سے اترتی ہے۔
بزرگ کالم کار غلام اکبر کے بقول میاں محمد نواز شریف نے ان سے کہا تھا :ان کے سوا جنہیں خرید لیا ہو، کبھی کسی پر بھروسہ نہیں کیا۔ ایک انہی کا کیا ذکر، سب بادشاہ ایسے ہوتے ہیں۔ خوف زدہ کرتے اور ترغیب دیتے ہیں۔
ظہیرالدین بابر کو بادشاہوں کا بادشاہ کہا گیا۔ ریاضت کیش، بے خوف ہم نفسوں میں گھل مل جانے والا، صداقت شعار، شیر خان مگر ایسے خوش نہ آیا۔ تاریخ جسے شیر شاہ سوری کہتی ہے۔ اپنی خود" نوشت تزک بابری" میں اس کا ذکر حیرت و حسرت سے کرتا ہے، شیر خان نے زچ کر رکھا ہے" اس لئے وہ گوارا نہ ہوا کہ مرد آزادتھا۔ زندگی کو اپنی آنکھ سے دیکھتا تھا۔ پوٹھوہار سے بنگال تک اس کی نشانیاں بابر سے کہیں زیادہ ہیں۔ بس یہ کہ اولاد بلاول بھٹو اور مریم نواز جیسی نصیب ہوئی۔
جنگلوں اور مسافتوں، وادیوں، پہاڑیوں، ریگزاروں، اور رزم گاہ کی آزمائش میں بہادر ہم سفرہوتے ہیں۔ سلطنت نصیب ہو جائے اور دربار سجے توانہی سے کورنش بجا لانے کی امید کی جاتی ہے۔ کتنی عجیب ہے، اللہ کی بستی کتنی عجیب۔ کرتی ہے ملوکیت آثار جنون پیدا۔ 1930کے خطبۂ آلہ آباد میں اقبالؔ نے اپنی قوم کو نصیحت کی تھی:عرب ملوکیت کے اثراتِ بد سے بچنے کی کوشش کرنا مگر افسوس، مگر افسوس!
آزادی ایک واقعہ نہیں ایک نظام اور موقعہ بھی نہیں آزادی کا شعور آدمی کے باطن سے ابھرتا اور اجالا کرتا ہے۔ ٹی وی کا واعظ سینکڑوں ٹن معلومات کے باوجود جو راز نہ پا سکا، درویش نے دو لفظ میں کھول دیا تھا۔"التصوف حرّیہ" تصوف کامل آزادی ہے۔ نفس کے ہیجان سے نجات، حجاب سے چھٹکارا۔ یعنی فیشن سے نجات اور اللہ کے سائے میں ابلیس کے۔
ہتھکنڈوں سے بھوک مٹ سکتی ہے مگر اقتدار اور دولت کی نہیں۔ یہ لالچ ہے اورلالچ بیماری۔ سرکارؐ کا فرمان یہ ہے، قبر کی مٹی ہی لالچی کا پیٹ بھر سکتی ہے۔
شیخ مجیب کا کیا ہوا؟ بھٹو، بے نظیر اور اس کے بھائیوں کا کیا ہوا؟ ۔ یحییٰ خان کا کیا ہوا؟ ادراک کی اللہ توفیق دے تو ایک سوال اور بھی ہے، اندرا گاندھی اور اس کے فرزندوں کا کیا ہوا؟ کس کمال کی تشبیہ کسی نے دی تھی۔"پاکستان یحییٰ علیہ السلام کی اونٹنی ہے"جس کسی نے بھی اس سے منہ موڑا، مالک سے منہ موڑا۔ میاں محمد نواز شریف کے سائے سے بھی بچنا چاہیے۔ مودی سے انہوں نے ساز باز کی تھی۔
جج صاحب کا کیا ہو گا؟ محترمہ مریم نواز ان کے یمین و یسارکا کیا ہو گا؟ گرداب میں کشتی خال ہی بچتی ہے۔ بھنور میں بادشاہ کم ہی بچتے ہیں۔ گرہ بھنور کی کھلے تو کیونکر بھنور ہے تقدیر کا بہانہ۔