رہے ملحد تو ہمارا ان سے کیا تعلق۔ جسے یہ معلوم نہ ہو کہ ہر چیز کا ایک خالق اور معمار ہوتا ہے۔ اربوں نازک توازنوں پہ برقرار کائنات۔ اس کائنات کا بھی کوئی خالق ہے، ہمارا ان سے تعلق کیا۔
ہمیں بھلا ان سے واسطہ کیا جو تجھ سے ناآشنا رہے ہیں
موضوعات اور تھے اور ان کے سیاق و سباق ذہن کی ملگجی روشنی میں جھلملاتے ہوئے۔ ابھی کچھ دیر پہلے کسی نے احد کا ذکر کیا اور سید الشہدا امیر حمزہؓ کا۔ ان کا نام آیا تو سرکارؐ یاد آئے۔ احد کی شام یاد آئی کہ جیسی شام مدینہ پہ کبھی نہ اتری، پہلے نہ بعد میں۔
گریہ کی سرکارؐ نے کبھی حوصلہ افزائی نہ کی۔ صاحبزادے کا انتقال ہوا تو آنسو بہتے رہے مگر آواز نہیں۔ اس مفہوم کا ایک جملہ ارشاد کیا:غم ہے لیکن ہم صبر ہی کریں گے۔ مدینہ میں، جو آہ و بکا سے بھر گیا تھا، اس روز ایک استثنیٰ تخلیق ہوا۔ گلی میں آپؐ تشریف لائے اور کہا:حمزہؓ کو رونے والے کہاں ہیں؟
کیا المناک دن تھا۔ سید الشہدا ؓکے ناک اور کان کاٹے گئے۔ سینہ چیرا گیا، کلیجہ نکال کر چبایا گیا۔ اعضا کا ہار بنا کر پہنا گیا اور اس پر شادیانے بجائے گئے۔ سرکارؐ نے خاک کے پتلوں کو چراغ بنا دیا تھا، دائم روشن چراغ۔ ان میں خالد بن ولیدؓ ایسے دلاور تھے کہ فولاد کا پیکر اورریشم کا قلب۔ چند برسوں میں چند ہزار مجاہدین کے ساتھ دو عالمی طاقتوں کو روند ڈالا مگر حمزہؓ ایک ہی تھے۔
The Messageاور Bilalکے مصنف ایچ اے ایل کریگ نے لکھا ہے: جنگل میں شکارکھیلنے جاتے تو گھوڑے کے سم خود رو پھولوں کو کبھی نہ چھوتے۔ جس دن ابو جہل نے سرکارؐ سے بدتمیزی کی۔ اس روز اسلام قبول کیا۔ راو ی کے بقول یہ کہا:تاروں کی چھائوں میں جب میں شیر کا تعاقب کرتا ہوں تو جانتا ہوں کہ اس کائنات کا کوئی خالق ہے۔
کمان ابوجہل کے سر پہ دے ماری اور کہا:میں جانتا ہوں کہ میرا بھتیجا سچا ہے۔ اشہدان لاالہ الااللہ اشہد ان محمد رسول اللہ۔ ان کی آل اور اولاد پہ سلامتی کا نور برستا رہے۔ آپؐ کے رفیق ایسے ہی تھے۔ مدینہ کے آسمان پر تارے جگمگا رہے تھے۔ ام المومنین عائشہ صدیقہؓ نے پوچھا: یا رسول اللہ، کیا کوئی ایسا بھی ہے، جس کی نیکیاں ان ستاروں کے برابر ہوں۔ فرمایا؛ ہاں، ابوبکرؓ۔ فاروق اعظمؓ کے بارے میں کہا تھا: میرے بعد کوئی نبی ہوتا تو عمرؓ ہوتے۔
سیدنا عثمانؓ کے بارے میں ارشاد کیا:فرشتے بھی ان سے حیا کرتے ہیں۔ خیبرکے دن امیر المومنین سیدنا علیؑؓ کرم اللہ وجہہ کے بارے میں یہ الفاظ تاریخ کے اوراق پہ ہمیشہ چمکتے رہیں گے:آج پرچم میں اُسے دوں گا، جو اللہ اور اس کے رسولؐ سے محبت کرتا ہے۔ اللہ اور اس کا رسولؐ بھی جس سے محبت کرتے ہیں۔
سیدنا حمزہؓ کی شہادت پہ غم ایسا شدید کیوں تھا؟ ایسا استثنیٰ کیوں؟ اس لئے کہ آپ کے ہم عمر تھے، بچپن کے رفیق۔ فضائل کا شمار ممکن نہیں۔ ان میں سے ایک یہ تھا کہ رشتہ و پیوند کی ہمیشہ نگہبانی کرتے۔ جناب ابوبکرؓ اور جناب عمرؓ کی بحث شدید ہو گئی تو فرمایا: کیا یہ ممکن نہیں کہ لوگ ابوبکرؓ کو میرے لئے معاف کر دیں؟
سیدہ عائشہؓ سے کہا: خدیجہؓ کے بارے میں مجھے تنگ نہ کیا کرو۔ جان چھڑکنے والی رفیق حیات کو دنیا سے اٹھے سالہا سال بیت چکے تھے مگر ان کی سہیلیوں کو تحائف بھجواتے۔ دوسری امہات المومنین سے کہا: عائشہؓ کے بارے میں مجھے تنگ نہ کرو، اس کی چادر میں مجھ پر وحی اترتی ہے۔ سیدنا علیؑؓ کے بارے میں کہا: جس کا میں مولا ہوں، علیؑ اس کا مولا ہے۔ جناب ابوذرؓ سے شاد تھے۔ فرمایا: سورج کبھی ابوذرؓ سے زیادہ سچے آدمی پر نہیں چمکا۔ ہندو شاعر نے کہا تھا:
آدمیت کا غرض ساماں مہیا کر دیا
اک عرب نے آدمی کا بول بالا کر دیا
اسداللہ خان نے ادراک کر لیا تھا:
غالب ثنائے خواجہ بہ یزداں گزاشتیم
کاں ذات پاک۔ مرتبہ دانِ محمد است
سیدالشہدا کے مزار پہ کھڑا ایک عرب نوجوان کی درد میں ڈوبی آواز مسافر دیر تک سنتا رہا:اسے شہیدوں کے سردار، اے شہیدوں کے سردار!
احد کی داستان عمران خان نہیں سمجھ پائے تھے کہ اہل علم کی صحبت کے عادی نہیں۔ سبق صاف تھا۔ پیغمبر کی زبان سے نکلنے والے ایک ایک لفظ کی مکمل پیروی اگر نہ کی جائے گی تو عتاب ہو گا۔ ٹیکری والوں کے دلوں میں ایمان کی شمعیں دوسروں کی طرح ہی جگمگ تھیں۔ ایک درس انہیں دینا تھا، جس کے لئے خاک کو لہو پلایا گیا۔
ایک ذرا سے انحراف کی اجازت بھی نہیں۔ کسی صورت بھی نہیں۔ انہیں معاف کر دیا گیا کہ پروردگار کی صفت رحم، اس کی صفت عدل پر غالب ہے۔ اور اس کی کتاب کہتی ہے:بے شک انسان کو کمزور پیدا کیا گیا۔ کتاب میں لکھا ہے:اطیعواللہ و اطیعو الرسول۔ اللہ کی اطاعت اور اللہ کے رسولؐ کی فرماں برداری۔
وہی قرآں، وہی فرقاں، وہی یٰسیں، وہی طٰہ
سوال کرنے والوں نے سیدہ عائشہ صدیقہؓ سے سوال کیا۔ آپؐ کا اخلاق (مزاج) کیسا تھا؟ فرمایا:کیا تم قرآن نہیں پڑھتے، وہ مجسم قرآن تھے۔
جبرئیل امین سے پوچھاکیا تمہیں یاد ہے کہ آدم کی تخلیق سے لاکھوں برس پہلے ایک ستارہ آسمان پہ خوب دمکتا تھا۔ اثبات میں جواب دیا تو ارشاد کیا:وہ ستارہ میں تھا۔ پھر ایک دن، شاید اس سے پہلے، شاید اس کے بعد، رحمتہ اللعالمینؐ نے فرشتوں کے سردار سے پھرسوال کیا: کیا کچھ فائدہ تمہیں بھی پہنچا؟ عرض کیا: ہاں! یارسول اللہؐ، عزازیل نے لاکھوں برس عبادت کی تھی۔ آدمؑ کو سجدہ نہ کرنے پہ دھتکارا گیا۔ دل بھی کانپ اٹھتا تھا۔ آپ آئے تو مالک نے مجھے جبرائیل امین کہا اور قلب نے قرار پایا۔
کون یہ بات ان مولویوں کو سمجھائے خود کو جو جاوید کہتے ہیں حالانکہ وہ مٹ جانے والے ہیں۔ زمانے کی گرد میں گم ہو جانے والے۔ ایک سیدھا سادہ اور گمنام صوفی، ایسے ہزار دانشوروں پہ بھاری:
قلندر جزو دوحرف لاالہ کچھ بھی نہیں رکھتا
فقیہہ شہر قاروں ہے لغت ہائے حجازی کا
اہل قرآن!اللہ ان پررحم کرے۔ حدیث، اور سیرت سے جومحروم کر دیے گئے وہ خیرسے محروم ہو گئے۔ اللہ جانے ان کا انجام کیا ہو گا۔ ڈاکٹر اسرار احمد کا یہ ناچیز کبھی قائل نہ ہو سکا۔ ایک دن مگر ٹوٹ کر پیار آیا، جب انہوں نے اپنے ایک عزیز دوست سے کہا:ہمارے پاس تو صرف چھلکا ہے مغز تو بریلوی لے گئے۔ وہ ان سے ناراض ہوئے۔ میرے بزرگ تھے۔ یہ عاجز خاموش رہا۔ بریلوی، دیوبندی نہ شیعہ۔ مسلمان کو بس مسلمان ہونا چاہیے۔ امام جعفر صادقؒ، امام ابو حنیفہؒ، امام شافعیؒ، امام مالکؒ، امام احمد بن حنبلؒ۔ ان میں سے کبھی کسی نے یہ نہ کہا کہ ان کی اطاعت کی جائے۔ بلکہ اللہ اور رسولؐ کی۔
وہ خاکسار تھے ابدلآباد تک کے لئے گلزار ہو گئے۔ ان جیسا کوئی تھا اور نہ ہو گا۔ فرمایا:میری امت کے علماء بنی اسرائیل کے انبیاء کی مانند ہوں گے۔
ہاں!یہ طالب علم اپنی ناقص عقل اور محدود علم کے ساتھ فقہ حنفی کو ترجیح دیتا ہے لیکن وہ امام جعفر صادقؒ سے بے نیاز کیسے ہو سکتا ہے جن کے بارے میں خود جناب ابو حنیفہؒ نے کہا تھا:ان جیسا کوئی زاہد پایا اور نہ ان جیسا کوئی عالم۔ امام شافعیؒ کہا کرتے: جھوٹی تو کیا الحمد للہ ساری عمر سچی قسم بھی نہیں کھائی۔
وہ سیدنا ابو ذر غفاریؓ کے پیروکار تھے۔ 24قیراط سونے کی طرح سچے اور کھرے۔ وہ بھی ہم اہل سنت کے امام ہیں، امام مالکؒ، امام احمد بن حنبلؒ بھی، امام جعفر صادقؒ بھی۔ ان کے پائوں کی خاک ہماری آنکھوں کا سرمہ ہے۔ بعد والوں نے فرقے بنائے۔ انہوں نے ہرگز نہ بنائے تھے۔ خیال و فکر کا اختلاف تو رحمت ہے۔ اس رحمت کو زحمت مولویوں نے بنایا، دین فروشوں نے۔
میں جانتا ہوں انجام اس کا
جس معرکے میں ملا ہوں غازی
خال خال، شاذ شاذ، وگرنہ مولوی اسلام کا نمائندہ نہیں۔ وہ تو ہرگز نہیں جو دین کے نام پر سیاست کا ناٹک رچائے، اقتدار کی آرزو پا لے۔ کتاب کے انتخابی نشان کو قرآن کریم قرار دے کر ووٹ بٹورنے کی کوشش کرے۔
اللہ کے آخری رسولؐ سے پوچھا گیا:انسانوں میں بدترین کون ہے؟ فرمایا:اللہ ان پہ رحم کرے۔ باردگر سوال کیا گیا تو ارشاد ہوا: وہ جو دنیا کے لئے دین کو بیچ دیں۔
رہے ملحد تو ہمارا ان سے کیا تعلق۔ جسے یہ معلوم نہ ہو کہ ہر چیز کا ایک خالق اور معمار ہوتا ہے۔ اربوں نازک توازنوں پہ برقرار کائنات۔ اس کائنات کا بھی کوئی خالق ہے، ہمارا ان سے تعلق کیا
مجھے ان سے واسطہ کیا جو تجھ سے ناآشنا رہے ہیں