پڑھیے اور دیکھیے کہ غلامی سے نجات میں کیسی بے پایاں مسرت ہے، کتنی سرخوشی ہے۔ ہر روز ایک نیا جہاں ہر روز ایک نیا افق:
ہر لحظہ نیا طور نئی برق تجلی
اللہ کرے مرحلہ شوق نہ ہو طے
کبھی محبت بھی بلا بن جاتی ہے۔ خالد مسعود خان کی کتاب"زمستاں کی بارش" پر تبصرہ کرتے ہوئے کلاسرہ صاحب نے خاکسار کے دیباچے کا حوالہ اس طور دیا کہ ایک طوفان سا ہے۔ فرمائش پہ فرمائش چلی آتی ہے۔ یہاں مصروفیت کا یہ عالم کہ سر کھجانے کی فرصت نہیں۔ غالب نے کہا تھا:
ہم بھی تسلیم کی خو ڈالیں گے
بے نیازی تیری عادت ہی سہی
حال اپنا یہ ہے کہ دوستوں کا حکم ٹال نہیں سکتے۔ سحر ہوتے ہی اخبار، ٹی وی کی نشریات تو کم کم مگر سوشل میڈیا۔ کچھ اہم چیزیں بھی اس پہ ہوتی ہیں۔ خبریں بھی موبائل پر سنتا ہوں۔ اخبارات کا مطالعہ دو تین گھنٹے طلب کرتا ہے۔ اب ٹی وی پروگرام کے لئے موضوعات کا تعین، ریسرچرایک عزیز دوست ہیں فہم اور ریاضت کیش۔ آج تو کوئی خاص موضوع ہی نہیں، عجیب تر یہ کہ تین چار گھنٹے میں موضوعات متعین کر لیتے ہیں۔ نہایت ترتیب اور سلیقہ مندی کے ساتھ لکھے گئے نکات بھیج دیتے ہیں۔
ٹی وی پروگرام میرے لئے ایک عذاب ہے اس لئے کہ پینتیس چالیس منٹ تنہا بات کرنا ہوتی ہے۔ اب وہی زرداری صاحب، وہی میاں محمد شہباز شریف، وہی بلاول بھٹو اور وہی محترمہ مریم نواز۔ وہی ان کے گھسے پٹے بیانات اور دعوے۔ ہر روز پامال موضوعات کے نئے زاویے کیونکر آدمی تلاش کرے۔ رات گیارہ بجے گھر لوٹتا ہوں تو بھوک اور تکان سے برا حال۔ پھر یہ بھی کہ جمعرات کو اسلام آباد سے لاہور اور پیر کو لاہور سے اسلام آباد کا سفر۔ پیر کو کالم بھی لکھنا ہوتا ہے، منگل اور بدھ کو بھی۔ پیہم گردش میں حال وہی ہوتاہے، فانی بدایونی نے جس کا ماتم کیا تھا:
یہ تو برے آثار ہیں، فانی غم ہو خوشی ہو کہ کچھ توہو
یہ کیا دل کا حال ہوا، مسرور نہیں مغموم نہیں
دوسرے شہروں سے دوستوں کی دعوت اور بیرون ملک پاکستانیوں کے الفت سے لبریز اصرار، میں پاشکستہ جانہ سکا قافلے تلک، آتی اگرچہ دیر صدائے جرس رہی۔ میر صاحب نے کہا تھا:
مصرع کوئی کوئی کبھو موزوں کروں ہوں میں
کس خوش سلیقگی سے جگر خوں کروں ہوں میں
تنہائی چاہیے، فرصت اور انہماک چاہیے۔ دل پہ گزارنی پڑتی ہے۔ احساس کی لو جب تک نہ بھڑکے، خاک آدمی اظہار کرے۔ عامر خاکوانی، اظہار الحق اور رئوف کلاسرہ پہ حیرت ہوتی ہے، رشک آتا ہے کہ مضامین تازہ کے انبار لگائے رکھتے ہیں، خاص طور پر اظہار الحق۔ بیان کا ایسا جمال، قلم کی ایسی روانی اور خیال کی ایسی ندرت۔ اپنے دل کی دنیا جو کبھی گلستاں سی لگتی تھی، ویرانہ ہو چکی۔ سیاست اور اہل سیاست کا خیال آتا ہے تو جان دہائی دیتی ہے:
ریگ زاروں میں بگولوں کے سوا کچھ بھی نہیں
سایہ ابر گریزاں سے مجھے کیا لینا
یہی حال اخبارات کا ہے۔ دل آزار خبریں، مستثنیات کے سوا الجھے ہوئے دانشوروں کے واویلے۔ خالد مسعود خان کا دم غنیمت ہے۔ اس لئے نہیں کہ قلم اس کا جادو جگاتا ہے۔ بلکہ اس لئے کہ بے دھڑک لکھتے ہیں۔ ایسی بے ساختگی کہ سبحان اللہ۔ راجپوت، اہل حدیث خاندان، اسلامی جمعیت طلبہ، تعجب کہ کیسے وہ بچ نکلا۔ سدا سے ملوکیت، جاگیر داری اور پاپائیت۔ اقبالؔ نے کہا تھا:اے کشتہ سلطانی و ملائی و پیری، اس کے باوجود وہ بچ کیسے نکلا؟ خورشید رضوی کہتے ہیں:
کبھی اپنی آنکھ سے زندگی پہ نظر نہ کی
وہی زاویے کہ جو عام تھے مجھے کھا گئے
تقلید کے خوگر، اس معاشرے میں، رسم و رہ دنیا کو مسترد کر کے، خود اپنی منتخب کردہ راہ پہ چلنا ہی زندگی ہے۔ ورنہ حیات کا سارا سفر رائیگاں۔ خالد مسعود نے خود کو رائیگاں ہونے سے بچا لیا۔ یہ ان کے ماحول کی عنایت تھی، نجیب خاندان کے اثرات یا اپنی جرأت رندانہ، کون جانتا ہے۔ ع:دل کا دریا بحر سے گہرا کون دلوں کی جانے ہو
ان کی اولین کتاب"زمستاں کی بارش" نے دھوم مچا دی۔ داد پائی اہل دل اور اہل کمال سے۔ خاص طور پر وہ کالم جو اپنی مرحوم اہلیہ، اہلیہ نہیں محبوبہ کی یاد میں لکھے۔ آدمی چلاجاتا ہے۔ سچی محبت کبھی نہیں جاتی۔ ان میں سے بعض تحریریں تو ایسی ہیں کہ روانی سے پڑھی نہیں جا سکتیں۔ دل موم ہو جاتا، پھر آنسو بن کر بہنے لگتا ہے۔ غالب کے شعر کا ادراک ہونے لگتا ہے ؎
رگوں میں دوڑتے پھرنے کے ہم نہیں قائل
جب آنکھ ہی سے نہ ٹپکا تو پھر لہو کیا ہے
اب ان کی دوسری کتاب سامنے ہے، "سفر دریچے"فرشتہ نہیں ہے، آدم زاد فرشتہ نہیں ہو سکتا۔ ہاں مگر خالد مسعود ایک سچا آدمی ہے۔ جو دیکھتا اور محسوس کرتا ہے وہی کہتا ہے۔ زمانے کی پرواہ نہ سماج کے تیوروں کی۔ کسی کی ناراضی کا ڈر اور نہ کسی کو راضی کرنے کی تمنا۔
جوش ملیح آبادی نے کہا تھا:جینا نہیں یہ جینے کی نقل ہے۔ امریکی صدر نے ریڈ انڈین قبیلے کی زمین خریدنے کی خواہش کی۔ قبیلے کے سردار نے جواب میں لکھا کہ تم جنگل اجاڑتے اورزمینوں کو برباد کرنے والے ہو۔ اس کے خط کا ایک جملہ یہ ہے۔"عقاب کہاں ہیں، وہ ہجرت کر گئے۔ زندگی ختم ہوئی، اب تو محض جینا ہے"۔
ہم زندگی نہیں گزارتے، فقط جیتے ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ زندگی ہمیں گزار دیتی ہے۔ آخر کو خالی ہاتھ اور خالی دل، ویرانی، روح اور پچھتاوا۔ کوثر وتسنیم میں دھلی نہیں خالد مسعود خان بول چال کی زبان لکھتا ہے مگر اس نے زندگی جی ہے۔ جس طرح چاہا، اس طرح شب و روز کو برتا ہے۔ مادر پدر آزادی نہیں کہ وہ آزادی نہیں، وحشت ہوتی ہے، مگر پوری آزادی:
ہزار دام سے نکلا ہوں ایک جنبش میں
جسے غرور ہو آئے کرے شکار مجھے
ہزار دام نہیں، بس ایک جال ہوتا ہے، خلق خدا کے ردعمل کا خوف۔ اگر خالق کا خوف بلکہ اس کی الفت دل میں جگہ پالے تو پھر زمانے کا کوئی فریب نہ فریب نفس:
جس سمت کو چاہے صفت سیل رو اں چل
وادی یہ ہماری ہے وہ صحرا بھی ہمارا
خالد کی روداد سفر میں کوئی چھنال ہے نہ قتالہ، سبزہ و گل ہے، جنگل، بیاباں، تاریخی عمارتیں، دریا سمندر، جھرنے اور جیتے جاگتے آدمی۔ پڑھیے اور دیکھیے کہ غلامی سے نجات میں کیسی بے پایاں مسرت ہے، کتنی سرخوشی ہے۔ ہر روز ایک نیا جہاں ہر روز ایک نیا افق:
ہر لحظہ نیا طور نئی برق تجلی
اللہ کرے مرحلہ شوق نہ ہو طے