حسین بن منصور حلاج نے کہا تھا:ان کیلئے میں روتا ہوں، رائیگاں جو چلے گئے۔ ان کیلئے میں روتا ہوں، راستوں اور راہوں میں جو سرگرداں ہیں۔
یہ کالم ایک سرکاری دفتر میں لکھا جا رہا ہے۔ مسا فت میں ہوں، اس کے سوا کوئی چارہ ہی نہیں۔ بے ڈھب سا ایک کام آن پڑا تھا۔ وہ جو بے ترتیب اور کاہل آدمی کے سا تھ ہوتا ہے، چنا نچہ تا خیر ہو گئی۔ یہ ایک شائستہ آدمی کا ٹھکا نہ ہے۔ غسل خانے میں جانے کی ضرورت پڑی تو جی شاد ہو گیا۔ اجلا اور بہت ہی اجلا مگر ٹونٹی کھولی تو پا نی تین جگہ سے پھوٹ پڑا۔ ٹونٹی سے، مسلم شاور میں دو جگہ سے، کپڑے بھیگ گئے۔ جلدی سے ٹونٹی بند کی۔ کسی نہ کسی طرح کام چل گیا۔ کسی نہ کسی طرح یہ کالم بھی مکمل ہو جائے گا۔
سرکاری دفتر ایسے ہی ہو تے ہیں۔ ایک سرکا ری گیسٹ ہا ئوس میں قیام ہے۔ صبح سویرے پردہ ہٹا یا تو جی خوش ہوا۔ دور تک پھیلا ہو ا سبزہ۔ بادلوں سے ڈھکا آسمان۔ اور کیا چا ہیے۔ ایک فائیوسٹا ر ہوٹل اس کے مقابے میں بہت کم تر لیکن غسل خا نے کا وہی حال۔ ہاں مسئلے کی نوعیت مختلف۔ ٹونٹی کھلی تو آسا نی سے مگر بند کرنا کارے دارد۔ سرکاری دفتروں میں ایسا ہی ہو تا ہے۔
ایک دن میں نہیں، یہ زوال عشروں میں وقوع پذیر ہوا۔ عمران خان کی حکو مت اس کی ذمہ دار نہیں۔ ایک چیز کی البتہ ہے۔ اس زوال کا رتی برابر اسے ادراک اور احساس نہیں۔ ہوتا تو اصلاح احوال کا آغازکر چکی ہو تی۔ کیسے کرے، وہ لوگ کیسے کریں، جنہیں راستہ ہی معلوم نہیں۔ معلوم بھی کیسے ہو۔ آدمی خود جا نتا ہو یا کسی سے پوچھ لے۔ نا لا ئق اور کام چو ر افسر، نالا ئق اور خود غرض مشیر۔
خان صاحب نے یہ خود چنے ہیں وگرنہ ایسا بھی قحط الرجال نہیں۔ جن لو گوں سے پو چھنا چا ہئے، ان سے وہ مفرور ہے۔ ایسے لو گوں کے ساتھ کام کرنا وہ پسند کرتا ہے، جو اشارہ ابرو پہ بروئے کار آئیں۔ پرلے درجے کے کم کوش۔ کام نہیں چلے گا۔ ہرگز نہیں چلے گا۔ سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ خچر گھوڑے کا نعم البدل نہیں بن سکتا۔
غسل خانے تو بہت بعد کی بات ہے، ڈینگی پر قابو پانا مشکل ہے۔ 2011 میں وبا پھوٹی تو 11 ہزار شہری شکا ر ہوئے۔ پو رے ملک میں ہا ہا کار مچ گئی۔ صبح 6 بجے شہباز شریف سرکا ری افسروں کا اجلا س بلاتے اور مہم کا آغاز ہو جاتا۔ بس چلتا تو کچی نیند سے اخبار نویسوں کو بھی جگا دیتے۔ معلو م ہوا اور ظاہر ہے کہ جستجو سے معلوم ہوا، سری لنکا میں ماہرین موجو د ہیں۔ بلوائے گے اور ان سے رہنمائی لی گئی۔
نتیجہ یہ نکلا کہ اگلے برس شکا ر ہونے والوں کی تعداد 200 سو سے کم تھی۔ عمران خان برہم ہو ئے اور شریف برادران کو ڈینگی برادر ز کا نام دیا۔ اب انہیں کیا نام دیا جائے۔ دیا جا سکتا ہے۔ نہ بھی دیا جائے توڈھنگ کا ایک مشورہ ہی۔ اس کے جواب میں مگر گا لیوں کا ایک طوفان اٹھے گا۔ ہر دن اپنی نا کامیوں کے اسباب خارج میں تلاش کرتا ہے۔ اس کی اپنی کبھی کوئی خطا نہیں ہوتی۔
عمران خان کے معاملے میں، ہر غلطی کے ذمہ دار شریف برادران ہیں یا زرداری صاحب۔ خود اس سے کبھی کوئی غلطی سرزد نہیں ہوئی۔ ہو بھی جائے تو اعتراض نہ کرنا چاہئے۔ اس نے ورلڈ کپ جیتا ہے، نمل کالج بنایا ہے اور اس سے پہلے شوکت خانم ہسپتال۔ وہ رعایت کا مستحق ہے۔ سو میں سے کم از کم نوے نمبروں کی رعایت۔ اگر رعایت آپ نہیں دیتے تو آپ پٹواری ہیں، نواز شریف یا زرداری کے کارندے ہیں۔۔ اور اگر اخبار نویس ہیں تو "لفافی"۔ گالم گلوچ کی ایک مہم کے دوران نا چیز نے پی ٹی آئی کے میڈیا سیل کو اس طرز عمل پہ ٹوکنے کی جسارت کی۔ اس پر ایک صاحب نے مجھے لکھا:میڈیا سیل کب سے اس قابل ہوگیا۔ یہ تو میری ایجاد ہے۔ سبحان اللہ، سبحان اللہ۔
حیاتِ تازہ اپنے ساتھ لائی لذتیں کیا کیا
جہالت، خود فروشی، ناشکیبائی، ہوس ناکی
فاشزم ہے، یہ صریح فاشزم۔ ایسا زمانہ جب اقوام پہ طلوع ہوتا ہے تو واحد علاج صبر و شکیب ہے۔ آصف علی زرداری اور نواز شریف ایسے لٹیروں کے سیاہ دور بیت گئے تو یہ دن بھی گزر جائیں گے۔
غزنی کے محمود نے، اپنی وفات کے ایک ہزار برس بعد بھی جوافغانستان کی وسعتوں میں برسراقتدار ہے، حکومت کی کبھی آرزو نہ پالی تھی۔ جواں سال باپ کی اچانک موت کے بعد، اس کے سر پہ آ پڑی۔ ذکر و فکر کا آدمی تھا۔ دن رات درود پڑھا کرتا۔ عمران خان کی طرح نہیں، تسبیح کے واقعی جو لوگ عادی ہیں، ہر چیز سے زیادہ انہیں عزیز ہوتی ہے۔ تسبیح کرنے والے کی تسبیح کھو جائے، تو جان پہ بن آتی ہے۔
یکسوئی حاصل ہونے کے بعد ہندوستان پر سترہ حملے کرنے اور ہندو شاہی کی کمر توڑ دینے والے محمود کی جان پہ بن آئی تو اس نے کیا کیا۔ آخر کو سید ہجویر کی خدمت میں حاضر ہونے والے سلطان کوعلما نے کیا مشورہ دیا، یہ کہانی پھر کبھی۔
حکایت یہ ہے:کنفیوژن کے ان اولین ایام میں ایک دن اپنے ہوش مند غلام ایاز کو اس نے طلب کیا اور یہ کہا:کوئی ایسی بات مجھے بتائو کہ رنج و راحت کے سب ایام میں ڈھارس بندھا سکے۔ ایاز بلا کا دانا تھا۔ ایسا کہ غلام سے بادشاہ بنا۔ لاہور کا پہلا مسلمان گورنر، جس کی آمد سے پاکستان کی دوسری اینٹ رکھی گئی۔ پہلی محمد بن قاسم نے رکھی تھی۔ ایک انگشتری پر اس نے لکھوایا اور بادشاہ کو پیش کی "یہ وقت بھی گزر جائے گا" دوسری اینٹ ایاز کبھی نہ رکھ سکتا، بھٹی راجپوتوں کے اس قدیم قصبے لاہورمیں اگر سید زادہ قدم نہ رکھتاجس کا نام علی بن عثمان ؒتھا۔ دائم جسے تاریخ داتا گنج بخش ؒکے نام سے یاد رکھے گی۔
گنج بخش، فیض عالم، مظہر، نور خدا
ناقصاں را پیر کامل، کاملاں را رہنما
خواجہ معین الدین چشتی کا قول معروف ہے کہ جس کا کوئی مرشد نہ ہو، سید کی کتاب "کشف المحجوب" اس کی رہنما ہوگی۔ مزار پہ حاضر سب ہوتے ہیں۔ کتاب کوئی نہیں پڑھتا، افسوس کہ کوئی نہیں پڑھتا۔ پڑھے تو پروفیسر احمد رفیق اختر ہو جائے۔ ان سے پوچھا: کتنی بار پڑھی ہے؟ بولے "پڑھی نہیں مجھ پر بیت گئی ہے"۔
فرزنداویس الرشید پچھلے دنوں لاہور آئے تو مزار پہ حاضری دی۔ جی چاہا اس سے کہوں معین الدین چشتی سے لے کر آج تک، اربوں نہیں تو کروڑوں ایسے ہو گزرے ہیں۔ مشعل کی آرزو ہے تو کتاب پڑھو۔ جوانی میں جو کام تمہارا باپ نہ کر سکا وہ تم کر گزروتوچراغاں تک چلے جائو گے
اک چراغ اور چراغ اور چراغ اور چراغ
تمہارا ہاتھ پکڑ کر یہ کتاب تمہیں اللہ کی آخری کتاب لے جائے گی۔ رحمتہ اللعالمین ؐکے دربار تک لے جائے گی۔ اصحاب صفہ تک لے جائے گی۔ سید ہجویر مخدوم امممرقد او پیر سنجر را حرمخاک ِ پنجاب از دم او زندہ گشتصبحِ مااز مہر اوتابندہ گشتسچائی کی جنہیں تلاش ہو، سچائی تک جا پہنچتے ہیں۔ باقی سب صحرا میں سرگرداں۔ حسین بن منصور حلاج نے کہا تھا:ان کیلئے میں روتا ہوں، رائیگاں جو چلے گئے۔
ان کیلئے میں روتا ہوں، راستوں اور راہوں میں جو سرگرداں ہیں۔