امام شافعی رحمتہ اللہ علیہ نے ارشاد کیا تھا: میں یہ مان سکتا ہوں کہ الکحل کے باوجود کوئی نشے میں نہ ہو مگر یہ تسلیم نہیں کر سکتا کہ اقتدار کے باوصف کوئی نشے کا شکار نہ ہو۔
صدارتی ایوارڈ کے موضوع پر برادرم عامر خاکوانی نے ایک بار پھر شامِ غریباں برپا کی ہے۔ پچھلے برس بھی انہوں نے اپنا گریبان چاک کیا تھا۔ پچھلے برس بھی انہوں نے اس خاکسار کا نام لکھا تھا کہ کالم نگاری کے میدان میں اگر وہ اعزاز کا مستحق نہیں تو اور کون ہے۔ کچھ دوسرے ممتاز اہلِ قلم کے نام بھی گنوائے تھے، جو اس ناچیز سے زیادہ باخبر، ریاضت کیش اور اکرام کے مستحق۔ ناچیز نے اس پہ خاموشی اختیار کیے رکھی کہ یہی زیباتھا۔
سرکاری تمغے کوئی ایسی چیز نہیں، جس کے لیے کشکول اٹھایا جائے۔ اصل الاصول یہ ہے کہ ایک فرد کو زندگی میں جو کچھ پیش آتاہے، قادرِ مطلق کی کوئی عظیم حکمت اس میں کارفرما ہوتی ہے۔ لاطینی امریکہ کے نادرروزگار ناول نگارپائلوکوئلونے کہا تھا: زندگی میں غلطی نام کی کوئی چیز نہیں ہوتی، بس سبق ہوتے ہیں، اگر ہم نہ سیکھ سکیں تو قدرت ہمارے لیے انہیں دہراتی رہتی ہے۔ ایک بگڑے ہوئے معاشرے میں عدل اور میرٹ کا کیا کام۔
عصرِ رواں کے عارف نے کہا تھا: قرآنِ کریم کی ایک آیت ایسی ہے کہ ٹھنڈے دل سے آدمی اگر اس پر غور کر لے، اس کے معارف سے آشنا ہو جائے تو کبھی اپنی تقدیر کا گلہ نہ کرے۔ و عسیٰ ان تکرھو شئیء و ھو خیر الکم و عسی ان تحبو شئیء و ھو شر الکم۔ ایک چیز پر تمہیں کراہت ہوتی ہے، حالانکہ اس میں تمہارے لیے خیر پوشیدہ ہوتاہے۔ ایک چیز کی والہانہ آرزو تمہیں آلیتی ہے، حالانکہ اس میں تمہارے لیے شر چھپا ہوتا ہے۔
دوسرے میدانوں اور شعبوں کو الگ رکھیے، جہاں تک میدانِ صحافت کے اعزازات کا تعلق ہے، ہمیشہ سے وہ ایک ناقص نظام پہ استوار ہیں۔ ایک کالم نگار، رپورٹر یا فیچر رائٹر کو اس کے لیے درخواست دائر کرنا پڑتی ہے۔ نمونے کی تین اہم خبریں، فیچر یا کالم کمیٹی کی بارگاہ میں پیش کرنا ہوتے ہیں۔ سامنے کی بات یہ ہے کہ عزت نفس رکھنے والا کوئی شخص التجا پر کیوں آمادہ ہوگا۔ نتیجہ اس کا یہ ہے کہ اخباری دنیا کے ممتاز ترین کالم نگار اس سے محروم رہے۔ وہ لوگ جو پچھلے تین عشروں میں جن کی تحریروں نے دلوں اور دماغوں میں کہرام برپا کیے رکھا۔ شائستگی، دیانت داری اور ممکن حد تک بے تعصبی کے ساتھ اعزازات کا تعین مقصود ہو تو خود شاید عامر خاکوانی سب سے زیادہ مستحق ہیں۔
اس ناچیز کے باب میں سامنے کی یہ حقیقت انہوں نے بھلا دی کہ بیس برس کی طویل رفاقت کے بعد اقتدار میں آتے ہی سرکاری تقریبات میں اس ناچیز کے داخلے پر پابندی لگا دی گئی تو کسی او ررعایت کا مستحق وہ کیسے ہو سکتاہے۔ آنجناب کے اس فیصلے پر بعض مشترکہ ذاتی دوستوں کو صدمہ پہنچا۔ ایک کے بعد دوسرے خیر خواہ نے توجہ دلائی اور اعتراض کیا تو بعض وزرا سے انہوں نے کہا کہ وہ اس خاکسار کو ان کے پاس لے آئیں، کرم فرمائی کے لیے وہ آمادہ ہیں۔
سب سے پہلے ان میں خان صاحب کی میڈیا ٹیم کے ایک افسر شامل تھے۔ بادل نخواستہ جونئیر اخبار نویسوں کی ایک ٹیم کے ساتھ ایوانِ وزیرِ اعظم آنے کی دعوت دی گئی۔ معذرت چاہی اور نشان دہی کی کہ آخری وقت پر ناچیز کا نام شامل ہوا۔ پھر کہا کہ وزیرِ اعظم الگ سے لاہور میں ملاقات کا اعزاز بخشنے پر آمادہ ہیں۔ ایک بار پھر معذرت کی۔ وہ سمجھ نہ سکے اور سوال کیا کہ کیا یہ اسلام آباد میں ممکن ہے؟
اس پر انہیں لکھا: جنابِ محترم ذاتی دوستوں کے معاملات میں کسی غیر متعلق آدمی کو مداخلت نہیں کرنی چاہئیے۔ مختصر سا جواب شائستہ آدمی کاموصول ہوا: آپ ٹھیک کہتے ہیں۔ اتنے میں خان صاحب کے ایک قریبی مشیر کا ٹیلی فون موصول ہوا۔ کہا: ایک اجلا س میں یہ سوال زیرِ بحث آیا تھا۔ فلاں صاحب نے یہ کہا کہ کیا وہ کسی ٹی وی چینل کا مالک ہے یا کوئی اینکر کہ یہ اعزاز اسے بخشا جائے؟ شکریہ ادا کیا اور یہ کہا کہ ان کی بات سو فیصد درست ہے۔
جیسا کہ ایک سے زیادہ بار وضاحت کی جا چکی، اختلاف کا آغاز 2013ء میں ٹکٹوں کے اجرا پر ہوا۔ پارٹی میں میرے کوئی پسندیدہ یا نا پسندیدہ امیدوار نہ تھے۔ البتہ موصوف کی خواہش پر گوجر خان سے کچھ محترم اور ممتاز لیڈروں کو پارٹی میں شامل کرایا تھا۔ تب اس بے تکلفی کے ساتھ جو کارفرما تھی، یہ عرض کیا تھا کہ گوجر خان میں ٹکٹوں کی تقسیم کا مرحلہ آئے تو معاملہ مجھ پر چھوڑ دینا۔
تاکیدکے ساتھ اس نے کہا کہ میرٹ کا خیال رکھنا۔ خیال رکھا گیا تھا۔ یہ بہترین لوگ تھے۔ ٹکٹ جاری کرنے کا مرحلہ آیا تو دو افراد پر مشتمل ایک ٹیم نے فیصلہ صادر کیا اور دل و جان سے خان صاحب نے قبول کر لیا۔ ان میں سے ایک کسی پٹواری کا بھانجا تھا اور دوسرا وہ شخص، مرکزی Data Bankمیں تحریف کے علاوہ جس پر خردبرد کا الزام تھا۔
حیرت زدہ، بلکہ کسی قدر بھنایا ہوا، میں خان صاحب کے پاس پہنچا اور ان سے کہا کہ آپ نے یہ کیا کیا؟ ایسے لوگوں کو آپ نے ٹکٹ دیے ہیں، جن میں سے کسی ایک کے جیتنے کا بھی سوال پیدا نہیں ہوتا۔ یہ بھی کہا کہ گوجر خان راولپنڈی سے ایک گھنٹے کی مسافت پہ واقع ہے۔ تین آدمیوں کی ایک ٹیم بھیجئے، گلیوں بازاروں میں پھر کر جو موزوں امیدواروں کا تعین کرے۔
مسلسل تین دن تک اس موضوع پر موصوف سے بات ہوتی رہی۔ ہر شام وہ قائل ہو جاتے اور یا للعجب اگلی صبح صاف مکر جاتے۔ آخر کو پروفیسر احمد رفیق اختر نے مداخلت کی۔ اس لیے کہ انہی کی مدد سے یہ لوگ پارٹی میں شامل ہوئے تھے۔ برآمدے میں کھڑے ہو کر بلند آواز سے خان صاحب نے کہا: اب یہ بات تو طے پا گئی۔ کوئی اور حکم؟
میں حیرت زدہ رہ گیا، جب گھر سے باہر نکلتے ہوئے پروفیسر صاحب نے کہا: امیدواروں کو اطلاع نہ دینا۔ مجھے شبہ ہے کہ اس وعدے پر عمل ہو گا۔ یہ وہ آدمی تھا، جس نے کبھی کہا تھا: مسلمان کی زبان ہی سب کچھ ہوتی ہے۔ ایک شریف آدمی اپنا وعدہ توڑ کیسے سکتاہے؟ اقتدار سنبھالنے کے کچھ عرصہ بعد آنجناب نے البتہ یہ فلسفہ پیش کیا کہ یو ٹرن لینا فراست کی نشانی ہے اورتمام عظیم لیڈر ایسا ہی کرتے رہے۔
قومی اعزازات کے فیصلے کس طرح صادر ہوئے، اس باب میں کچھ تفصیلات اس ناچیز کے علم میں ہیں۔ مثال کے طور پر ایک وفاقی وزیر ڈائجسٹوں میں کہانیاں لکھنے والی ایک خاتون کو اس لیے تمغے کا مستحق سمجھتے تھے کہ ان کی اہلیہ کو یہ کہانیاں پسند تھیں۔ ایسے ہی ایک اجلاس میں متعلقہ وزارت کے سیکرٹری ڈاکٹر جمیل جالبی کو ڈاکٹر جلیبی کہتے رہے۔ وہ ستّر کتابوں کے" مصنف " ہیں۔
سرکاری تقریبا ت میں پابندی کے فیصلے کا علم ہوا تو اوّل اوّل دکھ پہنچا لیکن پھر ایک فیصلہ کیا: انشاء اللہ تجزیہ کرتے ہوئے کبھی کسی صورت میں ذاتی رنج کو غالب نہ آنے دیا جائے۔ اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ اس فیصلے پر بکمالِ تمام عمل کرنے کی اس نے توفیق عطا کی۔ ان کے میڈیا سیل کی گالیاں کھائیں مگر اللہ نے ارادے پر قائم رکھا۔ بہت دن پہلے اس نتیجے پر یہ ناچیز پہنچ گیا تھا کہ مردم شناسی ہے اور نہ معاملہ فہمی۔
خوئے انتقام اس کے سوا ہے۔ کارِ سرکار خان صاحب کے بس کی بات نہیں۔ اللہ نے اس آدمی کو اقتدار شایدصرف اس لیے سونپا ہے کہ ماضی کے بدکردار حکمرانوں کو انجام تک پہنچا دے۔ ادبار کے مارے ملک کو کھلی شاہراہ پہ گامزن کرنا اس آدمی کے بس کی بات نہیں۔ برگزیدگی کے احساس میں وہ مبتلا ہے اور ناقص مشیروں میں گھرا ہوا۔
امام شافعی رحمتہ اللہ علیہ نے ارشاد کیا تھا: میں یہ مان سکتا ہوں کہ الکحل کے باوجود کوئی نشے میں نہ ہو مگر یہ تسلیم نہیں کر سکتا کہ اقتدار کے باوصف کوئی نشے کا شکار نہ ہو۔