محمد علی سے لے کر ٹیپو سلطان اور ٹیپو سے صلاح الدین ایوبی تک، صلاح الدین سے جناب عمر بن عبد العزیزؓ، جنابِ عمر بن عبد العزیز ؓ سے امام حسینؓ اور امام حسینؓ سے لے کر ان کے نانا ؐتک، ہماری ساری تاریخ مشعلوں سے جگمگاتی ہے۔ پلٹ کر ہم انہیں دیکھتے کیوں نہیں؟
بتوں سے تجھ کو امیدیں خدا سے نو میدی
مجھے بتا تو سہی اور کافری کیا ہے
امریکی تاریخ کے ایک کردار ایڈی ایزی کے بارے میں سوچ رہا تھا، خیال کی ایک لہر اٹھی کہ وراثت فقط علم کی نہیں، حُسن کردار کی ہوتی ہے، جیسے شجر سے شاخ پھوٹے۔ لگ بھگ پچانوے برس پہلے ایک مثال اس نے قائم کی تھی، جس نے ایک شمع جلائی۔ اس قندیل کی روشنی میں کچھ اور قابلِ فخر کردار بھی ابھرے۔ ایڈی ایزی اپنے زمانے کا ایک حُسین حقانی تھا۔
اپنے زمانے کا کامیاب ترین، بدنام ترین مافیا کا وکیل۔ امریکی تاریخ میں ہمیشہ باقی رہنے والے مافیا چیف الکپون کا بازوئے شمشیر زن۔ کتنے ہی بے گناہوں کو الکپون نے قتل کرایا تھا۔ ایک وحشی درندہ! ایڈی ایزی کے طفیل ہمیشہ وہ بچ نکلتا۔ راہ چلتی سڑک پر اس کے "جانباز"کسی بھی شخص کو گولیوں سے بھون ڈالتے۔ وہ تومگر سینکڑوں میل پرے کہیں کسی کاروباری اجلاس میں مصروف تھا۔ عدالت سزا دیتی مگر کس طرح؟
امریکی صدر ہربرٹ ہوور عاجز آچکاتھا۔ ایک دن اپنے مشیروں کو اس نے طلب کیا اورکہا، خواہ سورج مغرب سے نکلے، الکپون کو سزا دینا ہے۔ اس طویل مباحثے کے بعد، نتیجہ اخذ کرنے تک جو جاری رہتاہے، طے پایا کہ ٹیکس چوری میں پکڑ لیا جائے۔ ظاہر ہے کہ یہ امریکی حکام پاکستانی ایف بی آر جیسے نہیں تھے۔ آزادی کی ڈیڑھ سوسالہ مسافت کے بعد امریکی معاشرہ قانون کی عمل داری کا عزم پال رہا تھا۔ ٹیکس چوری کا الزام ثابت ہو ا اور الکپون سزا یافتہ۔ اسے ایک جزیرے میں رکھا گیا۔ فرار ہونے کی کوشش کی مگر ناکام۔ آنے والے برسوں میں اس پر فلمیں بنیں اور کتابیں لکھی گئیں۔ آج بھی وہ ایک جیتا جاگتا کردار ہے۔
ایڈی ایزی کااگر کوئی کردار تھا تو اتنا ہی کہ الکپون کی وکالت سے اس نے انکار کر دیا تھا۔ زندہ ہوتا تواس کے خلاف عدالت میں جا کھڑا ہوتامگر مہلت نہ پا سکا۔ ایک بھری دوپہر پہلو میں چلتی کار سے برستی گولیوں کی بوچھاڑ میں وہ کھیت رہا تھا۔ ایڈی ایزی نے اپنے باس کو ترک کرنے کا فیصلہ کیوں اور کیسے کیا؟ وہ فیصلہ، جو رضا ربانی، اعتزاز احسن اور قمر زماں کائرہ نہیں کر سکے۔ بہترین گاڑیوں، شاندار مکان اور ڈالروں سے بھرے بینک اکائونٹس کے جلو میں ایک سوال نے اسے آلیا تھا: اپنی اولاد کو میں نے سب کچھ دیا مگر میں کیا ورثہ چھوڑوں گا؟ کیا وہ مجھ پر فخر کر سکیں گے؟ ا س سوال کا جواب یہ تھا کہ جان جاتی ہے تو جائے، الکپون کی رفاقت سے انکار کر دینا چاہئیے۔
ربع صدی بعد اپنے باپ پر فخر کرنے والے اس کے فرزند بچ اوہئیرنے دوسری عالمگیر جنگ میں وہ کارنامہ انجام دیا کہ باپ کی طرح امر ہو گیا۔ نشانِ حیدر جیسا اعزاز پایا۔ ایم ایم عالم ایسا کارنامہ انجام دیا۔ بچ اوہئیرنے 9عدد جاپانی طیاروں کو دیکھا، جو ایک امریکی بحری جہاز پہ بم برسانے والے تھے۔ اس نے ان پر فائر کھول دیا اور ظاہر ہے کہ اس پر بھی کھولا گیا۔ دو طیارے اس نے مارگرائے۔
گولیاں ختم ہو گئیں تو اپنے پروں سے تین مزید تباہ کر دیے۔ باقی چار خوفزدہ ہو کر بھاگ نکلے کہ وہ تو پاگل ہے۔ اپنے با پ کی طرح، اب وہ امریکی تاریخ کا ایک لہکتا ہوا استعارہ ہے۔ بحری جہاز کے ہزاروں مسافر محفوظ رہے۔ جان سے بالاخر وہ بھی گیا لیکن اس طرح کہ شمال سے جنوب او ر مشرق سے مغرب تک اس کے لیے پھول اور چراغ تھے۔ وہ پھول جو اب بھی مہکتے ہیں۔ وہ چراغ جو اب بھی جلتے ہیں۔
پندرہ سولہ برس پہلے پرائیویٹ ٹیلی ویژن چینلز کے موسمِ بہار سے پاکستانی قوم تاریخ کے طویل مباحثوں میں سے ایک مباحثے میں مصروف ہے۔ ادبار کا زمانہ اس پر کیوں اتراا ور تمام کیوں نہیں ہوتا۔ ہیرے کے آٹھ پہلو ہوتے ہیں مگر مباحثے کے ہزاروں۔ اس لیے کہ بحث کی دنیا میں صرف شاہراہیں نہیں، پگڈنڈیاں بھی ہوتی ہیں۔ ہمیشہ نہیں تو اکثر، دلائل کی گرم بازاری میں بہت سے سالک پگڈنڈیوں پہ اتر جاتے اور انہی کے ہو رہتے ہیں۔ رضا ربانی، اعتزاز احسن اور قمر زماں کائرہ کی طرح۔ ان کے سوا، جو مبادیات سے جڑے رہیں اور بھٹکنے سے انکار کر دیں۔ عصرِ رواں کے عارف نے کہا تھا: راہِ محبت میں پہلا قدم ہی شہادت کا قدم ہوتاہے اور یہ بھی کہا تھا: عقل جہاں رکتی ہے، وہیں بت خانہ تعمیر ہوتاہے۔
صوفی کی کائنات ا س کے قلب میں آباد ہوتی ہے۔ اس قلب میں ہمیشہ دو دیے جلتے رہتے ہیں۔ ایک قرآنِ کریم اور دوسرا رحمتہ اللعالمینؐ کی سیرت۔ دنیا سے رخصت ہوتے ہوئے سرکارؐ نے ارشاد کیا تھا: دو چیزیں میں تمہارے درمیان چھوڑے جاتا ہوں۔ ان کی پیروی کروگے تو کبھی گمراہ نہ ہوگے۔ ایک اللہ کی کتاب اور دوسرا میری سنت۔ غروبِ آفتاب کے بعد اصحابؓ کی ایک جماعت سیدنا عائشہ صدیقہؓ کی خدمت میں حاضر ہوئی اور عرض کیا: سرکارؐ کے اخلاق (characteristics)کیسے تھے؟
فریایا: کیا تم قرآن نہیں پڑھتے؟ یہ محرم کے دن ہیں۔ امام ؓ، ان کے رفیق اور ان کی اولاد یاد آتی ہے۔ شب کی تاریکی میں امامؓ نے اپنے ساتھیوں کو رخصت ہونے کی اجازت دی، جو رخصت کے تمنائی ہوں، ان میں سے ایک نے کہا تھا: اگر ہم چلے گئے تو قیامت کے دن آپؐ کو کیا منہ دکھائیں گے۔۔ اور آپؓ کے فرزند امام زین العابدینؓ نے یہ کہا تھا: ہم اس طرح سیرت پڑھا کرتے، جس طرح قرآن پڑھا جاتا ہے۔ نگاہِ عشق و مستی میں وہی اوّل وہی آخروہی قرآں، وہی فرقاں، وہی یٰسین، وہی طٰہٰ اقبالؔ کے بعض اشعار پہ بعض علما کو اعتراض ہوتاہے۔ مثلاً یہ کہ: وہ دانائے سبل، ختم الرسلؐ، مولائے کل جس نے / غبارِ راہ کو بخشا فروغِ وادیء سینا۔
بتوں کی پوجا کرنے والوں کو، ابو القاسمؐ نے کردار کے کیسے سنہری سانچوں میں ڈھال دیا تھا۔ ان میں سے ہر ایک ہمیشہ ہمیشہ کے لیے زندہ ہو گیا؟
زندہ ہو جاتے ہیں جو مرتے ہیں اس کے نام پر
اللہ اللہ، موت کو کس نے مسیحا کر دیا
ہمیشہ ہمیشہ تاریخ کے اوراق پہ جگمگاتا رہے گا۔ حضرت محمد ﷺ انسان ہی تھے مگر ایک دائم چراغ بھی، سراجاً منیرا۔ ہمیشہ تاباں، ہمیشہ مثال۔ اپنے خاندان کے ساتھ سوا دو سال شعبِ ابی طالبؓ میں بھوکے پیاسے رہے۔ جنگِ خندق میں دوسروں نے اپنے پیٹ پر ایک توآپؐ نے دو پتھر باندھے۔ انہوں نے اپنا بیشتر مال اللہ کی راہ میں قربان کیا تو آپؐ نے اپنی تمام پونجی لٹا دی۔ لگ بھگ چار ہزار ایسے مردانِ بے مثال آپؐ نے پیدا کیے کہ دیے سے دیا جلتا رہا۔ ایک ہزار برس تک آپؐ کی امت نے علم اور کردار کی فوقیت سے کرّہء ارض پہ حکمرانی کی۔ اب تاویل کرنے والے رہ گئے ہیں۔ یہ کہ یو ٹرن دراصل انحراف کی بدترین شکل نہیں بلکہ حکمت کا شاہکار ہوتاہے۔
آپ ہم تو بوجھ ہیں زمین کازمیں کا
بوجھ اٹھانے والے کیا ہوئے؟
اللہ نے آپؐ کی قسم کھائی " لعمرک " اے محمدؐ تیری عمر کی قسم۔ غبارِ راہ کو فروغ کے لیے حسنِ کردار کے نمونے درکارہوتے ہیں۔ محمد علی جناح کی طرح۔ کوئی ہمیشہ نہیں رہتا مگرمحمد علی سے لے کر ٹیپو سلطان اور ٹیپو سے صلاح الدین ایوبی تک، صلاح الدین سے جناب عمر بن عبد العزیزؓ، جنابِ عمر بن عبد العزیز ؓ سے امام حسینؓ اور امام حسینؓ سے لے کر ان کے نانا ؐتک، ہماری ساری تاریخ مشعلوں سے جگمگاتی ہے۔ پلٹ کر ہم انہیں دیکھتے کیوں نہیں؟
بتوں سے تجھ کو امیدیں خدا سے نو میدی
مجھے بتا تو سہی اور کافری کیا ہے