عدل ان معاشروں کو نصیب نہیں ہوتا، ہر طرف جہاں جذبات کی آگ بھڑک رہی ہو۔
کبھی ماحول ایسا ہوجاتاہے جب براہِ راست اور کھل کر گفتگو سے گریز کرنا چاہئیے۔ تب گریز کرنا چاہئیے جب فتنے کا اندیشہ ہو۔ اللہ کی آخری کتاب میں لکھا ہے۔:فتنہ قتل سے بڑا گناہ ہے۔ جن کا ایمان نہیں ہے، جن کا مذہب فقط عقلِ انسانی ہے، وہ جانیں اور ان کا کام جانے۔
جن کا ایمان ہو اور جن کا ضمیر زندہ ہو، انہیں بہرحال عقلِ عام، حکمت اور تاریخی تجربات کے علاوہ، سب سے بڑھ کر اللہ کی کتاب اور اللہ کے آخری رسولؐ سے رجوع کرنا چاہئیے۔
اس طالبِ علم کے خیال میں قرآن مجید کا حکم واضح ہے۔ ہم اپنی خواہشات اور تعصبات کے مارے، اکثر بھول جاتے ہیں: ولکم فی القصاص حیوۃ یا اولی الالباب۔ یعنی فہم و بصیرت رکھنے والے سمجھ سکتے ہیں کہ زندگی قصاص میں رکھی گئی۔ قصاص کا مطلب ہے جتنا جرم، اتنی سزا۔ فیصلہ ظاہر ہے کہ کوئی فریق نہیں کر سکتا۔ اس کے لیے ضمیر کی قندیل روشن کرنا ہوتی ہے۔ اپنے تعصبات کو بالائے طاق رکھنا پڑتا ہے۔ فیصلہ بہرحال غیر متعلق لوگ کر سکتے ہیں۔ حالات کیسے ہی کیوں نہ ہوں اور یہ لوگ کیسے بھی ہوں، انہی پہ انحصار کرنا ہوگا۔ وقت کا کارواں، آج کا سورج غروب ہونے پہ تھم نہیں جائے گا۔ مہلت باقی ہے اور جب مہلت باقی ہو تو صبرو قراراور گہرے غور و فکر سے کام لینا چاہئے۔ اپنی ذات، اپنی وابستگیوں اور سب سے بڑھ کر کسی ممکنہ مفاد سے بالاتر ہوکر غور کرنا چاہئیے۔ اپنی ذات کو منفی کیے بغیر حقیقی ادراک ممکن نہیں۔
کشف المحجوب میں ایک عجیب واقعہ شیخِ ہجویرؒ نے لکھا ہے۔ اس پر سوچتے ہوئے کئی برس بیت چکے۔ جلیل القدر علی بن عثمان ہجویری ؒکے مطابق واقعہ یہ ہے کہ ایک گرہ ذہن میں پڑ گئی تھی۔ ایک سوال تھا، جس کا جواب نہ ملتا تھا۔ سفر اختیار کیا کہ یہ بھی اہلِ علم کے قرینوں میں سے ایک قرینہ ہے۔ ماحول سے علیحدگی، تنہائی یا کسی صاحبِ انصاف، صاحب علم کی تلاش۔ فرمایا: میں سفر میں تھا۔ ایک سرائے میں ٹھہرا۔ تاجروں کا ایک گروہ بھی وہیں تھا، بازاری لوگ۔ خربوزے کھاتے ہوئے چھلکے وہ درویش پہ پھینکتے رہے۔ جیسا کہ راہِ سلوک کے مسافروں کا شیوہ اورشعار ہے، آپ نے صبر سے کام لیا۔ گرہ کھل گئی اور اپنے سوال کا جواب آپ نے پالیا۔ تعجب ہوتا رہا کہ اس سوال کا ذکر آپ نے نہیں کیا۔ بہت دن سوچا تو سمجھ میں یہ آیا کہ سوال اہم نہیں، نکتہ اہم تھا۔ سچا غور و فکر، صبر و تحمل کے ساتھ۔ ایک لحاظ سے یہ ہجرت ہے۔ ہجرت فقط مقام تبدیل کرنا نہیں ہے بلکہ ہجرت دراصل خود کو ترک کرنے میں ہوتی ہے۔
قرآنِ کریم میں ارشاد یہ ہے:
قسم ہے زمانے کی
بے شک انسان خسارے میں ہے
مگر وہ لوگ جو ایمان لائے اور نیک عمل کرتے ہیں
نشانی ان کی کیا ہے۔ خود بھی سچائی اور صبر پہ قائم رہتے اور دوسروں کو بھی دائم اس کا مشورہ دیتے ہیں۔
ملک کو اس وقت کیا چیز درکار ہے۔ ایسا ماحول کہ امن و قرار قائم ہو جائے۔ ایسا ماحول مہیا کر دیا جائے، عدل جس میں ممکن ہو۔ حالات ایسے بھی ہو جاتے ہیں جن میں قیامِ انصاف ممکن ہی نہیں رہتا۔ مثال کے طور پہ سیدنا عثمان ذو النورین ؓ کی شہادت کے موقع پر۔ کیسا بھیانک واقعہ تھا۔ آپ ؓ کے بارے میں رسول اللہؐ نے ارشاد کیا تھا: میں کیوں عثمان سے حیا نہ کروں، عثمان سے تو فرشتے بھی حیا کرتے ہیں۔
تلاوتِ قرآنِ کریم کرتے ہوئے ایسی جلیل القدر ہستی کا خون بہا اور جناب علی کرم اللہ وجہ نے فیصلہ موخر کر دیا۔ علی جو تب کرہ خاک پرفیصلے کی صلاحیت رکھنے والے بہترین میں سے بہترین تھے۔ آپؓجانتے تھے کہ فوراً فیصلہ کیا تو فائدے سے زیادہ نقصان ہوگا۔
کبھی کچھ تاخیر کرنا پڑتی ہے۔ کبھی عدل بتدریج ہی بروئے کار آ سکتا ہے۔ یہ اس طالبِ علم کی ذاتی رائے ہے۔ دوسروں کو اختلاف ہو سکتاہے اور وہ درست بھی ہو سکتے ہیں۔ ایسے گھمبیر اور خوفناک حالات میں آدمی کو مگر وہی کہنا چاہئیے، جس پر اس کا ضمیر مطمئن ہو۔ اس کاعلم خواہ معمولی ہو اور اس کی رائے درست نہ بھی ہو، تب بھی غور و فکر کا سامان تو مہیا ہو سکتاہے۔
عدلیہ نے قرار دیا ہے کہ وقتی طور پر حمزہ شہباز وزیرِ اعلیٰ رہیں گے مگر محدود اختیارات کے ساتھ۔ عدالتِ عظمیٰ نے درمیان کا راستہ اختیار کیا اور درمیان کا راستہ ہی اختیار کرنا چاہئیے، جب آگ بجھانی مقصود ہو۔ بدگمانوں اور شعلہ نواؤں کی بات دوسری ہے۔ ان میں سے اکثر اب شیخ مجیب الرحمٰن کو بھی معصوم قرار دے رہے ہیں۔ بعض دوسرے زیادہ قصوروار لیکن شیخ کیسے معصوم ہو گیا۔ اس پہ تو اس کی قوم متفق نہیں، یہ تو بھارت کا موقف ہے۔ فوجی افسروں نے اپنی زندگیاں داؤ پر لگا کر انہیں قتل کر ڈالا تھا۔ خطاکار ہر حال میں خطاکار ہے۔ خواہ اس سے بھی بڑے نا انصاف موجود ہوں تب بھی قصوروار قصوروار تو رہے گا۔
شیخ مجیب الرحمٰن کو معصوم کہنے والوں نے غور و فکر کی زحمت گوارا نہیں کی۔ ممکن ہے، یہ موقف سرحد پار سے آیا ہو۔ سرحد پار، جہاں پاکستان کی سلامتی کے درپے درندے حکمران ہیں۔ ٹھنڈے دل سے سوچئے تو عام انتخابات کے سوا اب کوئی چارہ نہیں۔ غور و فکر کرنے والوں میں سے اکثر کی رائے یہی ہے۔ الیکشن مگر بچوں کا کھیل نہیں اور کارفرما حالات میں تو بالکل ہی نہیں۔ الیکشن کے لیے سازگار فضا درکار ہے۔ اس کے لیے منصوبہ بندی کرنا ہوگی۔ نیک نیتی اور حکمت کے ساتھ۔ عدل کی بجائے جنہیں فقط ایک فریق مطلوب ہے، غلبے کی وحشیانہ جبلت کا جو شکار ہیں، ان سے گفتگو نہیں۔ برہم اور مشتعل آدمی سے کیا مکالمہ۔ گفتگو ان سے ہے، جو اپنے تعصبات کو تیاگ سکتے ہو ں، کم از کم وقتی طور پر۔
بنیادی اور سنگین مسائل پر غور کرنے کی قوم کو فرصت ہی نہیں۔ یہ جعلی جمہوریت ہے۔ دوسرے عوامل اور دوسرے پہلوؤں کے علاوہ اس لیے بھی جعلی ہے کہ معاشرے کی ساخت سے ہرگز کوئی مطابقت اس کی نہیں۔ صدیوں پہلے یہ نظام برطانوی سرزمین کے لیے تراشا گیا اور چند ملکوں نے اس کی پیروی کی۔ کہیں بھی پوری طرح یہ کامیاب نہیں۔ جہاں بظاہر یہ کامیاب ہے، وہاں بھی معاشرتی شکست و ریخت کا باعث بہرحال بنا ہے۔ ہمارے پڑوسی ملک میں جمہوریت قائم ہے لیکن جمہوریت کے اس مہربان سائے تلے جرائم پیشہ مسلسل فروغ پا رہے ہیں اور پاتے رہیں گے۔ تعصبات کی آبیاری ہے اور اس شدت کے ساتھ کہ سیاست ہی نہیں، عدالت اور انتظامیہ بھی نفرت کے طوفان میں بہہ گئی ہے۔ انسانی حقوق کی monitoringکرنے والی عالمی تنظیمیں کہتی ہیں کہ بھارت خانہ جنگی کے دہانے پر کھڑا ہے۔
اول تو آگ بجھانی چاہئیے۔ اول تو ماحول ٹھنڈا کرنا چاہئیے۔ اول تو فیصلے کے لیے سازگار فضا قائم کرنی چاہئیے۔ اس کے بعد مکمل عدل۔ اس لیے کہ زندگی عدل ہی میں جیتی اور فروغ پاتی ہے۔ عدل ان معاشروں کو نصیب نہیں ہوتا، ہر طرف جہاں جذبات کی آگ بھڑک رہی ہو۔