کبھی یہ خیال تسکین دیتاہے کہ اس خاک داں میں جو بچھڑ گئے، کبھی ان سے ملاقات ہوگی۔ کبھی تو ان کے روبرو ہوں گے۔ میرؔ صاحب نے کہا تھا:
موت اک ماندگی کا وقفہ ہے
یعنی آگے چلیں گے دم لے کر
قمر زماں کائرہ کے فرزند کا انتقال ہوا تو ہمدردی کا طوفان اُٹھا، ہزاروں پیغامات۔ ایک بار پھر احساس ہوا کہ معاشرے میں زندگی ابھی باقی ہے۔ ابھی کچھ گداز برقرار ہے۔ ایک مختلف آواز بھی سنائی دی:تم سب اس نامور آدمی کی اولاد کو روتے ہو۔ اس خوبصورت اور وجیہہ نوجوان کو کیوں نہیں، جو مرنے والے کے ساتھ جان ہار گیا۔
جمعہ کی شب گیارہ سوا گیارہ بجے عدنان عادل نے فون کیا۔ اسامہ قمر کی المناک وفات پہ رنج کا اظہار کیا اور پھر دیر تک اس کے مرنے والے دوست کا ذکر کرتے رہے۔ اس کے جمال، اس کے چہرے پہ پھیلی ہوئی معصومیت کا۔ پھر فوراً ہی اس کی تصویر بھیجی۔ دل اگر مردہ نہ ہو چکا ہو، تو ہر موت ہمیں جھنجھوڑتی، جگاتی، خوفزدہ کرتی اور روزِ ازل کے پیمان کی یاد دلاتی ہے۔ یہ زیادہ اذیت ناک ہے، اس لیے کہ بیٹے باپ کا جنازہ اٹھاتے ہیں، باپ بیٹوں کا نہیں۔ حادثہ برعکس ہو تو موت کی ہیبت بڑھ جاتی اور غم دوگنا ہو جاتاہے، دوگنا کیا، سو گنا۔
سرکارؐ کے ناموں میں سے ایک نام ابو القاسمؐ بھی ہے۔ کمسن فرزند کا انتقال ہوا تو آنکھوں سے آنسو بہتے رہے۔ پھر اس مفہوم کا جملہ کہا کہ زبان سے ہم کچھ نہیں کہتے مگر آنکھیں روتی ہیں۔ ایسا صبر و قرار صرف پیغمبروں ؑ کو نصیب ہوتاہے۔ اگرچہ غم سے انہیں بھی رہائی نہیں۔ اپنی تقدیر پہ وہ شاکر ہوتے ہیں مگر جدائی کا صدمہ تو بہرحال صدمہ ہے۔ یوسفؑ کے کھوجانے پر یعقوبؑ نے کہا تھا "فصبر جمیل"صبر سب سے زیادہ خوبصورت چیز ہے۔ غالبؔ نے کہا تھا۔
قید میں یعقوب نے لی گو نہ یوسف کی خبر
لیکن آنکھیں روزنِ دیوارِ زنداں ہو گئیں
چار ہزار برس بیتنے کو آئے، اقصائے عالم میں آج بھی یوسفؑ، باپ اور بھائیوں کی کہانی کہی جاتی ہے۔ غنی کاشمیری کا شعرضرب المثل ہو گیا ہے۔
غنی ؔروزِ سیاہِ پیرِ کنعاں را تماشہ کن
کہ نورِ دیدہ اش کنند چشمِ زلیخاراغنیؔ،
پیرِ کنعاں کے روزِ سیاہ نے عجیب ماجرا برپا کیا۔ ان کی آنکھوں کے نور نے چشمِ زلیخا کو جا روشن کیا۔
پنجاب کے دیہات میں، مولوی غلام رسول کا لکھا قصہ یوسف زلیخاآج بھی پڑھا جاتاہے۔ خاموش راتوں اور جاگتی صبحوں کے رچائو میں آج بھی آنسو بہائے جاتے ہیں۔ سورۃ یوسف کی تلاوت کرنے والے عالم اور صوفی آج بھی رک رک کر اسے پڑھتے ہیں۔ ٹھٹک جاتے اور تدبّر کرتے ہیں۔
قرآنِ کریم نے یوسفؑ کی کہانی کو ہمیشہ کے لیے امر کر دیا۔ اب یہ کبھی نہیں کھو سکتی۔ جب تک گردش لیل و نہار قائم ہے، پڑھی جاتی رہے گی۔ غور کرنے والے اس میں غور کر تے رہیں گے۔ جنہیں توفیق عطا ہو، سوئے ہوئے دلوں کو جگا سکیں گے، قندیل بنا سکیں گے۔ ہزار پہلو اس داستان کے ہیں۔ ہر ایک میں عبرت اور نصیحت کے چراغ۔ ایک یہ کہ ابتلا اور امتحان کے بعد انعام بھی ہوتاہے۔ صرف اللہ ہی جانتا ہے کہ کیا چیز آدمی کے لیے اچھی ہے اور کیا بری۔ ایک یہ بھی کہ جواں سال بیٹا کھوجائے تو پیمبرؑ بھی ملال میں مبتلا ہوتاہے۔
جس طرح اچانک کائرہ صاحب کو خبر دی گئی، اس پر بھی بحث ہے۔ بعض نے مطلع کرنے والے اخبار نویس کو کوسا۔ یہ ہمارے قومی مزاج کا شاخسانہ ہے۔ یہ تعجیل میں کیا جا نے والا تبصرہ ہے۔ اس نے صرف حادثے کی اطلاع دی۔ یہ نہیں کہا کہ ان کی متاع لٹ گئی ہے۔ با ایں ہمہ حادثے کا سنتے ہی جو کرب باپ کی آنکھوں میں ابھرا، ان گنت اذہان میں شاید ہمیشہ کے لیے مجسم ہو گیا۔ اسد اللہ خاں غالب ؔ یاد آئے۔ لے پالک عارف مر گیا مگر جو مرثیہ لکھا، جب تک اردو زبان باقی ہے، وہ زندہ رہے گا۔
لازم تھا کہ دیکھو مرا رستہ کوئی دِن اور
تنہا گئے کیوں اب رہو تنہا کوئی دن اور
مٹ جائے گا سَر، گر، ترا پتھر نہ گھِسے گا
ہوں در پہ ترے ناصیہ فرسا کوئی دن اور
آئے ہو کل اورآج ہی کہتے ہو کہ 'جاؤں؟ '
مانا کہ ہمیشہ نہیں اچھا کوئی دن اور
جاتے ہوئے کہتے ہو 'قیامت کو ملیں گے'
کیا خوب! قیامت کا ہے گویا کوئی دن اور
ہاں اے فلکِ پیر! جواں تھا ابھی عارفکیا تیرا بگڑ تا جو نہ مرتا کوئی دن اورتم ماہِ شبِ چار دہم تھے مرے گھر کےپھر کیوں نہ رہا گھر کا وہ نقشا کوئی دن اورتم کون سے تھے ایسے کھرے داد و ستد کےکرتا ملکُ الموت تقاضا کوئی دن اورگزری نہ بہرحال یہ مدّتِ خوش و ناخوشکرنا تھا جواں مرگ گزارا کوئی دن اور
ناداں ہو جو کہتے ہو کہ کیوں جیتے ہیں غالبؔ
قسمت میں ہے مرنے کی تمنا کوئی دن اور
آدمیت ایک چیز ہے، سیاست و اقتدار دوسری۔ کائرہ ان لوگوں میں سے ایک ہیں، جن سے آدمیت کی امید کی جا تی ہے۔ ذرا سا رسوخ اور شہرت بگاڑ دیتی اور عدمِ توازن پیدا کرتی ہے۔ قمر زماں کائرہ اہم ترین مناصب پہ فائز رہے۔ اپنے اندر کے آدمی کو سنبھالے رکھنے کی کوشش کی۔ سر میں سودا نہیں ہے، خبطِ عظمت نہیں ہے۔ بات سنتے ہیں، احساس کی لو روشن رکھنے کی تمنا کرتے ہیں۔ تمکنت کا مظاہرہ نہیں کرتے۔ دوسروں کی سنتے اور اپنی سناتے ہیں۔ ہم اخبار نویسوں کو ان سے واسطہ رہتاہے۔ انسان ہیں، فرشتہ نہیں لیکن لیڈروں کی سی خو بو ان میں نہیں۔
منظرِ عام پر آنے والی شخصیت چھپی نہیں رہ سکتی۔ رفتہ رفتہ سب آشکار ہو جاتاہے۔ تراشیدہ یا ناتراشیدہ پہلوئوں کا تاثر عامیوں پر بھی کچھ نہ کچھ اجاگر ہو جاتاہے۔ اس میں کوئی تعجب نہیں کہ ان کے غم کو زیادہ محسوس کیا گیا۔ یہ بھلائی اور خیر کی نشانی ہے کہ بھلے آدمیوں پہ بیتنے والے صدمے کا احساس زیادہ ہو۔ اس پر قدرے اطمینان ہوا کہ کائرہ رو رہے تھے۔ اطمینان کی اس میں کیا بات ہے؟ اس لیے کہ درد کا اظہار نہ کیا جائے تو آدمی پتھر ہو جاتاہے۔
جیسا کہ سرکارؐ نے کہا تھا: صبر وہ ہے، جو پہلی چوٹ لگنے پر کیا جائے۔ فطرت کا تقاضا مگر یہ بھی ہے کہ درد کا اظہار کرے۔ اپنے ایک دوست کی وفات پر مولانا ظفر علی خاں نے کہا تھا کہ اگر آج بھی نہ روئے تو گریہ کس دن کے لیے بنا ہے؟ بندے نہیں جانتے اور مالک جانتاہے۔ سبھی کو لوٹ جانا ہے۔ سبھی کو اللہ اپنی امان میں رکھے۔ کبھی یہ خیال تسکین دیتاہے کہ اس خاک داں میں جو بچھڑ گئے، کبھی ان سے ملاقات ہوگی۔ کبھی تو ان کے روبرو ہوں گے۔ میرؔ صاحب نے کہا تھا:
موت اک ماندگی کا وقفہ ہے
یعنی آگے چلیں گے دم لے کر