یہ وہی ہیں، خارجی! خود کو مقدس اور باقی تمام امّت کو گمراہ گرداننے والے۔ بھارت کے مشرکین سے رشتہ وپیونداور اپنی قوم سے مخاصمت۔ ان کے لئے جس دل میں نرم گوشہ ہو؟
"درد کی نمود اور لہو بہنا، آدمی کے حق میں اچھا ہے "ڈاکٹر صاحب نے کہا:درد اگر نہ ہوتا تو اور خون اگر نہ بہتا تو آدمی اذّیت اور خوف کا شکار نہ ہوتا، علاج کے لئے فکر مند نہ ہوتا۔ پروردگار رحمن اور رحیم ہے۔ ابنِ آدم کی وہ یاد دلاتا رہتاہے کہ وہ حماقت کا مرتکب ہے۔ اپنے تحفّظ اور بقا کی فکر پا لے۔ پشاور کے حادثے پر فقظ رونے پیٹنے یا حکومت کو کوسنے سے کیا حاصل؟ مریض اور زخمی گریہ کرتارہے اور علاج کی تدبیر نہ کرے کیا ہو گا؟
ممکن ہے کہ یہ کوئی دوسرا ہو، داعش یا القاعدہ۔ غالب امکان مگر یہ ہے کہ وہی تحریک طالبان پاکستان ہے۔ کسی قدر یہ کابل کی طالبان حکومت کے ردِّعمل سے بھی آشکار ہے۔ حادثے پر جس نے ملال کا اظہار کیا؛ لیکن نرم الفاظ میں کہ ان کے حلیف برہم نہ ہوں۔
غالباً یہ جنگ حنین تھی۔ ایک شخص سرکارؐ کے قریب آیا اور کہا "محمدؐ انصاف کرو" آپ کے چہرے کا رنگ سرخ ہو گیا اور ارشاد کیا "محمدؐ اگر انصاف نہیں کرے گا تو کون کرے گا؟"مالِ غنیمت کی تقسیم پر اسے اعتراض تھا۔ ہمیشہ سے سرکارؐ جودو سخا کے خوگر تھے۔ دستِ کرم اس دن یوں حرکت میں آیا کہ دیکھنے والے دنگ رہ گئے۔ بعض نے اعتراض بھی کیا۔ نومسلّموں کو اس فیّاضی سے آپ نے عطا کیا کہ ایسا نظارہ آسمان نے شاید ہی کبھی دیکھا ہو۔ سو اونٹ ایک شخص کو دیے۔ اس نے کہا "میرا بھائی یا رسول اللہ" ایک سو اونٹ اسے بھی دے دئیے۔ مکہ مکرّمہ کے مکینوں میں سے اکثر ایک اونٹ کے مالک بھی نہ تھے؛ چہ جائیکہ کہ اتنا بڑا ریوڑ۔
انصار مدینہ میں سے بھی بعض کو خیال ہوا کہ وہ نظرانداز کئے گئے۔ چہ میگوئیوں کی اطلاع سرکارؐ کو ملی توانہیں جمع کیا۔ ان سے پھر جو کچھ ارشاد کیا، اس کا خلاصہ یہ ہے: کیا یہ بات تمہیں پسند نہیں کہ لوگ مال ودولتِ دنیا لے جائیں اور تم مجھے اپنے ساتھ لے جائو"روتے روتے ان کی داڑھیاں بھیگ گئیں۔
اس آدمی کی بات مگر دوسری تھی۔ لہجہ اس کا کرخت تھا۔ آپؐ سے وہ یوں مخاطب ہوا، جیسے کسی عام جنگی کمانڈر، بادشاہ یا فاتح سے بات کر رہا ہو۔ قرآن کریم کا ارشاد ااس نے بھلا دیا، مفہوم جس کا یہ ہے:اپنی آوازیں پیغمبر ؐ کی آواز سے بلند نہ کرو، ایسا نہ ہو کہ تمہار سب اعمال ضائع ہو جائیں اور تمہیں اس کی خبر تک نہ ہو۔ ایک آدھ نہیں، لگ بھگ چالیس مقامات پر قرآن کریم میں ارشاد ہے:اطاعت کرو اللہ کی اور اللہ کے رسولؐ کی۔ سورج کو خالقِ کون و مکاں چراغ کہتا ہے اور عالی مرتبت کو "دمکتا ہوا سورج" پھر جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں کتاب میں لکھا ہے:اللہ اور اس کے فرشتے محمدؐ پہ درود بھیجتے ہیں۔ کتنے ہی مقامات ہیں، جہاں ٹھٹھک کر آدمی رک جاتا ہے:
حیرتِ گل سے آبِ جو ٹھٹھکا
بہے بہتیراہی بہا بھی جائے
مثلاً یہ کہ مومنوں کی بھلائی کے لیے آپؐ حریص واقع ہوئے ہیں۔ بندے اور خالق کے دو نام مشترک ہیں۔ اللہ رئوف اور رحیم ہے، ختم المرسلین بھی رئوف اور رحیم۔ خالق ربّ العالمین ہے تو آپ رحمتہ اللعالمینؐ۔ فرمایا: جو کچھ وہ تمہیں عطا کریں لے لو اور جس چیز سے منع کریں، رک جائو۔ لفظ لفظ، ان کے حکم کی تعمیل ضروری ہے، تاویل کی گنجائش نہیں۔ جنگِ احد میں ٹیکری کے پہرے داروں کا واقعہ، اس کی واضح ترین مثال ہے۔ قرآن میں ایک لفظ ایسا کہ حیرت میں قاری گم ہو جاتا ہے "لِعُمرِک" قسم ہے تمہاری عمر کی۔ یعنی جنابِ رسالت مآبؐ کی زندگی کے ہر لمحے کی۔ طارق پیرزادہ نے پرسوں کہا: کب سے نعت لکھی جا رہی تھی۔ چودہ سو برس کے بعد ایک امتّی آیا کہ چوپٹ کھلے دروازے اس کے بعد تنگ دکھائی دینے لگے۔ دوسروں کے لئے اب مشکل سوا ہو گئی، جو پہلے ہی کارفرما تھی۔
غالبؔ ثنائے خواجہ بہ یزداں گذاشتیم
کہ آ ںذاتِ پاک مرتبہ دانِ محمدؐ است
سرکارؐ کی مدح میں نے پروردگار کی بارگاہ میں کی کہ وہی ان کے مقام و مرتبے سے آگاہ ہے۔ مبالغہ نہیں واقعہ یہی ہے۔ گننے والوں نے فضائل گننے کی کوشش کی۔ 4000منفرد اور متعین عادات۔ مثلاً کسی کی طرف متوجہ ہوتے تو پورے پیکر کے ساتھ گھوم جاتے۔ مثلاً خارش کبھی ہاتھ سے نہ کی بلکہ دھوپ میں جلے تنکے سے۔ آخر کو ایک درویش نے کہا: یہ ممکن ہی نہیں، نفس کے فریب شمار کئے جا سکتے ہیں اور نہ مصطفیٰ ؐکے مقامات۔ مولانا جامی تھے کہ درد کی فراوانی کے ساتھ نعت کی کائنات میں منہمک رہتے:
از جامیِٔ بیچارہ رسانید سلامے
برَدَر گہہ دربارِ رسولِ مدنی را، مدنی را
اے بادِ صبا، اس بیچارے جامی کا سلام دربارِ رسول کے دروازے تک پہنچا دینا۔ فارسی کے ایک دوسرے قادرالکلام نے کہا ؎
ادبِ گاہ ہیست زیر آسماں از عرش نازک تر
کہ نفس گم کردہ می آید جنیدؒ و بایزیدؒ ایں جا
ایک ادبِ گاہ ایسی بھی ہے کہ عرش سے نازک تر ہے۔ جنیدؒ و بایزیدؒ جہاں گنگ ہو جاتے۔ حفیظ تائبؔ مرحوم یاد دلایا کرتے کہ دونوں اصحابِ صحو ہیں۔ پھر اقبال ؔکی آواز اٹھی اور ایسی کہ رفتگاں بھی جاگ اٹھتے تو رشک کرتے۔
خیمہ افلاک کا ایستادہ اسی نام سے ہے
نبضِ ہستی تپش آمادہ اسی نام سے ہے
اور یہ کہ:
وہ دانائے سبلؐ، ختم الرّسلؐ مولائے کلؐ جس نے
غبارِ راہ کو بخشا فروغِ وادی سینا
جنگ حنین کے دن اعتراض کرنے والے پر سرکارؐ نے اصحابؓ سے فرمایا:اس کی اولاد میں ایسے لوگ پیدا ہوں گے، اتنی نمازیں جو پڑھیں گے کہ تم نہیں پڑھتے۔ اتنا قرآن پڑھیں گے کہ تم نہیں پڑھتے۔ قرآن مگر ان کے حلق سے نیچے نہیں اترے گا۔
آپؐ کے وصال کو ایک عشرے سے کچھ زیادہ گزرا تھا کہ وہ نمودار ہوئے۔ خارجی!دوسروں کا تو ذکر ہی کیا؟ امیر المومنین سیدنا علی کرم اللہ وجہُ پہ انہیں اعتراض تھا۔ انہی میں سے ایک بدبخت نے آپ کو شہید کیا نماز فجر کے لئے جب آپ گھر سے نکلے۔ خنجر گھونپا گیا تو فرمایا، فُزتُ بِربِّ الکعبہ" رب کعبہ کی قسم میں کامیاب ہو گیا۔ شہادت کا اعزاز پایا کہ آپؓ کی آرزو تھی اور آزمائش کی آخری ساعت سے سرفراز گزرے۔
یہ وہی ہیں، خارجی! خود کو مقدس اور باقی تمام امّت کو گمراہ گرداننے والے۔ بھارت کے مشرکین سے رشتہ وپیونداور اپنی قوم سے مخاصمت۔ ان کے لئے جس دل میں نرم گوشہ ہو؟