کپتان خود فریبی کا شکار ہے، اردگرد ان کا جھمگٹا، جو خرابی کو ہوا دیتے ہیں۔ اس میں ان کی بقا ہے، اسی میں ان کا مفاد۔ کیا وہ ان سے چھٹکارا پائے گا یا ان کی نذر ہو جائے گا۔ یہ فیصلہ اسے خود کرنا ہے۔
ایک سیاسی پارٹی کے نقطہ نظر سے پختون خوا میں پی ٹی آئی کی شکست بہت بڑا سانحہ۔ اْس سے بھی بڑا حادثہ مگر یہ ہے کہ شبلی فراز کے سوا پارٹی کے کسی ایک بھی لیڈر کا کوئی ایسا بیان سامنے نہیں آیا، حقیقت پسندی جس میں جھلکتی ہو۔ شبلی فراز نے بھی یہ کہنے پر اکتفا کیا کہ اپنی شکست وہ تسلیم کرتے ہیں۔
سب سے پہلے یوسفزئی بولے۔ الجھے اور سہمے ہوئے۔ کہا تو یہ کہا کہ مہنگائی مار گئی۔ گویا یہ ایک خارجی حادثہ تھا۔ آسمان سے گرنے والی بجلی، طوفانِ بادوباراں یا کوئی سیلاب۔ خود حکومت کا کوئی تعلق گرانی سے نہیں تھا۔
سامنے کی بات یہ ہے کہ دنیا بھر میں کرونا کی آفت سے، نرخ اوسطاً3.5فیصد بڑھے ہیں۔ پاکستان میں یہ شرح دس گیارہ فیصد کیوں ہے۔ سب جانتے ہیں کہ سبب افراطِ زر ہے۔ افراطِ زر کی ایک وجہ بے شعور حکمرانی اور دوسری حریفوں کا ناک رگڑنے کی بے قابو خواہش۔
ایک بڑی وجہ روپے کی گرتی ہوئی قد ر اور اس سے پیدا ہونے والی بے یقینی ہے۔ سرمایا جس میں سہم کر تجوریوں میں بند ہو جاتا یا بیرونِ ملک فرارر ہونے لگتا ہے۔ خوف زدہ تاجر اپنا ہاتھ روک لیتے یا قیمتیں بڑھا کر اپنا خسارہ پورا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
معیشت کا ایک ادنیٰ طالبِ علم بھی جانتا ہے کہ اقتصادی زندگی میں بے یقینی سے بڑی بیماری کوئی نہیں ہوتی۔ عالم یہ ہے کہ بینک میں ڈالر کی قیمت، 180، 181روپے اور چور بازار میں 190روپے تک جا پہنچی ہے۔ عوامل سے سبھی واقف ہیں، تدارک کرنے والا کوئی نہیں۔ سادہ الفاظ میں اس کا مطلب یہ ہے کہ حالات پہ حکومت کی گرفت قائم نہیں۔ وہ فیصلہ سازی اور قوتِ عمل سے محروم ہو چکی۔ سندھ میں حریفوں کی حکومت ہے۔ ایسے بگڑے ہوئے لوگ، جن سے سدھار کی کوئی امید کبھی کسی حالت میں نہیں کی جا سکتی۔
کہنے کو بلوچستان میں بھی ایک حکومت قائم ہے مگر یہ حکومت نہیں، کوئی اور ہی چیز ہے۔ آج نہیں، مدتوں سے بلوچستان کی اشرافیہ باہم الجھتی آئی ہے۔ ان کی بیشتر توانائی ایک دوسرے کو نیچا دکھانے میں صرف ہوتی ہے۔ جوڑ توڑ میں، زیادہ سے زیادہ ترقیاتی رقوم حاصل کرنے اور اپنے من پسند ٹھیکیدار مقرر کرانے میں۔ لگ بھگ ایک عشرہ پہلے تک، علیحدگی پسند عناصر جب شدت سے کارفرما تھے، یہ ناچیز ہر دو تین ماہ بعد بلوچستان جایا کرتا۔ وہ زمانہ، جب بعض علاقوں میں پاکستانی پرچم لہرایا نہ جا سکتا تھا۔ ڈیرہ بگٹی اور گرد و نواح کے علاقوں میں دہشت گرد بھتہ وصول کیا کرتے۔ اس دور میں کبھی کسی ایک بھی سردار سے ملاقات نہ ہوئی جو وزارتِ اعلیٰ، وزارت یا کم از کم کسی اہم کمیٹی میں شمولیت کا امیدوار نہ ہو۔ پہلی ہی ملاقات میں ایک سردار کے فرزند نے کہا:فلاں فلاں وزیرِ اعلیٰ ہوسکتا ہے تو میں کیوں نہیں۔
اتنی سی بات جو لوگ سمجھ نہ سکتے ہوں کہ سیاست کی اپنی حرکیات ہوتی ہیں اوریہ کہ آخری تجزیے میں وہ ایک مقامی چیز ہوا کرتی ہے۔ بلوچستان مظلوم تھا اور بعض اعتبار سے اب بھی۔ مسائل اپنی جگہ، المناک بات یہ تھی کہ انہماک اور توجہ سے مسائل اور بحران کی نوعیت پر غور کرنے کی بجائے بلوچستان کے اکثر لیڈر صرف وفاق، پنجاب یا عسکری قیادت کو ذمہ دار ٹھہراتے۔ چند ایک ایسے بھی، جن کا اندازِ فکر یہ تھا کہ بارسوخ اور باوردی لوگوں سے تعلقات اگر خوشگوار ہوں تو صوبے کا نہ سہی، ان کا مسئلہ ضرور حل ہو جائے گا۔
یہی المناک پہلو ہے۔ سیاست ہی نہیں، آدمی کی ترجیح اس کی اپنی ذات ہوتی ہے یا اصلاح احوال۔ ابتلا کے ماروں، پچھڑے ہوئے لوگوں اور افتادگانِ خاک کے لیے دردمندی۔ جنگل اور ریگزار میں منزل پہ وہی پہنچتا ہے، راستہ جسے معلوم ہو یا رہنما میسر۔ افسوس کہ اکثر سیاسی جماعتیں ذہنی و فکری الجھن کا شکار ہیں اور اسٹیبلشمنٹ بھی۔ زیادہ سے زیادہ اپنی چھوٹی موٹی غلطیوں کا اعتراف کرتے ہوئے، اپنے تئیں بنیادی طور پر معصوم لوگ۔ جہاں تک کوئٹہ کا تعلق ہے، ایک طویل عرصے میں چند ہی ایسے لوگوں سے واسطہ پڑا، جن کی زیادہ توجہ اس پر تھی کہ دھاگہ اس قدر الجھ کیوں گیا اور سلجھایا کیسے جا سکتا ہے۔
ان میں سے ایک جنرل ناصر جنجوعہ تھے۔ غیر معمولی علم نہ خیرہ کن ذہانت، اگرچہ بہت محنتی لیکن سیدھے سادے آدمی۔ کمال ان کا وہی تھا، جو اپنی ذات سے اوپر اٹھ جانے والوں میں ہوتا ہے۔ 14اگست کی تقریب کے لیے وہ زیارت میں تھے اور ہم دو اخبار نویس بھی۔ اجتماع سے فراغت پا کرکوئٹہ کے قصد میں تھے کہ جھجکتے ہوئے ایک نوجوان آدمی آگے بڑھا "میرا ایک مسئلہ ہے سر" بے روزگار تھا اور ظاہر ہے کہ ایک بے روزگار کے لیے چمکتا ہوا دن بھی تاریک رات کی طرح ہوتا ہے۔ نوجوان کے کاندھے پر جنرل نے ہاتھ رکھا۔ اس کا نام پوچھا۔ یاد رکھنے کے لیے دو ایک بار دہرایا اور کہا: کوئٹہ آکر ملو۔ دروازے پر کوئی آپ کو روکے گا نہیں۔ یہ بھی نہیں تو خط لکھ ڈالنا۔ مایوس ہونے کی ضرورت نہیں، انسانوں کا پروردگار مہربان بہت ہے۔
مشرقی پاکستان کے حوالے سے جنرل اعظم خاں مرحوم کا ذکر بہت ہوتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ ان کی مقبولیت سے ایوب خاں حسد نہ کرنے لگتے تو 1971ء کے المیے کی بنیاد نہ پڑتی۔ بتایا جاتا ہے کہ ڈھاکہ سے کراچی روانہ ہو رہے تھے تو الوداع کہنے والے بنگالیوں کی آنکھوں میں آنسو تھے۔ جنرل ناصر جنجوعہ کا معاملہ ایک اعتبار سے مختلف تھا۔ اپنے پیچھے ایسا وارث وہ چھوڑ آئے، جس نے انہی کے نقوش قدم پر چلنے کی کوشش کی۔
پارٹی اختلافات، مہنگائی، بے روزگاری، بدحکومتی اور خطا کی بجائے خطا کاروں سے نفرت۔ گزارش ایک بار پھر وہی: کپتان خود فریبی کا شکار ہے، اردگرد ان لوگوں کا جھمگٹا، جو خرابی کو جو ہوا دیتے ہیں۔ اس میں ان کی بقا ہے، اسی میں ان کا مفاد۔ کیا وہ ان سے چھٹکارا پائے گا یا ان کی نذر ہو جائے گا۔ یہ فیصلہ اسے خود کرنا ہے۔