Tuesday, 19 November 2024
  1.  Home/
  2. 92 News/
  3. Khud Se Khuda Tak

Khud Se Khuda Tak

عارف نے کہا تھا: راہِ محبت میں پہلا قدم ہی شہادت کا قدم ہوتاہے۔ یہ بھی کہا تھا: عقل جہاں رکتی ہے، وہیں بت خانہ تعمیر ہوتا ہے۔

ناصر افتخار کی کتاب "خود سے خدا تک" میں پروفیسر احمد رفیق اختر اس طرح دکھائی دیتے ہیں، جیسے بلال الرشید کے کالموں میں۔ پتھر کو پارس چھو لے تو وہ سونا ہو جاتا ہے۔ رہی مٹی تو وہ دائم مٹی ہی رہتی ہے۔ یہ ناصر افتخار کی کتاب سے چند اقتباسات ہیں۔ مفہوم واضح کرنے کے لیے کہیں کہیں ایک آدھ لفظ بدل دیا ہے۔ پڑھتے رہیے اور حیران ہوتے رہئیے کہ اہلِ علم کی صحبت آدمی کو کیا سے کیا کر دیتی ہے۔

"دنیاوی محبت: انسان ساری زندگی ہر طرح سے کوشش کرتاہے۔ ہر طرح کی محبت کو اپنی طرف مائل کرتاہے لیکن ہر محبت کچھ مدت کے بعد اسے پہلے سے بھی زیادہ تنہا اور اداس کرتی چلی جاتی ہے۔ ایک پائیدار محبت کے حصول میں سرگرداں، ہر لحظہ ناکام ہوتا انسان ہر آنے والے دن میں پہلے سے بھی زیادہ پریشان ہوتا چلا جاتاہے۔

انسان خوب جانتا ہے کہ محبت اگر پائیدار ہے تو صرف اللہ سے لیکن چونکہ اللہ سے بھاگنا اس کے نفس کی سرشت ہے، اس لیے یہ اس پائیدار محبت کے حصول سے منہ پھیر کر دوسرے لوگوں سے امید وابستہ کرتا ہے۔ پے درپے ناکامیوں پر غور و فکر کرنے کی بجائے انسان ان ناکامیوں کا، ان غموں کا عادی ہو جاتاہے او رآخر کار خودترسی کا شکار۔

جہادِ اکبر: آسان ہوتا تو اسے جہادِ اکبر نہ کہا جاتا۔۔ نفس کی اذیت سے گزرنا چونکہ دکھائی نہیں دیتا، اس لیے اسے نارمل سمجھ لیا جاتا ہے، قبول کر لیا جاتا ہے۔ ڈپریشن کے ہر بڑھتے ہوئے حملے کے فورا بعد زندگی میں کچھ ضروری تبدیلیاں کر لی جاتی ہیں، ترامیم کر لی جاتی ہیں۔

اپنے اردگرد دیکھیں کہ لوگ کہاں سے چلے تھے، کیسے تھے۔ چمکتے چہروں والے توانائیوں سے بھرپور، ہنستے کھلکھلاتے ہوئے۔۔ آج کس حال میں ہیں؟ پھر اپنے آپ کو دیکھیے، کہاں سے چلے تھے اور کہاں پہنچ گئے۔ یہ Depressionہے، Anxietyہے، stressہے۔ یہ life forceکا زوال ہے۔ ہر زندگی کا سب سے بھیانک خسارہ ہے۔ اس خسارے سے بچنا ہی جہادِ اکبر ہے۔

اگرموت کے بعد سنائی دیتا: ڈپریشن اس بات کا اعلان ہوتاہے کہ انسان اپنے رب سے ہار گیا ہے اور اپنے رب سے ہار جانے میں مسئلہ کیا ہے؟ یہ تو خوشخبری ہے۔ بدبختی کی انتہا ہوتی، اگر موت کے بعد سنائی دیتا، مر کے اللہ سے ہار جانا؟ یا جیتے جی اللہ کے آگے سر تسلیمِ خم کرنا؟ ہم آج جو بھی ہیں، جس بھی حال میں ہیں، اس کا ذمہ دار اور کوئی نہیں بلکہ صرف اور صرف ہم خود ہیں۔ ہماری زندگی کی کہانی لکھنے والا اور کوئی نہیں۔ اس داستان کے مصنف ہم خود ہیں۔ جو اپنے گناہ، اپنی غلطیاں مان لیتا ہے، اس کا depressionختم ہو جاتا ہے۔۔ اللہ اداکاری سے نہیں، اخلاص سے مائل بہ کرم ہوتا ہے۔

منافقت:انسانیت کا کم سے کم تر درجہ یہ ہے کہ آدمی برا ہو تو سرِ عام ہو، ببانگِ دہل ہو۔ اتنی ہمت نہیں تو پھر خود کو ٹھیک کر لے۔ اطاعت گزار ہو جائے، سر جھکا دے اور سب کے سامنے سچا ہو جائے۔ اللہ کے سامنے بھی، اپنے اور دنیا کے سامنے بھی۔ پھر اس بات کی پرواہ چھوڑ دے کہ دنیا اسے کیا کہتی ہے لیکن ایک کام آدمی کو زیبا نہیں اور یہی و ہ کرتاہے۔ ایک چہرے پر اتنے چہرے سجا لینا۔ یہ بھی یاد نہ رہے کہ اصل چہرہ کون ساہے۔ یہ منافقت ہے اور منافقت حیوانوں سے بدترین کام ہے کہ کوئی حیوان بھی منافق نہیں۔

چاہے جانے کی تمنا: ہم سب چاہتے ہیں کہ چاہے جائیں۔ اسی لیے ہم کسی کو چاہتے ہیں۔ ہمیں لگتاہے کہ کوئی ہمیں چاہے گا تو ہم مکمل ہو جائیں گے۔ ہم خوب جانتے ہیں کہ ہم کچھ بھی نہیں۔ اس لیے ہم تمنا رکھتے ہیں کہ کوئی ہم سے محبت رکھے تاکہ ہم" کچھ "ہو جائیں۔

توبہ: زندگی یا تو اللہ کے ساتھ ہے، یا اللہ کے بغیر۔ یہ درمیان والی اذیت ختم کر دینا ہوتی ہے۔ ایک حتمی فیصلہ کرنا ہوتا ہے۔ یا تو ہم اللہ کے ساتھ ہیں، یا نہیں۔ انسان کو زندگی میں ایک اصل توبہ کی بنیاد رکھنا ہے۔ وہی توبہ اصل ہے، جو تمام بیتی زندگی پر کرلی جائے۔ یہ انسان کی زندگی کا سب سے بڑا فیصلہ ہے۔ اگر وہ جان چکا ہے کہ اب تک جو زندگی اس نے جی ہے، وہ اندھے کی زندگی ہے تو ایسی زندگی کو کیا کرنا ہے؟ ایک اصل توبہ۔۔ اور سب کچھ ٹھیک۔

لوح و قلم تیرے ہیں :دنیا کی ہر شے کی محبت عارضی ہے، محدود ہے۔ اس پر دیوانہ وار فدا ہوجانا زندگی کی سب سے بڑی غلطی ہے۔ رشتوں سے انس فطری ہے، لیکن دنیا سے کم از کم محبت ہی روا رکھنی چاہئیے۔ ہر شے سے انس محدود ہونا چاہئیے۔ عورت کا عشق، پیسے کی دیوانگی، جائیداد سے محبت، دنیا داری میں ہر وقت دیوانوں جیسی مصروفیت۔ پاگل پن پیداہوتا ہے، جب ہم اللہ کی دی ہوئی محبت کو اس کی عطا کر دہ لو َ کو حیاتِ دنیا پر نثار کرنے لگتے ہیں۔

یہ محبت، یہ عشق، یہ دیوانگی صرف اللہ کی ذات ِ عظیم کے لیے ہے۔ نفس کو علم دینا ہوتاہے کہ اس خزانے کو اللہ کی یاد، اس کی طلب اور محبت واطاعت ِ رسولؐ میں بادشاہ کی طرح لٹا کر، بادشاہوں کے بادشاہ کا گدا بن جائے۔ پھر آواز آئے گی " یہ جہاں چیز ہے کیا، لوح و قلم تیرے ہیں "

دعا: کبھی انسان شدتِ محبت سے دعا کرتاہے، اپنے رب کے حضور آہ و زاری کرتاہے تو احساس ہوتاہے کہ کوئی اس کے ساتھ ہے۔ یہ احساس شدید ہوتاہے۔ دعا مانگنے والے کو پتہ ہی نہیں چلتا کہ وہ اپنی دنیاسے کتنا دور چلا گیا ہے، یہی محبت ہے۔ دعا کے بعد ہمیں بہت دیر تک یہ احساس رہتاہے، اطمینان رہتا ہے کہ اب ہمارا رب سب کچھ ٹھیک کر دے گا۔ اللہ کی طرف سے یہ اس محبت کا فوری جواب ہے۔ یہ ڈائریکٹinternetہے، یہ hotlineہے۔

فرار: مقامِ شکر ہوتاہے اس کے لیے، جس کو Depressionیا Anxietyہو جائے۔ یہ ایک چانس ہے زندگی کو مکمل طور پر بدل ڈالنے کا۔ یہ غور وفکر پر مجبور کرنے کے لیے ہے۔ ضروری نہیں کہ بیماری ہر انسان کے لیے ایک مصیبت، ایک curse ہی بن کر آئے۔ بیماری کے بھیس میں رحمت بھی چھپی ہوتی ہے۔ ساری بات وصول کرنے کی ہے۔ جو جیسا چاہے، اسے ویسا ہی ملتاہے۔ کچھ لوگ بیماری میں مزید ڈھیٹ اور ہٹ دھرم ہو جاتے ہیں۔ کچھ اللہ کو پلٹتے ہیں۔ ساری بات نصیب کی ہے۔ اللہ سے دعا کرنی چاہئیے۔

رشتوں سے بے زاری کیوں :کچھ دنوں، کچھ مہینوں یا کچھ سالوں کے بعد رشتوں میں لطف ختم ہو جاتا ہے۔ چہروں سے نقاب اتر جاتاہے اور ہم اٹک جاتے ہیں۔ ہر انسان کے پاس محدود علم ہوتاہے۔ اس محدود علم سے دوسروں کو ہر بار متاثرکرنے میں وہ ناکام ہوتاہے تو انا کی جنگ شروع۔ دو ہم مزاج آدمی پہلی بار ملتے ہیں تو جوش دیکھنے والا ہوتاہے لیکن کچھ ہی مدت میں تمام نئی باتیں ایک دوسرے سے کہہ دی جاتی ہیں۔۔ پھر وہی باتیں لفظ بدل بدل کر دہرائی جانے لگتی ہیں۔۔ کچھ بھی باقی نہیں رہتا۔ بس اکتاہٹ، بیزاری، کبھی لڑ لیا، کبھی ہنس لیا۔۔ جو شخص کبھی بہت خاص ہوا کرتا تھا، اب عام ہو جاتا ہے۔ "

عارف نے کہا تھا: راہِ محبت میں پہلا قدم ہی شہادت کا قدم ہوتاہے۔ یہ بھی کہا تھا: عقل جہاں رکتی ہے، وہیں بت خانہ تعمیر ہوتا ہے۔

About Haroon Ur Rasheed

Haroon Ur Rasheed

Haroon Ur Rasheed is a well known analyst and columnist. Currently, he is working with 92 News. He has worked for Dunya News, 92 News and Geo.