ناکامی برباد نہیں کرتی، خود فریبی تباہ کرتی ہے۔ قربانی کے بکرے تلاش کرنے کا عمل، ہوش کے ناخن لیجیے، کس کی توہین کے ہم درپے ہیں؟ اپنے اور اپنی قوم کے؟
کرکٹ کے شائقین کو ذہنی اذیت پہنچانے کا ذمہ دار کون ہے؟ کھلاڑی، چیف سلیکٹر، کپتان کوچ، بورڈ کے چیئرمین جناب احسان مانی اور دوسرے افسر یا جیسا کہ اپوزیشن لیڈر کہتے ہیں، وزیر اعظم عمران خاں؟ اس کار خیر میں حسب توفیق سبھی نے حصہ ڈالا۔ اس ناچیز کی رائے میں سب سے زیادہ ذمہ دار ہمارے ٹی وی چینل ہیں۔
عامر خاکوانی کی طرح ماہرانہ رائے نہیں دے سکتا۔ مگر چند نکات تو بالکل واضح ہیں۔ ہر چیز میں، ہر حادثے اور واقعے میں ایک سبق ہوتا ہے۔ تھوڑی سی توجہ، ذرا سے انہماک کے ساتھ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے۔ یہی زندگی ہے، سیکھنے اور سیکھتے چلے جانے میں۔ سبھی انسان خطا کار ہیں۔ احمق وہ ہوتے ہیں، وقت گزرنے کے ساتھ جو پہلے سے کی گئی حماقتوں کو دہراتے چلے جاتے ہیں۔ پھر وہ جو سمجھ لیتے ہیں، ان کا اعادہ نہیں کرتے۔
ایک آدھ دن نہیں، مسلسل، ہفتے عشرے تک ہمارے ٹی وی چینل توقعات بڑھاتے رہے، میدان میں اترنے کے لئے، شاہین بے تاب ہیں دشمن کے جبڑوں سے فتح چھین لینے کے لئے۔ کون سے شاہین اور کون سی فتوحات؟ ہم جو ہارتے چلے آ رہے تھے ایک دو نہیں، درجن بھر میچ۔ یعنی طول امل یعنی امیدوں کی درازی ایک خطرناک رویّہ ہے، انجام اس کا ہمیشہ برا ہوتا ہے۔ حسرتوں کی آبیاری داناؤں کا کام نہیں، خواب دیکھنا اچھا ہے، مگر خوابوں کے مطالبات ہوتے ہیں۔ وگرنہ، صدمات۔
حسرتیں دل کی مجسم نہیں ہونے پاتیں
خواب بننے نہیں پاتا کہ بکھر جاتا ہے
کیا یہ ہوش مندی ہے کہ کامرانی کے آثار تک نہ ہوں اور حریف کے خاک چاٹنے کا منظر اجاگر کیا جائے۔ اجاگر ہی نہیں اس کے تصورکو پالا جائے اور اس سے لطف اٹھایا جائے۔
پہلے بھی بعض نے ان خامیوں کی نشان دہی کی تھی، جو ٹیم میں پائی جاتی ہیں۔ بعض حقیقت پسندوں نے کئی ماہ پہلے۔ بعض پہلو تو بالکل ہی آشکار تھے، عمران خان کی قائم کردہ کرکٹ کمیٹی، کرکٹ بورڈ کے اجلاسوں اور ٹی وی کے مسلسل جاری رہنے والے تبصروں میں نشاندہی کی جاتی رہی۔ مثلاً یہ نکتہ کہ ایک اچھا کھلاڑی ہونے کے، باوجود کپتان سرفراز تینوں طرح کے میچ نبھانے کی قائدانہ صلاحیت سے بہرہ ورنہیں۔ ٹونٹی ٹونٹی، ایک روزہ اور ٹیسٹ میچ۔ ان سب کی ذمہ داری انہیں کیوں سونپ دی گئی؟ ماہر بلے باز ہونا الگ بات ہے، کپتانی ایک دوسری چیز۔ ایسے مضبوط اعصاب کا آدمی وہ ہرگز نہیں کہ بیک وقت اس قدر گراں بار فرائض کا بوجھ اٹھا سکتا۔ دباؤ اور ہیجان کا وہ شکار ہو جاتا ہے۔ اپنے ساتھیوں کو وہ برا بھلا کہنے لگتا ہے۔
ڈانٹنا اور خوف پیدا کرنا، ایک ایسا حربہ ہے جو بہت سلیقے سے کبھی کبھی برتنا چاہیے۔ جو کھلاڑی اس آسانی سے ہیجان کا شکار ہو جاتا ہو، اس پہ کمر توڑ بوجھ کیوں ڈالا جائے؟ آخر کیوں؟ یہ اس کے حق میں ہے اور نہ ٹیم کیلئے موزوں۔ کرکٹر وہ اچھا ہو گا، مگر کپتان نہیں۔ ہر کام کے مخصوص آدمی ہوتے ہیں۔ سبھی اہل عزم نہیں ہوتے۔ اپنے ماتحتوں کو برا بھلا کہنے اور ان سے اپنے حصے کے فرائض کا مطالبہ کرنے والا لیڈر کیسے ہو سکتا ہے؟
سال بھر پہلے جب ایک میچ کے بعد ٹویٹ کیا کہ اس کی کپتانی کا عہد تمام ہوا تو مذاق اڑایا گیا۔ میری نہیں، یہ ماہرین کی رائے تھی۔ ہمیشہ کسی فن کے اساتذہ کی بات سننی چاہیے۔ بہترین لوگوں کی آرا پرغورو خوض ہی سے گرہ کشائی ممکن ہوتی ہے۔ کچھ میدان ہیں، جن میں ہم سرفرازاور بالا ہیں۔ کچھ میں پیچھے چلے جاتے ہیں۔ ایک اچھی منصوبہ بندی اور ریاضت سے، تدارک کیا جا سکتا ہے۔ ریاضت اور مشقت سے بتدریج اوپر اٹھا جا سکتا ہے۔ مگر دعوؤں اور نعروں سے نہیں، ترانوں اور گیتوں سے نہیں، محض اس تبلیغ سے نہیں کہ طاقت نفسیاتی ہوا کرتی ہے۔
نفسیاتی قوت کیا شور شرابے یا تلقین سے پیدا کی جا سکتی ہے؟ کیا کوئی ڈاکٹر ان کے انجکشن لگا سکتا ہے۔ ذہنی دباؤ سے نجات اور شخصیت میں ہم آہنگی کا عمل ایک نظام کار سے جنم لیتا اور پروان چڑھتا ہے، رفتہ، رفتہ، بتدریج۔ ایک ایک زینہ طے کر کے، جیسے آپ بلندی پہ جا پہنچتے ہیں۔ دشوار گزار چوٹیاں سر کرنے والے کوہ پیما کہا کرتے ہیں:بس اگلا قدم۔ سلیقے اور احتیاط سے، ایک ایک قدم طے کرتے ہوئے آپ منزل کو جالیتے ہیں۔
عالمی کپ میں حادثہ وہی ہوا، جو عمران خان کی حکومت میں۔ حالات کا سطحی سا ادراک بھی نہ تھا۔ تیاری اس قدر بھی نہ تھی کہ حالات کو جوں کا توں رکھا جا سکتا۔ دعوے ایسے ایسے کہ گویا چند سال میں پاکستان عالمی طاقتوں کی صف میں شامل ہو جائے گا۔ ٹیکس وصولی دوگنا ہو جائے گی۔ نوکریاں ڈھونڈنے دنیا بھر سے خلق پاکستان آیا کرے گی۔ 50لاکھ مکان، ایک کروڑ نوکریاں، کہاں ہیں وہ نوکریاں، وہ مکان کہاں ہیں؟
اسی برس موسم بہار کا آغاز تھا۔ ادھر بھارت سے 77لڑاکا طیارے اڑے، ادھر پاکستان سے 55۔ بھارتیوں نے خاک چاٹی۔ دوجہاز ان کے گرائے گئے۔ ایک سرحد پار گرا، دوسرا اِس طرف۔ ان کا ایک پائلٹ گرفتار ہوا۔ ساری دنیا نے اس ملک کا تماشا دیکھا، جو عالمی طاقت بننے کی طرف گامزن ہے۔ یہ ان پائلٹوں کے ہنر اور جذبے کا کمال تھا، اپنی شاندار روایات جنہوں نے عرق ریزی، دماغ سوزی اور والہانہ ریاضت سے برقرار رکھی ہیں۔ کبھی اس کھیل کے میدان میں بھی ہم ایسے ہی تھے مگر حفیظ کاردار اور عمران خان کے عہد کی روایات برقرار نہ رکھ سکے
باپ کا علم نہ بیٹے کو اگر ازبر ہو
پھر پسر قابل میراث پدر کیوں کر ہو؟
تین عشرے ہوتے ہیں۔ انڈین ایکسپریس نے لکھا تھا:پاکستانی ٹیم ہمیشہ بھارت کو ہرا دیتی ہے اورجنرل محمد ضیاء الحق ہمیشہ بھارتی قیادت کو چکمہ دینے میں کامیاب رہتے ہیں۔ فوجی حکمران کی ستائش مقصودنہیں مگر اس کا ایک ہدف تھا اور اسی ہدف کے لئے مسلسل جاری رہنے والی مشق۔ کرکٹ کے کھیل کو وہ ہرگز نہ سمجھتا تھا، مگر عمران خان نے سبکدوش ہونے کا ارادہ کیا تو اس نے کھلاڑی کی منت سماجت کی چلئے درخواست کہہ لیجے۔ مدعو کیا اور التجا کی۔ غیر ملکی مہمانوں کی مدارات کے لئے سامان سجانے کا مرحلہ تھا۔ جنرل ضیاء الحق معائنہ کرنے باہر گئے۔ بورڈ کے سربراہ جنرل زاہد علی اکبر نے کان میں مشورہ دیا:کچھ تامل کریں، بات کریں گے کچھ شرائط منوالیں گے۔ ویسٹ انڈیز سے مقابلہ درپیش تھا جسے کالی آندھی کہا جاتا۔ جنرل لوٹا تو عمران خان نے اثبات میں سر ہلا دیا۔
اب وہی عمران خان ہے، مگر قوت فیصلہ سے محروم، الجھا ہوا ذہن۔ اگر احسان مانی کو کرکٹ بورڈ کا چیئرمین بنایا ہے تو اسے اختیار بھی دیجیے۔ براہ راست احکامات صادر کرنے اور ٹویٹ پر مشورے دینے کی بجائے اس سے بات کیجیے۔ آپ کرکٹ بورڈ کے نہیں، اب ملک کے کپتان ہیں۔ سال بھر سے کھیل زوال کا شکار تھا۔ آپ سوئے رہے۔ آخری دن جاگے اور حکم صادرکیا کہ پہلے بلے بازی کرنی چاہیے، ریلو کٹوں کو کھلایا نہ جائے، ریلو کٹے، ٹیم میں شامل ہی کیسے ہوئے، کس نے کئے؟
سب جانتے ہیں کہ انضمام الحق سفارش قبول کرنے والا آدمی ہے۔ اسے یہ ذمہ داری کیوں سونپی؟ محسن حسن خان ایسے کھلاڑی کو کیوں نہیں، اپنی خامیوں کے باوصف جو سیدھا، سادہ، صاف گو آدمی ہے۔ شاندار ریکارڈ رکھتا ہے۔ سب سے زیادہ یہ کہ درد دل رکھتا ہے، درد دل۔ احساس بڑی دولت ہے، انصاف کے ساتھ فیصلے صادر کرنے میں سعادت پوشیدہ ہوتی ہے۔
غیر ملکی کوچ کیوں؟ پاکستانی کیوں نہیں۔ وہ پوری طرح گھل مل نہیں سکتے۔ ان میں وہ اپنائیت نہیں ہو سکتی۔ وہ ماہر خواہ کیسے ہی ہوں، ان میں وہ جذبہ وہ امنگ کہاں سے آئے گی۔
ہار گئے، چلئے ہار گئے۔ رونے پیٹنے سے وہ دن واپس نہیں آ سکتا۔ وہ شکست فتح میں بدل نہیں سکتی۔ تنقید برحق مگر طعنہ زنی اور دشنام کا کیا جواز۔ میڈیا کل انہیں ناقابل تسخیر شہسوار کہتا رہا، آج تذلیل کے درپے ہے۔ حتیٰ کہ کہانیاں گھڑتا ہے، افسوسناک، افسوسناک!
ناکامی برباد نہیں کرتی، خود فریبی تباہ کرتی ہے۔ قربانی کے بکرے تلاش کرنے کا عمل، ہوش کے ناخن لیجیے، کس کی توہین کے ہم درپے ہیں؟ اپنے اور اپنی قوم کے؟