آخری عظیم صوفی خواجہ مہر علی شاہؒ نے کہا تھا:
یہ تجلی، برقِ عارضی ہے
کوئی تھامے رکھے تو تجلیٔ برقِیٔ دائمی بھی نصیب ہو سکتی ہے۔ کون تھام سکتا ہے؟ کوئی کوئی، خال خال۔
ڈاکٹر طاہر مسعود صاحب! کالم بھی تو ایک طرح کا شعر ہے۔ اگر کوئی تازہ خیال نہ پھوٹے تو آدمی کیا کیجے؟ اردو کے ایک ممتاز شاعر تلاشِ روزگار میں دکن پہنچے کہ حاجت مند اہلِ ہنر کا ٹھکانہ تھا۔ جوشؔ ملیح آبادی ایسوں کاتو ذکرہی کیا، اقبالؔ ایسے عبقری کو بھی سایہ نصیب ہوا تھا۔ یہ الگ بات کہ آخر غنا غالب آیا، اکتا گئے یہ کہہ دیا کہ خدائی کی زکوٰۃ انہیں قبول نہیں۔
اس شاعر سے کہا گیا کہ ہر روز دو تازہ لطیفے سنایا کرے۔ آخر کو وہ بھاگ نکلے۔ کالم نگار بھاگ کر کہاں جائے۔ لاہور سٹیج کے ایک نامور اداکار کا انتقال اس عالم میں ہوا کہ جملہ سوجھتا نہ تھا۔ جیتے جی مر گئے۔
مولانا عبد القادر گرامی کے نام ایک خط میں اقبالؔ نے لکھا: طبیعت میں قبض کی سی کیفیت ہے۔ سیدہ عائشہ صدیقہؓ یا سیدہ فاطمہ الزہرہ ؓ کی کوئی حکایت لکھ کر بھیجئے، شاید کہ دروازہ کھلے۔ شبوں میں ایک شب مجید امجد پر کھلا تو لکھا!
چاندنی نیم وا دریچہ، سکوت
آنکھوں آنکھوں میں رات گزری
خیال کہاں سے آتا اور کس طرح برگ و بار لاتا ہے، کوئی نہیں جانتا۔ کبھی تو چمن ایسا کھلتا ہے کہ تنگ دامنی کا ہیجان اور کبھی یہ عالم کہ ایرانی شاعر کے بقول:
دور ایک صحرا ہے
جس میں موت کے سوا، کوئی چیز حرکت نہیں کرتی
یہ صحرا بہت دور نہیں تھا۔ شاعر کے آس پاس پھیلا تھا۔ تہران اور اس کے چاروں طرف۔ شہنشاہِ ایران کے عہد میں ان شاعروں نے جنم لیا، تاریخ جن کی نظیر پیش نہیں کرتی ؛اگرچہ تیور ان کے یکسر بدل گئے۔ ایرانی انقلاب کا مشاہدہ کرنے والے نے لکھا: اتنی برف گری ہے کہ وہ راستہ ہی بند ہو گیا، فارسی شاعری جس پر صدیوں سے سفر کرتی آئی تھی۔ اسی دور کی ایک ایرانی شاعرہ نے لکھا
میرے محبوب میرے پاس آئو تو ایک دریچہ اپنے ساتھ لانا
ایک چراغ اور دریچہ
جس میں سے کوچۂ خوش بخت کے ہجوم کو دیکھ سکوں۔
ایک دن وہ ہجوم ایران کی سڑکوں پر تھا۔ تین کروڑ میں سے کم از کم تیس لاکھ آدمی۔ شہنشاہ فرار ہو گیا۔ ایک بالا قد خوش بخت تہران کے ہوائی اڈے پر اترا۔ اور تاریخ کے نئے دور کا آغاز ہوا۔ یہ الگ بات کہ پھر سے ایرانی شاعروں کو دریچے کی آرزو ہے۔ کوئی ویرانی سی ویرانی ہے اور شاعر اسی عالم میں ہے! ؎
خدا وندا تیرے یہ سادہ دل بندے کدھر جائیں
کہ درویشی بھی عیاری ہے سلطانی بھی عیاری
رضا شاہ کے دور میں بھی احساسات کے روایتی گلستاں کھلتے رہے۔ اسی زمانے کے ایک ایرانی شاعر نے لکھا ؎
پیکر تراش پیرم وباتیشۂ خیال
یک شب ترا ز مرمر شعرآفریدہ ام
میں ایک بوڑھا بت تراش ہوں، خیال، کے تیشے سے، ایک شب جس نے تیرا پیکر شعر کے سنگ مرمر سے تراشا۔ کبھی یہ شعر نوابزادہ نصراللہ کو سنایا، اور بات اصول کی تھی۔ اب کس کو سنائیں؟ نواب صاحب فارسی کا شعر سناتے اور پھر حسرت سے کہتے شعر کی داد دینے والا تو کوئی نہ رہا بے چاری فارسی!یاد ہے کہ سیاستدانوں سے فراغت پا کر اس حقیر کو درجن بھر شعر سنائے اور یہ کہا، افسوس کوئی سننے والا بھی نہ رہا۔ پھر اچانک بولے، خان گڑھ میرے پاس آنا، ساٹھ برس کی ڈائریاں تمہیں دے دوں گا۔ گاہے جن حسرتوں پہ دل سے دھواں اٹھتا ہے ان میں سے ایک یہ ہے کہ رمضان المبارک میں لاہورسے خان گڑھ کی سفر کی ہمت نہ پا سکا۔ دنوں پر دن گزرتے گئے، ہمت نہ پا سکا۔
میں پا شکستہ جا نہ سکا قافلے تلک
آتی اگرچہ دیر صدائے جرس رہی
روایت کبھی نہیں مرتی۔ طوائف الملوکی، جنگ اور قحط سالی میں بھی سسکتی رہتی ہے۔۔ اور پھر سے جی اٹھتی ہے۔ خیال کی دنیا میں خزاں کے موسم غلبہ کرتے ہیں تو انہی میں سے پھر بہار بھی پھوٹتی ہے۔ خدائے سخن، میرتقی میرؔ کے لئے عمر بھر موسم خزاں کا رہا۔ باایں ہمہ جب بہار ان کے دروازے پر دستک دیتی، جیسے میدان جنگ کسی بوڑھے جنگجو کو پکارے، تو ایسی بے پناہ کہ شاعر ششدر رہ جاتا۔
چلتے ہو تو چمن کوچلیے کہتے ہیں کہ بہاراں ہیں
پات ہرے ہیں، پھول کھلے ہیں کم کم بادوباراں ہے
پھر کوئی دن تھا کہ رنگ و نور کا طوفان امڈ کر آیا۔ ایسا کہ میرؔ صاحب نہال ہو گئے۔
گلشن میں آگ لگ رہی تھی رنگِ گل سے میرؔ
بلبل پکاری دیکھ کے صاحب پرے پرے
سلمان تاثیر ایک کاروباری آدمی تھے۔ ان کے والد ایم ڈی تاثیر ایک قادر الکلام شاعر اور اقبالؔ کے حاضر باش۔ ایک دن شعر و حکمت کے اس مجدد کی خدمت میں حاضر تھے۔ عرض کیا: کچھ عطا فرمائیے گا؟ ارشاد کیا:"جاوید نامہ" لکھتے میں نچڑ گیا، تمہی کہو۔ تاثیر نے اپنا ایک تازہ شعر سنایا۔
زلف آوارہ گریباں چاک اے مست شباب
تیری صورت سے تجھے درد آشنا سمجھا تھا میں
اچانک وہ کیفیت طاری ہوگئی، جو ہجوم اور مجلس میں خال خال ہوتی ہے مگر، ہوتی ہے۔ پھڑکتا ہوا ایک شعر
اپنی جولاں گاہ زیرِ آسماں سمجھا تھا میں
آب و گل کے کھیل کو اپنا جہاں سمجھا تھا میں
پھر ایک کے بعد دوسرا
بے حجابی سے تری ٹوٹا نگاہوں کا طلسم
اک ردائے نیلگوں کو آسماں سمجھا تھا میں
کاررواں تھک کر فضا کے پیچ و خم میں رہ گیا
مہر و ماہ و مشتری کو ہم عناں سمجھا تھا میں
عشق کی اک جست نے کر دیا قصہ تمام
اس زمین و آسماں کو بے کراں سمجھا تھا میں
کہہ گئیں رازِ محبت پردہ داری ہائے شوق
تھی فغاں وہ بھی جسے ضبط فغاں سمجھا تھا میں
تھی کسی درماندہ رہرو کی صدائے دردناک
جس کو آوازرحیل کاررواں سمجھا تھا میں
قلم سنبھالے تاثیر لکھ رہے تھے۔ اس روانی سے اقبالؔ کہتے رہے، جیسے کوئی رقعہ لکھتا ہو۔ برسبیلِ تذکرہ صدر غلام اسحق خان کو اس حال میں دیکھا گیا کہ دو تین سٹینو گرافر ان کے دائیں بائیں براجمان ہیں۔ باری باری وہ ان میں سے ہر ایک کو لکھوا رہے ہیں۔
خیر، اتنے میں ایک ملاقاتی نمودار ہوا۔ علامہ اس کی بات سنتے رہے۔ چلا گیا تو تاثیرؔ نے توجہ چاہی۔ فرمایا: خیال کا رہوا رخصت ہوا۔ ایک لہرہوتی ہے، جو نمودار ہوتی اور چلی جاتی ہے۔ ان کی وفات کے بعد اقبالؔ کے خادم علی بخش نے بتایا: کبھی ایسا ہوتا کہ شب تالی بجانے کی آواز سے میری آنکھ کھلتی کاغذ قلم طلب کرتے، کچھ دیر لکھتے رہتے۔ پھر گہری نیند سو جاتے۔ ممکن ہے کوئی اور لوگ بھی گزرے ہوں لیکن جہاں تک طالب علم جانتا ہے، شاید وہ واحد شاعر ہیں جن پر نیند میں بھی نزول ہوتا تھا۔ رزق کی طرح خیال بھی عطا ہے۔ لیکن یہ تو طے شدہ ہے کہ اترتا ان ہی پر ہے جو مبتلا رہتے ہیں۔ میرؔ صاحب نے کہا تھا:
مصرع کبھو کبھو کوئی موزوں کروں ہوں میں
کس خوش سلیقگی سے جگر خوں کروں ہوں میں
جیسا کہ غالبؔ نے کہا تھا خیال آسمان سے اترتا ہے۔ لیکن جگر خود لہو کرنا پڑتا ہے۔ وسوسے قطار اندر قطار آتے ہیں، خیال خیر برف کی طرح چمکتا ہے لیکن اسے تھامنا پڑتا ہے۔ آخری عظیم صوفی خواجہ مہر علی شاہؒ نے کہا تھا:
یہ تجلیٔ برقِ عارضی ہے،
کوئی تھامے رکھے تو تجلیٔ برقِیٔ دائمی بھی نصیب ہو سکتی ہے۔ کون تھام سکتا ہے؟
کوئی کوئی، خال خال۔