Monday, 18 November 2024
  1.  Home/
  2. 92 News/
  3. Kuch Din Ke Liye

Kuch Din Ke Liye

چیخنے چلانے اور خوئے انتقام کی آبیاری کرنے کی بجائے، کچھ دن ہم تامل نہیں کر سکتے؟ سوچ بچار کے لیے کچھ وقت نہیں نکال سکتے؟ اپنے گریباں میں منہ نہیں ڈال سکتے؟

امتحان ہمیشہ آتے ہیں اور بہت کڑے امتحان۔ حواس گم کر دینے والی آزمائشیں بھی۔ انسان کو پیدا ہی اس لیے کیا گیا کہ آزمایا جائے۔ مشکل اور مصیبت کوئی بری چیز ہوتی تو اپنے بہترین بندوں کو پروردگار اس میں کبھی مبتلا نہ کرتا۔

طائف کی گلیوں میں آوارہ چھوکروں نے اس عظیم ہستیؐ پر پتھر برسائے تھے، جس پر اللہ اور اس کے فرشتے درود بھیجتے ہیں۔ بنو ہاشم کے ساتھ سوا دو برس آپؐ نے شعبِ ابی طالب میں گزارے تھے۔ پیغمبر آخر الزماں ؐ سب انبیا ؑ سے اس لیے بھی ممتاز ہیں کہ کبھی کسی حال میں آپ ؐ گلہ مند نہ ہوئے ؛با ایں ہمہ شعب ابی طالب میں بھوک سے سسکتی ننھی جانوں، عورتوں اور بڑے بوڑھوں کی اذیت پر ایک بار شکوہ آپؐ کی زبان پر بھی آیا۔

اپنے مالک و آقا سے کہا: محمدؐ اور آلِ محمدؐ ایک ایک لقمے کو ترس گئے اور منکرین کے گھر مال و دولتِ دنیا سے بھرے ہیں۔ اس پر قرآنِ کریم کی آیات نازل ہوئیں، جن کا مفہوم یہ ہے: ہم تو ان کے گھر سونے اور چاندی کے بنا دیتے کہ آخرت میں ان کا کوئی حصہ نہیں۔ آپؐ کے رفیق جب پکارے کہ اللہ کی مدد کب آئے گی تو انہیں یاد دلایا گیا کہ کیسی کیسی آزمائشیں پچھلی امتوں کے پاک بازوں پہ اتریں۔ حوصلہ بھی بڑھایا جاتا رہا، خوشخبریاں بھی اترتی رہیں:تمہی غالب رہو کے، اگر تم مومن ہو، اور، ؎

قسم ہے طلوع ِ سحر کی اور رات کی، جب وہ چھا جائے۔ تیرے رب نے تجھے چھوڑ نہیں دیااور نہ تجھ سے ناراض ہوا۔ اور آنے والاتیرے لیے بیتے دنوں سے بہت بہتر ہوگا۔

عنقریب تیرا رب تجھے وہ کچھ عطا کرے گا کہ تو راضی ہو جائے گا۔ اسی دور میں اترنے والی ایک آیت کا جمال تیرہ سو برس کے بعد، اقبالؔ کے ایک شعر میں جگمگایا

چشمِ اقوام یہ نظارہ ابد تک دیکھے

رفعتِ شان ِ رفعنا لک ذکرک دیکھے

پاکستانی قوم پر یہ ابتلا کے دن ہیں۔ ایک کے بعد دوسری آزمائش، ایک کے بعد دوسرا امتحان۔ آج ایک اور کڑا دن ہے۔ بھارت میں ہندو قوم پرستی کے علمبردار، اس سفاک آدمی نریندر مودی کی فتح کا دن۔ گھبرانے والے آج کچھ اور گھبرائیں گے۔ خوف زدہ ہونے والے کچھ اور خوف زدہ ہوں گے۔ سیدنا علی کرم اللہ وجہہ کا وہی قول یاد آتا ہے: مصیبت میں گھبراہٹ ایک دوسری مصیبت ہے۔ ظاہر ہے کہ جسے مبتلا کرنا ہو، اسے مبتلا کیا جائے گا اور جسے آزمانا ہے، اسے آزمایا جائے گا۔ یہ اس کا ہمیشہ باقی رہنے والا قانون ہے، جس کا طریق کبھی بدلتا نہیں۔

آدمی کو آزمایا کیوں جاتاہے اسے سکھانے، سبق دینے، اپنی غلطیوں پہ سوچ بچار کا موقع فراہم کرنے کے لیے۔ اس کی صلاحیت اور استعداد میں اضافہ کرنے کے لیے۔ جو سیکھ سکتے ہیں، وہ سیکھ لیتے ہیں۔ اپنی خامیوں پر غور کرنے کی جنہیں توفیق ہو، وہ اس پر غور کرتے اور بالیدگی کو پا لیتے ہیں۔ ایسے بھی ہوتے ہیں، جو ڈھے پڑتے ہیں، پامال اور رسوا ہوتے ہیں۔ انجام کا انحصار طرزِ احساس اور طرزِ عمل پہ ہوتاہے۔

مکّہ میں ایمان لانے والے غلاموں کو ایذا پہ ایذا دی جا رہی تھی۔ سرکارؐ قریب سے گزرے تو ارشاد کیا: اے آلِ یاسر صبر کرو۔ بلالؓ پر کوڑے برسائے گئے۔ جہلا کا ہاتھ روکنے والا کوئی نہ تھا، مگر آخر کار کیا ہوا؟

بھارت اور امریکہ اب ایک ہیں۔ آخری تجزیے میں ایران پر حملے کا امکان کم ہے، پاکستان پہ دبائو ڈالنے کا زیادہ۔ کشمیریوں پہ آفت اور زیادہ ٹوٹے گی۔ معاشی ناکہ بندی کرکے پاکستان کو اور بھی زیادہ لاچار کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ کم از کم عسکر ی قیادت یہ بات خوب سمجھتی ہے۔ اللہ کا شکر ہے کہ کم از کم اس کا حوصلہ برقرار ہے۔ پندرہ سو کلومیٹر تک مار کرنے والے ایٹمی میزائل کا جمعرات کو تجربہ کیا گیا۔ بھارتی قیادت اور انکل سام کے نام یہ ایک واضح پیغام ہے۔

کچھ اور اچھی نشانیاں بھی ہیں۔ دوسرے دن بھی سٹاک مارکیٹ میں تیزی رہی۔ ڈالر کی قدر برقرار ہے۔ اگر برقرار رہ سکے یا معمولی اضافہ ہو تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ معیشت سنبھلنے کے امکانات پیدا ہو گئے۔ ابتلا اور امتحان میں کوئی قوم عزم و ہمت اور ایثار کا مظاہرہ کرے تو آخر کار ساحل پہ جا اترتی ہے۔ ظفر مندی کے در اس پہ کھلتے اور کھلتے چلے جاتے ہیں۔ دوسری صورت یہ ہے کہ وہ ہمت ہار دے یا بے بسی اور مایوسی میں باہم الجھتی رہے۔

پاکستان اور بھارت میں یہ پہلی کشیدگی نہیں۔ دلّی کے عزائم ہمیشہ سے یہی ہیں کہ پاکستان کا خاتمہ ممکن نہ ہو تو اسے سکّم اور بھوٹان بنا دیا جائے۔ 1987ء میں راجیو گاندھی نے پاکستانی سرحدوں پہ فوج لا ڈالی۔ کرکٹ میچ دیکھنے کے بہانے جنرل محمد ضیاء الحق جے پور گئے اور اس سے یہ کہا: گولہ بارود آپ نے فوج کو جاری کر دیا ہے۔ میں ایک سپاہی ہوں۔ جانتا ہوں کہ یہ اس وقت ہو تاہے، جب جنگ شروع کرنے کا تہیہ کر لیا جائے۔ حملہ ہواتو اپنا آخری ہتھیار ہم استعمال کریں گے۔ تاریخ میں کلکتہ، بمبئی اور جے پور ایسے شہروں کے صرف نام رہ جائیں گے۔

پہلی بار یہ خبر ناچیز ہی نے دی تھی۔ میرے خالہ زاد بھائی میاں محمد یٰسین کو واقعہ جنرل نے خود بتایا تھااور تفصیل کے ساتھ۔ بعد ازاں جس کی تصدیق ہوتی گئی۔ جنرل نے کہا: راجیو کے چہرے کا رنگ زرد تھا اور اس کی ٹانگیں کانپ رہی تھیں۔ 39برس ہوتے ہیں، اس موقعہ پر موجود، جنرل ضیاء الحق کے محافظوں میں سے ایک نے مجھے بتایا: جنرل صاحب اعتماد سے سرشار تھے۔ جب راجیو سے بات کرنے کے لیے وہ آگے بڑھے توانہیں کھانا کھانے کو کہا، جو پیش کیا جا رہا تھا۔

اس نے کہا: ہم جھجک کا شکار تھے۔ اس لیے کہ یہ قواعد کے خلاف تھا۔ صدر کو تنہا چھوڑ کر، اس کے محافظ پیٹ پوجا میں لگ جائیں لیکن جنرل نے پلٹ کر ہمیں ڈانٹا اور کہا: کھانا کھائو، کھانا۔ باقی تاریخ ہے۔ مگر فیصلہ کن آزمائش میں سرخروئی کا انحصار فقط حکمران پر نہیں ہوتا۔ قوم کی بھی ذمہ داری ہے، اپوزیشن کی بھی۔ مخمصے کا شکار، تاریخ کے چوراہے پر ہم سوئے پڑے ہیں۔ تعیش کی وہی زندگی، بڑی بڑی گاڑیوں اور مکانوں کی وہی آرزو۔ شادی بیاہ کی تقاریب، گھروں کی آرائش اور لباس میں، بہترین ریستورانوں میں وہی اسراف اور نمودو نمائش۔

غیر ملکی پنیر کے بغیر کیا ہم جی نہیں سکتے؟ کچھ عرصے کے لیے کیا قیمتی گاڑیوں کی خریدار ی بند نہیں کر سکتے؟ چاکلیٹ ایسی چیزوں سمیت تین چار ارب ڈالر کی کھانے پینے کی اشیا ہم در آمد کرتے ہیں۔ کچھ دن کے لیے ہم صبر نہیں کر سکتے؟ اپوزیشن اور حکومت کچھ دن کے لیے الزام تراشی اور گالی گلوچ کا سلسلہ روک نہیں سکتے؟ کچھ دن کے لیے اپوزیشن حکومت گرانے کا ارادہ ملتوی نہیں کر سکتی؟ کچھ دن کے لیے عمران خان اور ان کے فدائین آگ اگلنا بند نہیں کر سکتے؟ خوئے انتقام سے اوپر نہیں اٹھ سکتے؟

چیخنے چلانے اور خوئے انتقام کی آبیاری کرنے کی بجائے، کچھ دن ہم تامل نہیں کر سکتے؟ سوچ بچار کے لیے کچھ وقت نہیں نکال سکتے؟ اپنے گریباں میں منہ نہیں ڈال سکتے؟

About Haroon Ur Rasheed

Haroon Ur Rasheed

Haroon Ur Rasheed is a well known analyst and columnist. Currently, he is working with 92 News. He has worked for Dunya News, 92 News and Geo.