مگر افسوس کہ کم ہی لوگ سوچتے، کم ہی غور کرتے اور اس سے بھی کم اپنی اصلاح پہ آمادہ ہوتے ہیں۔ زیاں بہت ہے، خداکی کائنات میں زیاں بہت۔
میڈیا کے باب میں اتنی بڑی غلطی حکومت کر چکی کہ تلافی اب سہل نہیں، الّا یہ کہ حماقت اور اس کے محرکات کا پوری طرح ادراک کر لیا جائے۔ یہ سمجھ لیا جائے کہ ایسا کیوں ہوا۔ تہیہ کر لیا جائے کہ طاقت نہیں، دلیل سے کام لیا جائے گا۔ کیا یہ ممکن ہے؟ کیا ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان، نعیم الحق، افتخار درّانی اور یوسف بیگ مرزا ایسا کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں؟
فواد چوہدری اور طاہر خان نیازی چلے گئے۔ ان کا تقرر ہی قابلِ فہم نہ تھا۔ نیازی صاحب ایک بڑی اشتہاری کمپنی اور ایک عدد ٹی وی چینل کے کرتا دھرتا ہیں۔ ایسے بنیادی مالی مفادات کے ساتھ وہ انصاف پسندی اور غیر جانبداری کا اہتمام کیسے کر سکتے؟ چئیرمین نیب کے خلاف کردار کشی کی مہم میں قائدانہ کردار ادا کرنے کے بعد سبکدوش کر دیے گئے۔ سبکدوش کیا، برطرف۔ ظاہر ہے کہ اتنی بڑی، اتنی خوفناک خبر موصوف کی اجازت کے بغیر نشر نہ ہو سکتی تھی۔ ظاہر ہے کہ اس کے پیچھے مفادات تھے اور بڑے مفادات۔
دو دن پہلے اس ناچیز نے عرض کر دیا تھا کہ کردار کشی کی ایک بڑی مہم جسٹس جاوید اقبال کے خلاف برپا ہونے والی ہے۔ سامنے کی بات یہ ہے کہ پہلے سے موجود بحران میں ایک اور بحران پیدا کرنے میں جو آدمی شریک ہو، دانائی کی اس سے کتنی امید کی جا سکتی ہے۔ فواد چوہدری وفاداری کی اہمیت سے آشنا نہیں ؛اگرچہ حسین حقانی سے مختلف ہیں، جو اعجاز الحق کے لیے ایک سیاسی پارٹی تشکیل دینا چاہتے تھے۔ نواز شریف کے آلہء کار رہے اور محترمہ بے نظیر بھٹو کے بھی۔ درمیانی عرصے میں بلخ شیر مزاری کی نگران حکومت میں خدمات انجام دیں۔
جنرل مشرف سے نوکری مانگتے رہے۔ مایوس ہو کر امریکہ گئے اوردوسرے مشاغل کے علاوہ زرداری کے کارندے بنے، غالباً غیر ملکیوں کے ایما پر۔ آخر کو سی آئی اے راس آئی۔ موصوف کی ترجیحِ اوّل اب یہ ہے کہ اپنے وطن کو نقصان پہنچائیں اور ممکن ہو تو ڈوبتا دیکھیں۔ ایک مسخ شدہ ذہنیت جو غدّاری اور خود فروشی میں یافت اور نمود کے امکانات دیکھتی ہے۔ سراسر ایک منفی ذہنیت، جس کا انجام بھیانک ہوتا ہے۔
سلطان ٹیپو شہید ہوئے توتدفین کی ذمہ داری غداروں میں سے ایک غلام علی لنگڑا اور ایک انگریز میجر کو سونپی گئی۔ پرے کچھ فاصلے پر انگریز فوجی جشن منا رہے تھے۔ شام سے پہلے شام ہو گئی تھی۔ کالے سیاہ بادل اور بجلی کی کڑک۔ بر صغیر اور مسلمانوں کی قسمت پہ شاید آسمان بھی گریاں تھا۔ بجلی چمکی اور اس کی روشنی میں غلام علی کا چہرہ نظر آیا تو آنسوؤں سے تر تھا۔ What happened Mir sahib? انگریزمیجر نے پوچھا۔ کیا ہو امیر صاحب؟ "ایں صاحب شما نہ کشتہ ایم۔ ما کشتہ ایم" ان صاحب کو تم نے نہیں مارا، ہم نے مار ڈالا ہے۔
جشن میں شامل ہونے کے لیے میجر بے تاب تھا۔ اس نے کہا: Dont wory Mir sahib۔ You'll be paid wellفکر نہ کیجیے میر صاحب، پوری ادائیگی آپ کو کی جائے گی۔ کیسی اور کتنی ادائیگی، تاریخ پڑھنے والوں کو اس سے کیا دلچسپی۔ یہ سب جانتے ہیں کہ جلد ہی کینسر میں وہ مبتلا ہوا اور تڑپ تڑپ کے مر گیا۔ زیادہ نمایاں میر صادق کا انجام اس سے بھی بدتر ہوا۔ سلطان کے وفاداروں نے، جن میں سے بعض، اس کے بعد بھی جنگلوں سے نمودار ہوتے اور چھاپہ مار حملے کرتے رہے، گھیر کر قتل کر ڈالا۔ غدّار کی لاش کوڑے کے ایک ڈھیر پہ پائی گئی۔
کوڑے کا کوئی ڈھیر، اس طرح کے لوگوں کا انجام یہی ہوتاہے۔ عقلِ عام فواد چوہدری کی اچھی ہے، بچ نکلتے ہیں۔ ایک بات مگر بالکل نہیں سمجھتے۔ پیہم اور مسلسل انسانوں کی توہین کا ارتکاب کتنا خطرناک ہوتاہے۔ یہ بھی کہ خوف ایک ایسا ہتھیار ہے، جو بہت احتیاط سے اور کبھی کبھار استعمال کرنا چاہئیے۔ نعیم الحق کو عمران خاں سمجھ نہیں سکے۔ جس دن جان لیا، جس دن کوئی خبر مل گئی، چلتا کریں گے۔ لگتا ہے افتخار درانی بھلے آدمی ہیں، مگر بے بس۔ یوسف بیگ نے ایک عمر میڈیا میں بسر کی ہے۔ اس کے نشیب و فراز اور اورچھور سے آشنا ہیں۔ پالیسیوں کی تشکیل میں ان کا اختیار مگر کتنا ہے؟ سیاست کا شعور کتنا؟
بنیادی غلطی کیا تھی؟ نون لیگ کے انداز میں میڈیا سیل کی تشکیل۔ شدت سے جو مذمت، تحقیر اور کردارکشی کی مہم چلائے کہ مخالفین سپرانداز ہو جائیں مگر شریف خاندان تو بہت سے لوگوں پہ عنایات بھی کیا کرتا، خواہ سرکاری خزانے سے ہی۔ خاندان کے سبھی لوگ، ان کے وزرا اور کارندے بھی اخبار نویسوں سے رہ و رسم رکھتے۔ تحریکِ انصاف کا میڈیا سیل ایسے لوگوں کے ہاتھ میں تھا، جنہوں نے خود کو بلڈوزر اور انسانوں کو کنکر اور روڑے سمجھ لیا۔
کنکر اور روڑے نہیں، اللہ کے آخری رسولؐ کا فرمان یہ ہے کہ خدا کی مخلوق خدا کا کنبہ ہے اور یہ فرمایا: کبریائی خدا کی چادر ہے۔ حیرت انگیزطور پر فواد چوہدری اب بھی ڈٹے ہوئے ہیں کہ میڈیا کے لیے اشتہارات کبھی بحال نہ کیے جائیں، اس کی ناک رگڑی جائے بلکہ ممکن ہو تو عدلیہ کی بھی۔ دسمبر96ء سے 1999ء تک پھیلی نواز شریف کی حکومت نے یہی کیا تھا۔ روزنامہ جنگ کے دفاتر کا گھیرائو کیا اور سپریم کورٹ پہ چڑھ دوڑی تھی۔ تبھی وہ تحریک اٹھی، تبھی وہ صورتِ حال پیدا ہوئی، جس میں نہ صرف اقتدار جاتا رہا بلکہ جلا وطنی کے آٹھ برس بتانا پڑے۔
اقتدار اللہ کا ہے، بندوں کا نہیں اور اپنی حکومت اس نے کبھی شیطان کے حوالے نہیں کی۔ ہر ایک کے لیے مہلت ہے، گنی چنی مہلت۔ حیرت انگیز طور پر فردوس عاشق اعوان کا اندازِ فکر قدرے صحت مندانہ ہے۔ ترجیحات ان کی بھی وہی ہیں، اثر و رسوخ، جاہ و حشمت اور ممکن ہو تو وسائل کی فراوانی۔ جذباتی بلکہ غصہ ور ہونے کے باوجود ان کا خیال یہ ہے کہ میڈیا سے تعلقاتِ کار قائم کرنے چاہئیں۔ لگتا ہے کہ اپنے تجربے سے انہوں نے سیکھا ہے۔ نووارد فواد چوہدری خودپسند بہت ہیں۔ نعیم الحق بالکل ہی سطحی، کچھ بھی نہ سیکھ سکے۔
اشتہارات کی بندش کا فیصلہ غلط تھا، محدود کرنا چاہئیے تھا۔ سڑکوں اور پلوں کی تشہیر کا کیا مطلب؟ جی ہاں، خزانے کو امانت سمجھنا چاہئیے۔ ہاں مگر ہزاروں لاکھوں کے روزگار کا سوال ہو توفیصلے زیادہ احتیاط، تدبیر اور تدریج کے ساتھ بروئے کار آنے چاہئیں۔ گیارہ سو ارب روپے ہر سال سرکاری کارپوریشنوں پہ لٹا دیے جاتے ہیں۔ میڈیاکو تو اس کا عشرِ عشیر بھی درکار نہیں تھا۔ اشتہارات کم کر دیے جاتے، رفتہ رفتہ اور بھی کم۔
9، 10ماہ کے بعد سرکار نے ادراک کیا ہے۔ مگر یہ ٹیم؟ اوّل تو یہ کہ اتنے بڑے لائو لشکر کی ضرورت ہی نہیں۔ ایک آدھ دانا آدمی اور اس کے لیے موزوں سٹاف بہت ہوتا۔ رسوخ بڑھانے کی کوشش میں باہم وہ الجھتے رہتے ہیں، ایک دوسرے کے خلاف سازش کرتے ہیں اور کبھی کبھی تو میڈیا کی مدد سے بھی۔
پھر وہی بات: غلطی کے ارتکاب سے نہیں، آدمی اپنی غلطیوں پہ مصر ہونے سے تباہ ہوتاہے۔ مگر افسوس کہ کم ہی لوگ سوچتے، کم ہی غور کرتے اور اس سے بھی کم اپنی اصلاح پہ آمادہ ہوتے ہیں۔ زیاں بہت ہے، خداکی کائنات میں زیاں بہت۔