Monday, 18 November 2024
  1.  Home/
  2. 92 News/
  3. Marne Walon Ki Jabeen Roshan Hai In Zulmat Mein

Marne Walon Ki Jabeen Roshan Hai In Zulmat Mein

کیا ہم جانتے اور یاد رکھتے ہیں کہ شکر گزاری ایمان ہے اور ناشکری کفر۔ مستقل رنجیدہ رہنے والے کو شکایت بندوں سے نہیں، خالق سے ہوتی ہے۔

برسوں سے خبر نہیں ملی۔ اللہ کرے، زندہ سلامت ہوں۔ اسی طرح اجالا بکھیرتے ہوں۔ ایسی محبت اپنے شہر سے تھی کہ نام کے ساتھ لکھتے، انیس احمداعظمی۔ بھارت کا مردم خیز خطہ اعظم گڑھ۔ کہا جاتا ہے کہ ابوالکلام آزاد بھی یہیں پیدا ہوئے تھے۔ 1965، 1966، دو برس ان سے پڑھا۔ شعر کا ذوق پیدا کیا۔ مطالعے کا ذوق پیدا کیا۔ اگر کبھی کوئی بھلائی سرزد ہو جاتی ہے تو اس میں ان کا حصہ ہے، والدین کا تو ہمیشہ ہوا کرتا ہے اور اللہ ان کی قبر کو نور سے بھر دے، حافظ محمد اسمٰعیل کا، اور انہوں نے مولانا دائود غزنویؒ سے فیض پایا۔

قرآنِ کریم کا ترجمہ ان سے پڑھا تھا، اسی زمانے میں۔ اور جناب سرور صدیقی۔ جوانی میں چلے گئے، رحیم یار خاں کی مٹی اوڑھے سو رہے ہیں۔ جب بھی ان سب کی یاد آتی ہے، روشنی کے جلو میں آتی ہے۔ چک نمبر 42جنوبی سرگودھا کے حافظ محمد حسین کو کیسے بھول گیا۔ آدمی کی ایک شخصیت ہوتی ہے اور اس کے چلے جانے سے رخصت نہیں ہوتی۔ اسی طرح چہکتی، چمکتی اور برستی ہے، جس طرح زندگی کی رونق میں۔ مرنے والے مرتے ہیں، فنا ہوتے نہیں۔

دلوں اور دماغوں میں زندہ رہتے ہیں۔ ہمارے لیے مشعلیں فروزاں کرتے ہیں۔ ہمیں جتلاتے، ہم سے آزردہ ہوتے، کبھی اپنی عالی ظرفی سے ہمیں داد دیتے ہیں۔ ڈانٹتے، پھٹکارتے نہیں۔ ہم جب گنوار پن کا مظاہرہ کریں تو ایک گہری اداسی انہیں آلیتی ہے۔ ہاں! بخدا اس میں کوئی مبالغہ نہیں۔ بار ہا میں نے انہیں آزردہ پایا ہے اورکم کم کبھی شاداں و فرحاں بھی۔ مر گئے، لوگوں کے لیے چلے گئے۔ ہمارے لیے نہیں۔

ہمارے شب و روز میں وہ گھل مل گئے ہیں۔ اس کے باوجود الگ الگ بھی سنائی دیتے ہیں، دکھائی دیتے ہیں۔ آس پاس چلتے پھرتے ہیں۔ دھیمی آواز میں پکارتے ہیں۔ احساس دلاتے ہیں اور دھیمی آواز ہی میں کبھی تنبیہہ کرتے ہیں۔ جب وہ چلے جاتے ہیں تو مشفق و مہربان ماؤں کی طرح ہوجاتے ہیں۔ بارہا میں نے انہیں دیکھا ہے۔ ان کے لیے دعا کریں تو زیرِ لب مسکراتے ہیں۔ جب ان کے نام پہ صدقہ دیں تو کھل اٹھتے ہیں۔ حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔

یہ توفیق مگر خیال میں ہوتی ہے، عمل میں خال ہی۔ رہنمائی وہ ہمیشہ کرتے ہیں، ہمیشہ!

مرنے والوں کی جبیں روشن ہے ان ظلمات میں

جس طرح تارے چمکتے ہیں اندھیری رات میں

یہ 1965ء کا موسمِ خزاں تھا۔ بستہ اٹھایا اور ایک کمرے سے اٹھ کر دوسرے میں جا بیٹھے۔ وہ سائنس کی کلاس تھی یہ آرٹس کی۔ اِس میں وہ طلبہ پڑھتے، جنہیں ڈاکٹر یا انجینئر بننا ہوتا۔ اس میں وہ جو دوسرے شعبوں کا رخ کرتے۔ گرامی قدر استاد اپنی بچوں ایسی معصوم ہنسی ہنسے اور کہا: تو آپ تشریف لے آئے؟ اپنی جسارت پہ اب حیرت ہوتی ہے۔ گھر والوں کو بتایا نہیں۔ ہیڈ ماسٹر چوہدری عبد المالک سے اجازت لی نہیں۔ یہ پہلا واقعہ تھا اور نہ آخری، خاندان کو جب مایوس کیا ہو۔ عمر بھر اپنے دل کی بات مانی اور اگر کبھی تاخیر ہو گئی تو اس کا ملال رہا۔

غالباً یہ 1989ء تھا، جب میجر ابن الحسن مرحوم سے اتفاقاً ملاقات ہوئی۔ کچھ معروضات پیش کیں، رہنمائی کی درخواست کی۔ فرمایا: جب آپ کے دل و دماغ میں کشمکش ہو تو دل کی با ت مان لیا کریں۔ جملہ آپ کا یاد ہے۔ فلسفہ وہ درخت ہے، جس پہ پھل نہیں لگتا۔ پہلی ہی ملاقات میں بے تکلف۔ یہ ان کی عنایت تھی، ہمیشہ جو برقرار رہی۔

یہ اندازہ بعد میں ہوا کہ مزاج ہی یہی تھا، شخصیت ہی ایسی تھی۔ ایک مسکراتا ہو گداز۔ ظاہر میں، باطن میں بھی۔ جنرل محمد ضیاء الحق کے قائل تھے۔ میری کتاب کا دیباچہ لکھا۔ ان کے حکم پر کراچی جا کر کتاب انہیں پڑھ کر سنائی۔ خود ناچیز کے پاس ہوٹل کے کمرے میں تشریف لائے۔ کھانے کی میز پر ہلکی پھلکی گفتگو۔ بتایا کہ پاک فوج سے وابستگی کے زمانے میں جنرل ضیاء الحق کے سینئر تھے۔ تب جو رویہ کیپٹن ضیاء الحق کا نستعلیق آدمی سے تھا، وفات تک برقرار رہا۔

میجر صاحب کو ہمیشہ سفاری سوٹ پہنے دیکھا۔ ہمیشہ مسکراتے پایا۔ دل ان کی طرف کھنچا کیوں چلا جاتا، اب احساس ہوتا ہے کہ وہ انیس صاحب کی طرح تھے۔ دراز قد، خوش باش۔ شامی صاحب کی روایت ہے کہ بسترِ مرگ پر بھی بے چینی انہیں چھو نہ سکی۔ کہا تو بس یہ کہا: مالک دمِ مرگ ہی اگر بتا دیتا تو تشفی ہو جاتی۔ تشفی تو تھی ہی۔ اندیشہ تو تھا ہی نہیں۔ مایوس اگر ہوتے تو مرجھا نہ جاتے؟ استادِ گرامی انیس احمد اعظمی کا مشغلہ زیادہ تر یہ تھا۔ منتخب اشعار گنگنایا کرتے۔ لحن میں گداز تھا۔ آواز میں غنا۔ ایک ہی شعر دیر تک پڑھتے رہتے۔

زندگی یوں بھی گزر ہی جاتی

کیوں تیرا راہ گزر یاد آیا

حیدر آباد سندھ کے جواں مرگ قابل اجمیری کا ذکر انہی سے سنا تھا۔ مرحوم کے اشعار بھی۔ چالیس برس بعد شعیب بن عزیز کے پاس دیوان دیکھا تو اندازہ ہوا کہ باقی رہنے والے شعر وہی تھے جو استاد ِ محترم سے سنے تھے۔ معافی کا خواہستگار ہوں، ترتیب یاد نہیں۔

تم نے پیمانِ محبت تو کیا تھا لیکن

اب تمہیں یاد نہیں تو مجھے شکوہ بھی نہیں

کس کڑے وقت میں بدلی ہیں نگاہیں تم نے

جب مجھے حوصلہء ِ ترکِ تمنا بھی نہیں

حیرتیں کہتی ہیں وہ آ کے گئے بھی کب کے

ذوقِ نظارہ پریشاں ہے کہ دیکھا ہی نہیں

چوہدری عبد المالک خیر خواہ تھے مگر سخت گیر۔ سکول کے سٹور سے چیز ادھار لی جا سکتی۔ ادائیگی کا وقت مقرر تھا، اکثر جس کی پرواہ نہ کی جاتی۔ چوہدری صاحب کلاس میں آئے۔ ان طلبہ کو سزادی، قرض جن کے ذمے تھا۔ انیس احمد اعظمی خیر خواہ تھے اور نرم خو بھی۔ غمزدہ لیکن خود کو سنبھالے رکھا۔ کہا: روسٹرم کی دراز میں روپے رکھ دیے ہیں، جسے ضرورت ہو، لے لیا کرے۔ چوہدری صاحب کے بارے میں کچھ نہ کہا۔ چہرے پہ مگر یہ لکھا تھا: چوہدری صاحب آپ نے یہ کیا کیا۔ بچوں سے کیسا برا سلوک کیا۔

ایک طالبِ علم کے والد آئے۔ شکایت کی کہ اس نے غیر اسلامی لباس کی فرمائش کی ہے۔ پتلون اور شرٹ کی۔ اس لڑکے کو روک لیا۔ چند دن کے بعد وہ صاحب آئے، سراپا احتجاج۔ "ماس صاحب جی، یہ آپ نے کیا کیا" انیس صاحب نے اس لڑکے کو پتلون اور شرٹ سلوا دی تھی۔ کہا: سادگی کی خواہش باطن سے پھوٹنی چاہئیے، مسلط کرنے میں ردّعمل کا اندیشہ ہوتا ہے۔ لباس اسلامی ہوتا ہے اور نہ غیر اسلامی۔ اسلام نے صرف ڈھنگ سے ستر پوشی کا حکم دیا ہے۔

بہت دور کالاباغ میں دریائے سندھ کے کنارے ان کی یاد آئی ہے۔ طالبِ علم سرجھکا لیتا ہے۔ وہ شرمندہ ہے اور معافی کا طلب گار۔ ان سے اکتسابِ نور نہ کیا، ان کا احسان یاد نہ رکھا۔ سرکارصلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: بندوں کا جو شکرگزار نہیں، اللہ کا بھی نہیں۔ کیا ہم جانتے اور یاد رکھتے ہیں کہ شکر گزاری ایمان ہے اور ناشکری کفر۔ مستقل رنجیدہ رہنے والے کو شکایت بندوں سے نہیں، خالق سے ہوتی ہے۔

About Haroon Ur Rasheed

Haroon Ur Rasheed

Haroon Ur Rasheed is a well known analyst and columnist. Currently, he is working with 92 News. He has worked for Dunya News, 92 News and Geo.