انسانوں کا خدا غفور الرحیم ہے۔ اس کی صفتِ رحم اس کی صفتِ عدل پہ غالب ہے مگر یہ شعور بھی توہو، یہ ادراک بھی تو کارفرماہو۔
ایک تماشہ ہے جو ہر طرف پھیلا ہواہے، ایک سستا، بے ہنگم اور بد ہیئت تماشا۔ اس وقت جب گلگت بلتستان اور دِیر میں سیلاب کی تباہ کاری نے خلق کو عاجز اور پست کر دیا ہے۔ اس وقت جب ملک کے معاشی دارالحکومت کراچی کے دو کروڑ شہری بے بسی کی تصویر ہیں۔ جب ڈیرہ غازی خاں کی بے مہابا بارشوں میں مائیں اپنے گمشدہ بچے ڈھونڈ رہی ہیں۔ بلوچستان کی بے کراں وسعتوں سے کمسنوں کی لرزتی کانپتی چیخوں کی آوازیں ہیں۔ درختوں پر وہ غیبی امداد کے منتظر ہیں۔ اس وقت جب ڈالر کے مقابلے میں روپیہ زمیں بوس ہے۔ ایک تماشہ ہے کراں تابہ کراں۔ پھبتی، طعنہ زنی اور گالم گلوچ کا ایک مقابلہ افق تابہ افق جاری ہے۔ اقبالؔ کی بات جیسی اب سمجھ میں آئی ہے، پہلے کبھی نہ آئی تھی:
وائے ناکامی متاعِ کاررواں جاتا رہا
کاررواں کے دل سے احساسِ زیاں جاتا رہا
گفتگو کا موضوع سیلاب بھی ہے۔ دہکتی آگ پہ دھری پلاسٹک کی طرح پگھلتی اور بدبو پھیلاتی معیشت بھی لیکن کبھی کبھی، کہیں کہیں۔ اصل موضوع اب بھی سیاست ہے۔ لیڈرانِ کرام جن میں سے ہر ایک کسی گروہ کے لیے نجات دہندہ ہے تو دوسروں کے لیے جرائم پیشہ گروہ کا سردار۔ عہدِ قدیم کے مزارعین کی طرح جو جاگیرداروں کی جنگیں لڑا کرتے، ہم اپنے عظیم رہنماؤں کی رزم آرائیوں کے مہرے ہیں؟ لاکھوں آدمی ہیں، ہمہ وقت جو چیختے رہتے ہیں اور کروڑوں ہیں جو سنتے رہتے ہیں۔ ایک جماعتِ اسلامی کے سوا کوئی ملک گیر تنظیم نہیں، دکھ درد کے ماروں کی مدد کے لیے جو بروئے کار آئی ہو۔ اندمال تو کیا، حکمران ہمارے زخموں پر سنجیدگی سے بات کرنے کے بھی روادار نہیں۔ مسلح افواج کے جوانوں اور افسروں کے سوا کوئی نہیں، لپک کر جس نے پہنچنے کی کوشش کی ہو۔ تعجب کی بات ہے کہ تحسین تو کیا تذکرہ بھی نہیں۔ تعجب تو یہ ہے کہ اس پر کسی کو تعجب بھی نہیں ہوتا۔
جماعتِ اسلامی اندمال کو اتری تو ہے اور ہمیشہ اترتی ہے۔ اب کی بار لیکن اسے یہ فکر بھی لاحق ہے کہ ان کی ریاضت رائیگاں نہ رہے۔ سوشل میڈیا پر کسی صبح یا شام پیغامات کی بارش ہوتی ہے "واحد حل جماعتِ اسلامی" حیرت کے ساتھ آدمی سوچتا ہے، کس سے وہ داد کے طالب ہیں، خدا سے یا خلقِ خدا سے؟ عشروں سے خدمتِ خلق اور تعلیم کے میدانوں میں ان کی خدمات کے علَم لہرا رہے ہیں۔ رہی سیاست، کبھی کوئی ڈاکٹر نذیر، کبھی کوئی نعمت اللہ خاں ابھرتا ہے اور نگاہ خیرہ ہو جاتی ہے۔ بالعموم مگر مخلوق ان سے بے نیاز رہتی ہے۔ خدا جانے کیوں۔ اس سوال کا جواب نہ کسی دانا کے پاس ہے اور نہ خود پارٹی کے پاس۔
بے بسی اور بے کسی کے عالم میں ایک منظر یادوں کی دھند سے ابھرا۔ کسک کی لہر اٹھی اور مچلتی رہی۔ فاروق گیلانی مرحوم کے ساتھ پرانی انارکلی کے حاشیے پر کھڑا تھا۔ یہ ہپّی تحریک کا عروج تھا۔ امریکہ اور یورپ سے نوجوانوں کے سیلاب امڈے چلے آتے۔ بھدے لباس، میلے پیکر، سستے ترین ہوٹلوں میں وہ قیام کرتے یا باغوں اور فٹ پاتھوں پہ سو رہتے۔ گیلانی مرحوم انگریزی میں رواں تھے۔ ایسے رواں کہ گاہے اہلِ زباں بھی مرعوب ہوتے۔ دو تین اجنبیوں سے انہوں نے کچھ دیر گفتگو کی اور بتایا: وہ کہتے ہیں پاکستان نے ہمیں ششدر کر دیا۔ اشیائِ خوراک کی قیمتوں میں یہ دنیا کا سب سے مہربان ملک ہے۔ ایک ڈالر میں پورا دن بتایا جا سکتاہے۔
قومی تاریخ میں یہ قرار کے دن نہیں تھے۔ ویسا ہی طوفان جو عمران خاں نے پیدا کر رکھا ہے، ذوالفقار علی بھٹو نے اٹھا رکھا تھا۔ سوشل میڈیا اور ٹی وی کا غلغلہ تو ظاہر ہے کہ نہیں تھا۔ فضا میں لیکن ایسی ہی تلخی گھلی رہتی۔ موضوعِ بحث سوشلزم تھا، دین کی تعبیر تھی، بائیس خاندان تھے اور ایسی ہی چیختی ہوئی جہالت کے ساتھ۔ پچاس برس میں موضوعات کے پیکر وہی ہیں، صرف چہرے بدل گئے۔ سیاست میں فوج کا کردار، مالداروں کی بے دردی اور بے مہری بھی۔ بائیس نہیں بلکہ اب شاید بائیس سو خاندان ہیں اور لوٹ مار کی ہزاروں داستانیں۔ کسی داستاں پہ کسی کو حیرت نہیں ہوتی۔ پاکستان اب دنیا کے ان چار ممالک میں شامل ہے، جہاں گرانی کے عفریت تلے زندگی سسکتی رہتی ہے۔ دلدل میں ہاتھ پاؤں مارتے لوگ جو نہیں جانتے کہ آنے والا کل ان کے لیے کیا لائے گا۔
بنی اسرائیل نے چالیس برس صحرا میں بتا دیے تھے۔ وہ قوم، جس کی سرکشی پراللہ کی آخری کتاب گواہ ہے، قرآنِ کریم کے مطابق جس پر اتارے گئے جلیل القدر پیغمبر نے کہا تھا: میں اللہ کی پناہ مانگتا ہوں کہ جاہلوں میں شمار کیا جاؤں۔ مفسرین میں سے بعض کا خیال یہ ہے کہ جاہلوں سے مراد ان کی اپنی قوم تھی۔ نبی کی حیات میں جس نے بچھڑے کی پوجا کی۔ اللہ کے آخری رسول ؐ نے ارشاد کیا تھا: ہر وہ کام میری امت کرکے رہے گی، بنی اسرائیل جس کے مرتکب ہوئے۔
فرد یا قوم، قریہ یا قبیلہ، کامیابی یا نامرادی شاید افلاس نہیں ہے۔ شاید آفاتِ زمینی و آسمانی بھی نہیں بلکہ یہ کہ سمت کا سراغ کھو جائے۔ صحرا کے مسافر کی طرح، سویر جو سو کر اٹھے تو اس کا اونٹ غائب ہو۔ حواس پہ چھائی گھبراہٹ میں راستے کے شعور و ادراک ہی وہ کھو دے۔ قومیں برباد ہوتی ہیں۔ جنگوں، خانہ جنگیوں اور سیلابوں سے۔ آدمی کی تقدیر میں یہی لکھا ہے۔ یہ دنیا خواہشات کو آسودہ کرنے والی چراگاہ نہیں۔ آدمی کو زمین پر آسودہ ہونے کے لیے بھیجا ہی نہیں گیا بلکہ آزمائش کے لیے۔ چند برس یا زیادہ سے زیادہ چند عشرے سیرابی و سکون کے ہو سکتے ہیں۔
صدیوں کا قرار کبھی کسی قوم کو عطا نہیں ہوا۔ ایک نہیں تو دوسری آفت آلیتی ہے۔ کوئی ہولناک جنگ نہیں تو دفعتاً پھیلنے والی وبا ہی۔ ہزاروں لاکھوں جس میں کھیت رہتے ہیں۔ آسمان پہ امید کا کوئی تارا چمکتا ہے اور نہ زمین پہ کوئی مشعل فروزاں رہتی ہے۔ قومیں ہیں، احساس اور علم کی کچھ متاع جن میں بچی رہتی ہے۔ دوسری عالمگیر جنگ کے کھنڈرات سے ابھرنے والے جاپان اور جرمنی کی 1960ء کے عشرے تک زخم خوردہ جرمنی گھٹنوں کے بل رینگ رہا تھا۔ پاکستان کے فوجی حکمران نے برلن کو مالی امداد کی پیشکش کی اور پوری کر ڈالی۔ آج جرمنی کے کسی ایک شہرمثلاً کرک کی معیشت شاید پاکستان کی پوری معیشت سے بڑی ہے۔
کیوں نہ ہو، سوراخ جس برتن میں ہو، لبالب کیسے ہو سکتا ہے۔ جس قوم کے حکمران اور مالدار اپنا بیشتر سرمایہ ملک سے باہر بھیج دیتے ہوں، بھوک کی بلا اس پہ نہ ٹوٹے تو کیا شادمانی کا ابر برسے گا۔ ہاتھ میں کشکول لیے ہمارے حکمران نگر نگر گھومتے ہیں، کاسے میں کوئی بھیک نہیں ڈالتا۔
انسانوں کا خدا غفور الرحیم ہے۔ اس کی صفتِ رحم اس کی صفتِ عدل پہ غالب ہے مگر یہ شعور بھی توہو، یہ ادراک بھی تو کارفرماہو۔