لنکن کا قول یہ ہے "میں یہ آرزو نہیں پالتا کہ میری خواہشات میں خالق میرا ساتھ دے۔ میں یہ سوچتا ہوں کہ اس کی منشا کیا ہے۔"امریکی تاریخ کاواحد لہکتا ہوا اخلاقی استعارہ، ابرہام لنکن۔ پچھلے دنوں کسی نے کہا کہ شایدوہ ملحد تھا۔
تلاشِ روزگار میں لنکن پہلی بار جب ایر ی زونا کے سب سے بڑے قصبے میں پہنچا توپرشکوہ عمارتوں کو تکتا رہا۔ ایک منظر ایسا اس نے دیکھا کہ ہمیشہ کے لئے اس کے ذہن پہ ثبت ہو گیا۔ ایسا لگتا ہے کہ عمر بھر اس کی تمام ترجیحات اسی ایک لمحے سے پھوٹتی رہیں۔ لنکن کو سمجھے بغیر شاید امریکی تاریخ اور قوم کا ادراک نہیں کیا جا سکتا اور نہ اس خیرہ کن عروج کو جو اب زوال آشنا ہے۔
شہر کے ایک چوراہے میں افریقہ سے لائے گئے غلام بیچے جا رہے تھے۔ اس کا دل بھر آیا اور اپنے آپ سے اس نے یہ کہا: کیا وہ انسان نہیں؟ عمر بھر یہ جملہ وہ دھراتا رہا۔ اٹھارہ سوڈالر کا مقروض تھا۔ معمولی تعلیم یافتہ اور سوا چھ فٹ قد کے دبلے پتلے آدمی میں کوئی چیز نہ تھی کہ لوگ توجہ دیتے۔ ہاں، مگر اس کی طویل قامتی۔ سینٹ اور صدارت میں اس کے حریف ڈگلس کا قد پانچ فٹ چار انچ تھا۔ نو برس کی عمر میں والدہ فوت ہو گئیں۔ سوتیلی ماں گو مہربان تھی مگر باپ نا مہربان۔ وہ اسے پیٹا کرتا۔
اوّل لنکن سٹور کیپر بنا، پھر لکڑ ہارا، اس کے بعد سروے کرنے والوں کے ساتھ، پھرکشتی کھیتا رہا۔ الجھا الجھا سا، بے تکا سا دکھائی دیتا مگردو خوبیاں ایسی کہ کمیاب ہو تی ہیں۔ مکمل طور پر دیانت دار اور مطالعے کا خوگر۔ ہمیشہ غورو فکر میں مبتلا رہنے والا۔
یہ انیسویں صدی کا تیسرا عشرہ تھا۔ جنوب اور شمال کی خانہ جنگی سے کچھ پہلے کا زمانہ۔ اخبارات چھپنے لگے تھے۔ بینک بن چکے تھے۔ جنوبی ریاستوں میں صنعتی انقلاب کی نمود تھی۔ عجیب بات یہ ہے کہ کالے غلاموں کو فیکٹریوں میں گوارا نہ کیا جاتا۔ وہ شمال کی ریاستوں میں کاشتکاری میں جتے رہتے۔ اجرت فقط کھانا اور معمولی رہائش۔ کم گو آدمی کبھی کبھار یہ کہتا: قدرت نے اگر موقع دیا تو انہیں آزادکر کے رہوں گا۔۔
اسی لئے وہ شرمیلا آدمی سیاست میں کودا۔ کانگریس کا الیکشن لڑا اور ہار گیا۔ دوسری بار وہ جیت بھی گیا لیکن مالی مسائل پھر بھی حل نہ ہو سکے۔ ایوانِ نمائندگان کے ممبر کی حیثیت سے صرف تین ڈالر روزانہ ملا کرتے۔ اپنا قرض اس نے آنے والے برسوں میں ادا کیا، جب سینیٹ کا الیکشن ہار گیا اور ساری توجہ وکالت پہ مرکوز کر دی۔ زمانہ وہ تھا، جب اس ذمہ داری کے لیے ڈگری کی ضرورت نہیں تھی۔ رفتہ رفتہ وکالت چمک اٹھی، حتیٰ کہ ایک رئیس خاندان میں بیاہا گیا۔
اب وہ آزاد تھا لیکن آزادی اس کے لیے مسرت اور قرارلے کر نہ آئی۔ گھریلو اطمینان کبھی نصیب نہ ہو سکا۔ یکے بعد دیگرے دو بیٹے فوت ہوئے۔ دوسرا باپ کی طرح کریم اور ذکی تھا۔ خانہ جنگی ختم ہونے پر فتح کی تقریب میں جس نے چلّاکر کہا تھا: حریفوں سے ہرگز کوئی انتقام نہ لیا جائے۔
رات کو دیر تک لنکن کتاب کے اوراق پر جھکا رہتا۔ ہر آدمی کو قدرت کوئی خاص صلاحیت عطا کرتی ہے۔ اگر وہ اس کی شناخت کر سکے۔ اگر ریاضت کا خوگر ہو۔ ترجیحات طے کر سکے اور اپنا وقت رائیگاں نہ کرے تو بالاخر چمک اٹھتا ہے۔
لنکن دلیل کا آدمی تھا، تخلیقی ذہن کا لیڈر۔ رواج اور فیشن کی بجائے علمی اور سائنسی اندازِ فکر کا حامل۔ تاریخ اور سیاست کے علاوہ انگریزی ادب، بالخصوص انجیل اور شیکسپئر میں انہماک۔ مشرق کے عظیم فلسفی نے جس کے بارے میں یہ کہا تھا
حفظِ اسرار کا فطرت کو ہے سود ا ایسا
رازدا ں پھر نہ کرے گی کوئی پیدا
ایساظاہر ہے کہ تاریخ کے دوام میں زندہ رہنے والا مصنف وہی ہوتا ہے، جسے درد کی دولت عطا ہو۔ شیکسپئر کا خاصہ یہ ہے کہ داستان کی بھول بھلیّوں میں وہ حکمت کے موتی ڈھونڈتا۔ خون جلاتا رہتا۔ والٹیر نے کہا تھا: Every word of a writer is an act of generocity۔ اقبال ؔکا قول یہ ہے: جہاں کوئی عظیم شعر دیکھو، جان لو کہ کوئی مسیح مصلوب ہوا ہے۔۔۔ اور میرؔ صاحب نے یہ کہا تھا:
مصرعہ کبھو کبھو کوئی موزوں کروں ہوں میں
کس خوش سلیقگی سے جگر خوں کروں ہوں
میں انجیل میں تحریف ہوئے صدیاں بیت گئی تھیں لیکن اب بھی کہیں کہیں آسمانی چراغوں کی روشنی۔ لنکن کی تحریروں او ر بعض خطابات میں یہ نور جھلکتا اٹھتا۔
اس نادرِ روزگار پہ چودہ ہزار کتابیں لکھی جا چکیں۔ زندگی کے نشیب و فراز میں زخم سہنے اور صبر کرنے کی بے کراں صلاحیت اور دائم جدوجہد۔ آئن سٹائن نے کہا تھا: میں دوسروں سے زیادہ ذہین نہیں، بس یہ کہ سوال سے زیادہ دیر تک چپکارہتا ہوں۔ یہ بھی کہا تھا: میں ایک پر امید احمق کہلانا پسند کروں گا مگر ایک مایوس نابغہ نہیں۔ لنکن یہی تھا۔ اس کے بارے میں الحاد کا ابہام اس لیے پیدا ہوا کہ سیاست کے لیے مذہبی نعرہ کبھی نہ برتا؛اگرچہ الہامی اصولوں پہ کاربند رہا۔
چند ایک کا خیال تو یہ بھی ہے کہ وہ اسلام پہ ایمان لے آیا تھا۔ مدعی لیکن کچھ زیادہ قرائن اور شواہد پیش نہیں کرتے۔ ہمیشہ وہ ایسابے باک اور کھرا تھا کہ اس کی سوانح پڑھتے ہوئے قائدِ اعظم یاد آتے ہیں اور اتنا بے ساختہ، جتنا کہ اکثرعام آدمی جیسا لباس پسند کرنے والاٹیپو سلطان۔
میکسیکو پر حملہ ہوا تو چیخ کرلنکن نے کہا "کیاوہ امریکیوں کا خون بہانے کے مرتکب تھے؟ " اس کا مذاق اڑایا گیا مگر وہ خاموش رہا۔ ایسا بامعنی سکوت اہل عزم کو عطا ہوتا ہے۔ اسے ادراک تھا کہ مذہب اور حب وطن کے نام پر مقبولیت آسان ہے۔ باضمیر آدمی کو مگر یہ گوارا نہ تھا؛حالانکہ اس کی روح مذہبی تھی اور وہ امریکی تاریخ کا سب سے بڑا ہیرو ہے۔
تمام مذاہب کا سرچشمہ ایک ہے؛لہٰذا ان کے بنیادی اصول بھی۔ عیسائیت، یہودیت اور اسلام، حتیٰ کہ ہندو مت کے ماننے والے بھی تسلیم کرتے ہیں کہ ظلم کے مرتکب، اس دنیا میں سزا پاتے ہیں اور دوسری دنیا میں بھی۔ ہر کریم النفس کو، ہر خیر خواہ کو، اس فانی دنیا میں برکت نصیب ہوتی ہے اور دوسری دنیا میں دائمی فوز و فلاح۔
عمران خاں مدینہ کی سی ریاست قائم کرنے کے علمبردار ہیں۔ شریف خاندان میں تقریباً سبھی کا تکیہ کلام "الحمد اللہ" ہے۔ آصف علی زرداری خود کو حسینی قافلے کا حصہ کہتے ہیں۔ تمام اخلاقی ضابطے مذاہب سے آئے ہیں، آسمان سے۔ وائٹ ہیڈ مین سے لے کر برٹرینڈرسل تک کسی سیکولر مفکر نے کبھی کوئی اخلاقی اصول نہیں دیا۔
لنکن کا قول یہ ہے "میں یہ آرزو نہیں پالتا کہ میری خواہشات میں خالق میرا ساتھ دے۔ میں یہ سوچتا ہوں کہ اس کی منشا کیا ہے۔"امریکی تاریخ کاواحد لہکتا ہوا اخلاقی استعارہ، ابرہام لنکن۔ پچھلے دنوں کسی نے کہا کہ شایدوہ ملحد تھا۔