عظیم رہنما راستہ دکھاتے ہیں، لیکن معاشروں کی نجات کسی ایک لیڈر کی حوصلہ مندی اور شہ دماغی میں نہیں ہوتی بلکہ قوموں کی بیداری میں۔ یہی نکتہ اہم ہے اور یہی نظر انداز۔
چھک چھک کرتی گاڑی بہاولپور کے ریلوے سٹیشن پر رکی۔ ڈبے کا دروازہ کھلا اور اس آدمی کو سامنے پایا، جسے دیکھنے کے لیے تین گھنٹے کی مسافت طے کی تھی۔ فیلڈ مارشل محمد ایوب خان۔ اپنے عہد کے وجیہہ ترین حکمران۔ جن کی ایک جھلک کے لیے خلقت ٹوٹ پڑتی تھی۔
تعمیرِ ملت اور گورنمنٹ ماڈل ہائی سکول رحیم یار خان کے سینکڑوں طلبہ بہاولپور کے ریلوے سٹیشن پر موجود تھے۔ ان کے سوا بھی اس صحرائی شہر سے آنے والے بہت سے مہم جو، پانچ ہزار برس سے جو آباد چلا آتا ہے۔ اروڑ سے لے کر رحیم یار خان تک کئی بار اس شہر نے اپنا چولا بدلا، نام تبدیل کیا۔ اگر کبھی تحقیق ہوئی اور آثارِ قدیمہ کے ماہرین کھوج لگانے پر اترے توشاید ہڑپہ سے بھی قدیم تر آثار برآمد ہوں۔ رحیم یار خان شاید دنیا کا واحد شہر ہے، جس میں تین نہریں بہتی ہیں۔
صحرا کنارے، سبزے میں لپٹا اور میٹھے پانیوں سے آباد ہونے کے باوجود یہ ایک خوابیدہ دیار ہے۔ کبھی ڈھنگ کی قیادت ملی اور نمو پا سکا تو ملک کے ماتھے کا جھومر بن سکتاہے۔ مخلوط نسلوں کے ذہین لوگ۔ بس یہ کہ رومان پسند زیادہ ہیں۔ عمل اور پیش قدمی کے خوگر کم۔ وہی دیرینہ بیماری وہی نا محکمی دل کی۔ کبھی میراں شاہ اور حسن محمود کے وارث احمد محموداس کے سینے پہ چڑھ بیٹھتے ہیں اور کبھی میاں عبدالخالق دیانت دار مگر ناتراشیدہ۔ مرض وہی ہے، حکمرانوں سے امیدیں، طاقتوروں سے التجا۔
اقبالؔ ایسے نادرروزگار مفکر کو یہ قوم سموچا نگل گئی۔ غور کرتی تو فروغ اور بالیدگی کے راستے اس پہ روشن ہو جاتے۔ خیر قائداعظم جیسا عظیم سیاسی مدبر اس قوم کا بگڑا مزاج نہ سنوار سکا۔ بادشاہوں اور جاگیرداروں کی ہو یا غیر ملکی حکمرانوں کی، غلامی ایسی بری چیز ہے کہ قلوب و اذہان کی توانائی نچوڑ لیتی ہے۔ حافظہ یاوری نہیں کرتا، کس کا شعر ہے۔ تیور تو اقبال ؔ کے سے ہیں
اگر یک قطرہ خوں داری اگر مشتِ پرے داری
بیا بہ من کہ آموزم طریقِ شاہبازی را
1950ء کے عشرے میں چند ایک با ہمت لوگوں کو خواب کی توفیق نصیب ہوئی۔ تعمیرِ ملّت ہائی سکول کی انہوں نے بنیاد رکھی۔ زمین کا وسیع وعریض قطعہ چوہدری امانت علی نے عطا کیا۔ چوہدری نذیر احمد، ڈاکٹر محمد بشیر، ڈاکٹر محمد نذیر مسلم اور چند دوسرے ایثار پیشہ اٹھے اور ایک نیا جہان تخلیق کرنے کی تمنا پالی۔ کتنے ہی انجینئرز، ڈاکٹر اور دانشور ا س درس گاہ سے ابھرے اور اکنافِ عالم میں پھیل گئے۔ امریکہ میں مقیم ڈاکٹر محمد سعید باجوہ ان میں سے ایک ہیں، جنہیں دنیا کا سب سے بڑا برین سرجن کہا جاتاہے۔
سعید اس وقت ساتویں کلاس کے طالبِ علم تھے۔ یاد نہیں پڑتا کہ اس مہم میں وہ ہمراہ تھے یا نہیں۔ میرے ہم جماعت مرحوم ڈاکٹر محمد طارق کی طرح وہ بیبے بچّے تھے۔ شائستہ اطوار، ماں باپ اور اساتذہ کا کہا ماننے والے۔ قاسم باجوہ، خالد بشیر اور اس ناچیز کی طرح نافرمان اور گنوار نہیں۔ ہمارے مکرم استاد انیس صاحب کبھی زچ ہوتے تو جھلا کر کہتے " ہش جنگلی"یا "ارے او بیل۔
"رحیم یار خان سے یہ جنگلی اور بیل اپنے بادشاہ کو دیکھنے آئے تھے۔ یہ الگ بات کہ کچھ دن میں ہوا دوسری چلی۔ مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح سیاسی افق پہ نمودار ہوئیں اورباغی حبیب جالب کی آواز چاروں اور گونجنے لگی۔
بچوں پہ چلی گولی
ماں دیکھ کر یہ بولی
میں دور کھڑی دیکھوں
یہ مجھ سے نہیں ہوگا
ایوب خان جدید پاکستان کے معمار تھے۔ جو کارنامہ انہوں نے انجام دیا، ان کے بعد کوئی دوسرا نہ کر سکا۔ جدید صنعتوں کی بنیاد رکھی اور ایک قدامت پسند قوم کو عصرِ نو سے ہم آہنگ کرنے کی کوشش کی۔ تضاد بھی بروئے کار تھا۔ عوامی تائید اور شراکت کی بجائے فوج اور اشرافیہ کے بل پر حکومت کرنا چاہی۔ کدھر یہ بے تاب بادشاہ، ایک طرف کمیونزم کے وہ علمبردار، جو خود کمیونزم کا معانی بھی سمجھتے نہیں تھے۔ مفروضوں کی دنیا میں جینے والے ترقی پسند ادیب اور شاعر۔ دوسری طرف قدامت پسندی کے مارے اسلامی نظام کے علمبردار ملّا، جن کی ایک نشانی مولانا فضل الرحمٰن کی شکل میں باقی گئی ہے۔ بے چینی بڑھی، ہنگامے پھیلتے گئے اور ملک ادبار کے دور میں داخل ہو گیا، اب تک جو جاری ہے۔
ایوب خان کی حماقت ان کے کارنامے سے کم نہیں تھی۔ قوم کے سامنے سر جھکانے کی بجائے مادرِ ملّت کو انہوں نے غدّار کہا اور دھاندلی کی۔ قوم کی اکثریت قائدِ اعظم کی بہن پہ متفق تھی۔ ان کی معزز، محترم اور مقبول شخصیت نے ملک کو پوری طرح متحد رکھنے کے امکانات اجاگر کر دیے تھے۔ اس انتخابی دھاندلی کے علاوہ جوبعد میں آغا محمد یحییٰ خاں، شیخ مجیب الرحمٰن اور ذوالفقار علی بھٹو نے برباد کر دیے، اقتدار کے بھوکوں نے۔
ایوب خاں ایک شاندار منتظم اور کامیاب رہنما تھے۔ انہی کے دور کی بچھائی صنعتیں آج بھی ہمیں زندہ رکھے ہیں۔ مسئلہ ان کا وہی تھا، جو نجات دہندہ عمران خان کا ہے۔ خود کو وہ بھی برگزیدہ سمجھتے تھے۔ یہ ایسا مرض ہے، جس کا علاج شاذ ہی کبھی ہوا ہوگا۔ خبطِ عظمت ہم اسے کہتے ہیں۔ schizophreniaکی نفسیاتی اصطلاح بھی غالباً اس پر منطبق ہوگی۔ عجیب بات یہ ہے کہ اس باب میں ذوالفقار علی بھٹو ان سے بھی بڑھ کر نکلے۔ بھٹو کا بس نہ چلتا تھا ورنہ شاید اپنی ہی تصویر کو سجدہ کرتے۔ بے حد پڑھے لکھے، بہت ذہین اور تردماغ لیڈر۔ اپنی نوعیت کے منفرد خطیب اور لکھنے والے۔ عوامی احساسات سے خوب آگاہ اور عصری تحریکوں کا ادراک رکھنے والے۔ ایٹمی پروگرا م کی بنیاد رکھی، سمندر پار کے دروازے عام پاکستانیوں پہ چوپٹ کھول دیے۔ بھارت اور امریکہ کو ٹھکانے پر رکھا اور آئین بنایا، مگر وہ نرگسیت جو سب کچھ پامال کر ڈالتی ہے۔
وہ یہ بھول گئے کہ اس دنیا کا کوئی مالک ہے۔ ہر آدمی کوکچھ مہلت، صلاحیتیں، اور ایک کردار بخشا گیا ہے۔ کیسا ہی شہ دماغ ہو، اس کا یہ کردار محدود ہوتاہے۔ اپنے آپ سے محبت اور غرور آدمی کی متاع نہیں، بلکہ انکسار۔ صلاح الدین، ٹیپو سلطان، ڈیگال، ابرہام لنکن اور محمد علی جناح ایسے کردار اسی عاجزی کے بل پر دائم جیتے ہیں۔ کوئی بھٹو، سوئیکارنو اور رضا شاہ پہلوی نہیں۔ ایک جذباتی اور سطحی قوم میں کسی مقبول رہنما کی وراثت چند عشرے باقی رہ سکتی ہے لیکن بالآخر تحلیل۔ ابدیت سفر کو ہے، مسافر کو نہیں۔ کل من علیہا فان۔ و یبقیٰ وجہ ربک ذوالجلال والاکرام۔ اس زمین پر جو کچھ ہے، فنا ہونے والا ہے۔ باقی رہے گا تیرے رب کا چہرہ عظمت اور بزرگی والا۔
جنرل محمد ضیاء الحق، بے نظیر بھٹو، جنرل پرویز مشرف اور نواز شریف نے باقی رہنا چاہا لیکن باقی کون رہ سکتا ہے۔
پہاڑ کاٹنے والے زمیں سے ہار گئے
اسی زمین میں دریا سمائے ہیں کیا کیا
عظیم رہنما راستہ دکھاتے ہیں، لیکن معاشروں کی نجات کسی ایک لیڈر کی حوصلہ مندی اور شہ دماغی میں نہیں ہوتی بلکہ قوموں کی بیداری میں۔ یہی نکتہ اہم ہے اور یہی نظر انداز۔