ٹھیک دس سال پہلے یہی وہ دن تھے، ایبٹ آباد میں جب وہ مشہور واقعہ رونما ہوا، جس نے ملک کے درو دیوار کو ہلا کر رکھ دیا۔ امریکیوں نے چھاپہ مارا اور اسامہ بن لادن کو قتل کر ڈالا۔ اس آدمی کو، سی آئی اے کو مدت سے جس کی تلاش تھی۔یہ تو سب جانتے ہیں کہ اس کا سراغ ایک ڈاکٹر کے توسط سے لگایا گیا۔ پھر امریکی صدر باراک حسین اوبامہ کے حکم پر سی آئی اے اور امریکی فضائیہ نے اسے اغوا یا ہلاک کرنے کا منصوبہ بنایا۔ باقی تاریخ ہے۔
قرائن اور شواہد کہتے ہیں کہ یہ منصوبہ صرف اس آدمی کو معدوم کرنے کی حد تک نہ تھا، سالہا سال سے جس نے امریکیوں کی نیندیں حرام کر رکھی تھیں۔ جذبہ انتقام کو بھڑکا رکھا تھا۔ ساتھ ہی ساتھ، پروپیگنڈہ کا ایک منصوبہ بھی بروئے کار آیا کہ پاکستان پر اسے چھپانے کا الزام عاید کیا جائے۔ پاکستان میں امریکی لابی، بھارت اور سب سے بڑھ کر مغربی پریس نے اس مقصد کے لئے ایک بھرپور مہم برپا کی۔
عمومی طور پر پاکستان ہدف تھا مگر ایک خاص شخصیت بھی، امریکی جس سے ناراض تھے، بہت ناراض۔ پاکستان کی بری فوج کے سربراہ جنرل اشفاق پرویز کیانی۔ پاکستان میں ہمیشہ سے سرگرم امریکی لابی کے علاوہ کئی ممتاز اخبار نویس بھی اس مہم کا خوش دلی سے حصہ بنے۔ جنہیں شکایت تھی کہ جنرل کی بریفنگ میں کیوں وہ مدعو نہیں کئے جاتے۔ ان میں سے دو ایک اب بھی اپنے عناد کو کالموں میں رقم کرتے اور ٹی وی مباحثوں میں اچھالتے رہتے ہیں، زہریلے لہجوں میں۔
جنرل غیبت کا عادی نہیں۔ بہت کم وہ کسی شخص کے بارے میں اظہار خیال کرتا ہے، ایک بار البتہ ان دونوں کے نام لے کر اس نے کہا"خود کو وہ پیمبر ہی سمجھتے ہیں "۔
امریکی انہیں پسند نہ کرتے تھے۔ مائیکل مولن، رچرڈ ہالبروک، ہیلری کلنٹن اور جنرل پیٹریاس، ان میں سے ہر ایک کے ساتھ جنرل کی ملاقات اس کے لئے ایک امتحان ہوتی۔ ایک بار اپنے دوست سے ہیلری کلنٹن کے بارے میں انہوں نے کہا:بڑی ہی تلخ گفتار ہے" اس دانا آدمی نے، جنرل سے جس کی بے تکلفی تھی اور باہمی اعتماد کا گہرا رشتہ، اسے مشورہ دیتے ہوئے کہا:وہ ایک جذباتی خاتون ہے اور جذباتی لوگوں سے نمٹنا مشکل نہیں ہوتا۔ اب کی بار آپ ایسا کیجئے گا کہ دس پندرہ منٹ اسے بولنے دیجیے۔ جب دل کا غبار وہ نکال چکے، کہنے کے لئے اس کے پاس کچھ باقی نہ رہے تو دھیمے لہجے میں جواب کا آغاز کیجیے۔ دوبارہ بھڑکے تو پھر سے زہر اگلنے کا موقع دیجیے۔ کب تک وہ چیخ سکے گی؟ اس کے بعد دلائل کے ساتھ آپ اپنا موقف واضح کیجیے۔ جنرل نے ایسا ہی کیا۔
لگ بھگ دو برس کے بعد سوات میں جنرل سے ملاقات ہوئی۔ یہ دہشت گردی کے موضوع پر سیمینار تھا۔ وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کے علاوہ سپہ سالار کو اس سے خطاب کرنا تھا، ملک بھر سے اخبار نویس مدعو کئے گئے اور بعض ممتاز سیاسی شخصیات بھی۔ ان میں اپوزیشن رہنما بھی شامل تھے۔ اے این پی کے رہنما میاں افتخار حسین بھی۔ کھانے کی میز پر ہلکی پھلکی گفتگو جاری تھی۔ ذہین و فطین جنرل اطہر عباس سے مذاقاً کہا:ایک چھوٹا سا کام کر دیجیے۔ ہمارے بھائی مشاہد حسین کو وزیر خارجہ بنوا دیجیے۔ حسب توقع اس پر ایک قہقہہ بلند ہوا۔ معلوم نہیں کیوں میاں افتخار حسین کو یہ بات ناگوار گزری۔ چمک کر بولے "کچھ لوگ عمران خان کو وزیر اعظم بنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ وہ تک جائیں گے" کوئی جواب نہ دیا۔ کچھ سوالوں کا جواب وقت خود دیا کرتا ہے۔
امریکیوں، بھارتیوں، پاکستان میں ان کے کارندوں اور ناراض اخبار نویسوں کے علاوہ بھی جنرل کے کئی دشمن تھے۔ سرکارﷺ کا فرمان ہے "ہر صاحب نعمت سے حسد کیا جاتا ہے" ایک حوالدار کا فرزند محض اپنی ریاضت سے چیف آف آرمی سٹاف بن گیا تھا۔ اس کے لئے اس نے براہ راست یا بالواسطہ کوئی فرمائش کی نہ کسی کو لبھانے کی کوشش۔ کیا یہ کوئی معمولی گناہ تھا جو معاف کر دیا جاتا۔
ریٹائرڈ فوجی افسروں کا ایک گروہ بھی درپے رہتا۔ کریدنے کی کوشش کی لیکن جنرل نے ان کے نام نہ بتائے۔ عرض کیا نا شخصیات کے بارے میں بات کرنا اسے پسند نہیں۔ صرف یہ کہا:کچھ مراعات کے وہ طالب تھے۔ میرے لئے مشکل تھا کہ ان کے مطالبات پورے کرتا۔ پیہم یہ لوگ جنرل کی کردارکشی پہ تلے رہتے۔ اخبار نویسوں کو جھوٹی سچی کہانیاں سناتے جن میں سے بعض شائع ہو جاتیں۔
جنرل ایک عجیب آدمی ہے۔ گالی بکنے اور الزام تراشی کرنے والے کو جواب نہیں دیتا۔ خوئے انتقام اسے چھوکر بھی نہیں گزری۔ اس انداز فکر کی جڑیں اس کی شخصیت اور زندگی میں پوشیدہ ہیں۔ کچھ امتحان میں، جو اچانک اس پر ٹوٹ پڑا تھا اور مدتوں جاری رہا۔
ابھی وہ ایک نوجوان آدمی تھا، پاک فوج میں کیپٹن کے منصب پر فائز، جب اس کے والد انتقال کر گئے۔ خاندان کی ذمہ داری اس پہ آ پڑی اور یہ ایک مشکل ذمہ داری تھی، ایک خوددار آدمی کی طرح تنہا اس نے یہ بوجھ اٹھانے کا فیصلہ کیا۔ جنرل اپنے دل کی حکایت بیان کرنے والا آدمی نہیں۔ اگر وہ بیان کرے تو یہ مہ و سال ملک کی عسکری تاریخ کا حصہ بن سکتے ہیں۔
ایک نہیں بار بار اسے مخالف مہمات کا سامنا رہا۔ ہمیشہ اس نے صبر سے کام لیا۔ اس آدمی کی طرح جسے دریا کی مخالف سمت تیرنا پڑے۔ حرف شکایت خال ہی کبھی زبان پر لایا اور وہ بھی کسی قریبی دوست کے ساتھ خلوت میں۔
مثال کے طور پر 2010ء میں تین سال کی توسیع، جب اخبارات میں اس کے خلاف ناختم ہونے والا سلسلہ شروع ہوا۔ ہمیشہ کی طرح اس نے فیصلہ کیا کہ وہ جواب نہ دے گا۔ تھوڑا سا افسردہ و غمزدہ تو یقینا وہ تھا لیکن اپنے ہونٹ اس نے سیئے رکھے۔
اس زمانے میں جنرل سے ناچیز کی ملاقات رہتی۔ ہر دو تین ماہ بعد سرشام ان کا پیغام ملتا کہ "ساڑھے نو بجے آپ تشریف لا سکتے ہیں؟ "۔ ظاہر ہے کہ جواب ہمیشہ اثبات میں ہوتا۔ اگر چار ساڑھے چار گھنٹے، کبھی اس سے زیادہ بھی، ایک معمولی وقائع نگار کو میسر آتے، بے تکلفی سے جس میں وہ عظیم بحران میں مبتلا فوج کے سربراہ سے بات کر سکتا، تو اور کیا چاہیے تھا؟ اندھا کیا چاہے دو آنکھیں۔ ان تعلقات کا آغاز غیر متوقع طور پر ہوا، 2008ء میں جنرل نے فیصلہ کیا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کے بارے میں منتخب اخبار نویسوں کے ساتھ آف دی ریکارڈ وہ بات کیا کرے گا۔
ساڑھے نوبجے تک یہ پہلی ملاقات تھی، اسلام آباد اور لاہور کے بیس منتخب صحافی جس میں مدعو تھے۔ ساڑھے نو بجے ہی کیوں؟ اس لئے کہ دن بھر وہ ایک مزدور کی طرح کام میں جتا رہتا۔ دفتر سے واپسی پر سہ پہر ایک آدھ گھنٹے کے لئے سو جاتا۔ سو کر اٹھتا تو کچھ دیر ورزش کرتا۔ سفید شلوار اور خالی کرتا پہن کر پھر اسی کام میں جت جاتا۔ رات کا کھانا کھا کر وہ لائبریری میں جا بیٹھتا یا پھر کسی ایک شخص یا گروپ کے ساتھ تادیر گفتگو کیا کرتا۔
غیر روائتی انداز میں یہ معلومات حاصل کرنے اور مختلف نکتہ ہائے نظر تک رسائی کا بہترین طریقہ ہے۔ تاریخ کے اکثر کامیاب حکمران اس طریق کے خوگر رہے ہیں۔ پاک فوج کا سربراہ بھی اکثر ایک حکمران ہی ہوتا ہے۔ دو صورتوں میں، ایک تو یہ کہ سیاسی حکمران دفاعی معاملات میں غیر ذمہ داری کا عادی ہو، ثانیاً اقتدار کی ہوس، غلبے کی جبلت، ازل سے جو آدمی کے ساتھ چلی آتی ہے۔ زندہ رہنے کی خواہش کے سوا جو شاید سب سے طاقتور جبلت ہے۔
2008ء کے اس موسم خزاں کی پہلی ملاقات میں دائیں ہاتھ قدرے فاصلے پر پڑی ایک کرسی پر، دوسروں کے ساتھ یہ ناچیز بریفنگ کا منتظر تھا۔ جنرل نے اچانک اسے مخاطب کیا۔"آپ یہاں آ جائیے"۔ اپنے ساتھ پڑی کرسی پر انہوں نے ہاتھ رکھا۔ تب اس التفات کا سبب معلوم نہ تھا۔ بعد میں یہ راز کھلا اور اس میں چھپانے کی کوئی بات نہیں۔ اس کی بنیاد ایک مشترک ذوق پہ تھی، جس کا تعلق اردو ادب کے ساتھ تھا۔ اس کہانی میں کئی اور نام بھی ہیں، مثلاً مشہور شاعر افتخار عارف، جنرل کی فرمائش پر جنہوں نے اس کے لئے اردو ادب کی ایک سو کتابوں کی فہرست، نہایت ریاضت کے ساتھ مرتب کی تھی، یہ بات ان کے ایک ہم عصر کو معلوم ہوئی تو حسد میں جلتے بھنتے رہے۔
اس کرسی پر جا بیٹھا تو جنرل نے پیکٹ نکالا، میری طرف بڑھاتے ہوئے کہا:سگریٹ پئیں گے؟ اس خامہ نویس کی حس مزاح گاہے بے وقت بروئے کار آتی ہے۔ عرض کیا:اسی لئے تو میں آپ کے پاس آن بیٹھا ہوں۔ اپنے سگریٹ میں گھر بھول آیا ہوں۔
جنرل کے چہرے پر کوئی تاثر نہ ابھرا۔ اپنے جذبات چھپانے میں ان کا کوئی ثانی نہیں، جس طرح کہ کسی بھی راز کو عام کرنے میں میرے سابق دوست عمران خان کا مدمقابل کوئی ہو نہیں سکتا۔ ایک اور محترم دوست یاد آیا۔ افغانستان کا سابق وزیر اعظم گلبدین حکمت یار۔ ضرورت کے سوا جو ایک بھی لفظ زبان سے نہیں نکالتے۔ حکمت یار کا البتہ یہ ہے کہ سوال کا جواب نہ دینا چاہیں تو مختصر سی بات ضرور کرتے ہیں۔ ٹال دیتے ہیں یا چابک دستی سے موضوع بدل ڈالتے ہیں۔ وہ ایک اٹوٹ خاموشی اختیار کر لیتے ہیں۔ نہ ٹوٹنے والی برف کی طرح۔ جو کوئی سوال نہیں کرتی، جواب نہیں دیتی۔
لگ بھگ دو برس بعد، شب دو بجے بریفنگ ختم ہوئی تو اشارتاً ان سے کہا کہ علیحدگی میں کچھ عرض کرنا ہے، وہ مجھے اپنے دفتر لے گئے۔ (جاری ہے)