چاند نور بکھیرتا، رہا ستارے قریب آگئے، اتنے قریب کہ گویا چھوئے جا سکتے ہیں۔ ریگزار سے آنے والی ہوا رات بھر کہانی کہتی رہی۔
ایک شاعر کی حیثیت سے اسد رحمن کو بہت کم لوگ جانتے ہیں جو جانتے ہیں، وہ بھی ان کے اس شعر کی بدولت، جو ضرب المثل ہو گیا ہے۔
بخت کے تخت سے یکلخت اتارا ہوا شخص
تو نے دیکھا ہے کبھی جیت کے ہارا ہوا شخص
پنجاب یونیورسٹی سے اردو، انگریزی اور قانون کی تعلیم پانے والا آدمی، میانوالی کے قصبے پپلاں کے نواح میں سرسبز کھیتوں میں بسر کرتا ہے۔ کھجوروں کے وسیع و عریض باغ اور شیشم کے درختوں کی ایک طویل قطار کے درمیان، اپنے خاندان اور چند ملازمین کے ہمراہ۔ گھر اس کا قصبے میں ہے۔ پھر اخبارات و جریدوں میں وہ چھپتا نہیں، مشاعروں میں کم کم جاتا ہے۔ کوئی پوچھے تو یہ کہتا ہے:وہ شعر مجھے ابھی لکھنا ہے جو لوگوں کو سنا سکوں، باون ترپن سال کا ہونے کو آیا۔ یہ شعر اسے کب لکھنا ہے؟
اگرچہ اس کی نیابت میں عمر گزری ہے
کرم خدا کا رہا ہے خدا نہیں ہوا میں
بس اگلے پل ہی اٹھا تھا میں جھاڑ کر خود کو
گرا ضرور تھا لیکن پڑا نہیں ہوا میں
٭٭٭
اس کے مرنے پہ وہی چمکے گا
ہے جو منظورِ نظر سورج کا
رات یوں مجھ سے کہاں کٹتی تھی
ایک وعدہ تھا مگر سورج کا
منجمد برف کے زندان میں ہوں
دیکھئے کب ہو گزر سورج کا
دے دیے موم کے پر اس کو بھی
جس نے کرنا تھا سفر سورج کا
جو نہیں اپنی جگہ اور کہیں پر کیوں ہے
داغ سینے میں نہیں ہے تو جبیں پر کیوں ہے
اتنے اقرار تو سجدوں میں ہوئے تھے صاحب
پھر یہ اظہارِ عجب ایک نہیں پر، کیوں ہے
وہ جسے عرصۂ امکان میں لا پھینکا تھا
اْس سے پوچھا بھی کہ وہ خاک وہیں پر کیوں ہے
گھر کی دیوار کو حق ہے کہ وہ چھت سے پوچھے
یہ ترا بوجھ جو ہے سارا مکیں پر کیوں ہے
کچھ تو ابہام کے پردوں کو ہٹائے وہ بھی
سارا الزام فقط میرے یقیں پر کیوں ہے
آسماں رشک سے یوں مجھ کو بلاتا ہے کہ دیکھ
جو سرِ عرش نہیں ہے وہ زمیں پر کیوں ہے
٭٭٭
جو اونچے نام ہیں حسبِ خطاب بکتے ہیں
اوراس پہ یہ بھی ستم ہے شتاب بکتے ہیں
مجھے یہ ڈرہے کہ آنکھیں گنوا نہ دے پاگل
اْسے کسی نے کہا ہے کہ خواب بکتے ہیں
٭٭٭
پہلے مرے خَذَف سے یہ موتی نکال دے
پھر ساحلوں کی ریت پہ چاہے اچھال دے
جا آئینے میں دیکھ کہ مَیں کس کا عکس ہوں
اک بے جہت جواب کو اس کا سوال دے
لینے گیا تھا کس کی خبر مدتیں ہوئیں
اب کوئی آ کے مجھ کو ذرا میرا حال دے
اس بیش و کم کی دوڑ میں شامل نہیں ہوں مَیں
مجھ کو جو رزق دے مرے مالک حلال دے
٭٭٭
بخت کے تخت سے یکلخت اتارا ہوا شخص
تْو نے دیکھا ہے کبھی جیت کے ہارا ہوا شخص
ہم تو مقتل میں بھی آتے ہیں بصد شوق و نیاز
جیسے آتا ہے محبت میں پکارا ہوا شخص
کب کسی قرب کی جنت کا تمنائی ہے
یہ ترے ہجر کے دوزخ سے گزارا ہوا شخص
بعد مدت کے وہی خواب ہے پھر آنکھوں میں
لوٹ آیا ہے کہیں دور سِدھارا ہوا شخص
یوں اندھیرے نہیں لیتے ہیں بلائیں اْس کی
روشنی بانٹ گیا دیپ پہ وارا ہوا شخص
موت کے جبر میں ڈھونڈی ہیں پناہیں اس نے
زندگی یہ ہے ترے لطف کا مارا ہوا شخص
ایسے حالات کی چھلنی سے گزارا خود کو
آ گیا ہاتھ مرے مجھ سے نتھارا ہوا شخص
٭٭٭
گفتگو ایسے بڑھاتا ہوں کہ کچھ بات کھلےپردۂ لا میں جو مستور ہے وہ ذات کھلےمنکشف ہوتے ہیں اس آن میں رندوں پہ جہاں کہر میں لپٹے ہوئے چاند پہ جب رات کھلےدل بھلے تنگ سہی ذہن کشادہ ہوتاشہرِ گنجان بھی رکھتا ہے مضافات کھلے۔
مجھ کو چلنے جو نہ دیتی تو میں اڑتالیکن
نہ زمیں تنگ ہوئی ہے نہ سماوات کھلے
ایک بازی میں ہوئے ایسے خسارے صاحب
ہم نے آنکھیں ہی نہیں خواب بھی ہارے صاحب
اس نے ہاتھوں کی لکیروں کو سدا رونا ہے
جس پہ ہنستے ہوں مقدر کے ستارے صاحب
تم کسی کے بھی کسی کے بھی کسی کے بھی نہیں
سب تمہارے ہیں تمہارے ہیں تمہارے صاحب
مات پر رقص کیا جیت کے آزردہ ہوئے
کوئی کھیلے بھی تو کیا ساتھ ہمارے صاحب
کلاسیکی لہجہ، ایسا لگتا ہے کہ شب و روز اساتذہ کے ساتھ اس نے بتائے ہیں۔ ہفتے کی شام اور شب اس کے ساتھ بتائی۔ حتیٰ کہ ستارے ماند پڑنے لگے اور دور مسجد سے موذن کی آواز سنائی دی۔ پیشہ کاشت کاری، مشغلہ ظاہر ہے کہ شاعری۔ عجیب بات یہ کہ وہ ایک اچھا منتظم بھی ہے۔ ویرانے کو پسینہ بہا کر گلزار کیا ہے۔ شہر کی زندگی سے دور تازہ ہوا میں شاد رہتا ہے۔ اس سے بھی زیادہ حیران کن یہ کہ اپنی آمدن اور وقت کا قابل ذکر حصہ خلق خدا کی خدمت میں صرف کرتا ہے۔
وہی لوگ شادمان ہوتے ہیں جو اپنی ذات سے گزر جائیں۔ ایک عجیب سرشاری کے عالم میں ڈاکٹر امجد ثاقب نے، جو ازراہ کرم ہمراہ تھے، اسد رحمان اور اس کے ساتھیوں کو منیر نیازی کا شعر سنایا:
بیٹھ جائیں سایہ دامان احمد میں منیر
اور ان باتوں کو سوچیں جن کو ہونا ہے
چاند نور بکھیرتا رہا ستارے قریب آگئے، اتنے قریب کہ گویا چھوئے جا سکتے ہیں۔ ریگزار سے آنے والی ہوا رات بھر کہانی کہتی رہی۔