وزیرِ اعظم اور ان کے نقاد خدا جانے کیا چاہتے ہیں۔ جی چاہتا ہے کہ رفتگاں کی کہانی لکھوں۔ جی چاہتا ہے کہ اپنے دوست فاروق گیلانی اور ماسٹر محمد رمضان سے لے کر لالیاں کے مہرحبیب سلطان تک، سبھی کی۔ اس سچی اور کھری روحانیت کی جو آدمی کو حیوانیت سے نجات دلاتی اور بالیدگی عطا کرتی ہے۔
اللہ جانے سبب کیا ہے، جانے والوں کی یاد اب زیادہ آنے لگی ہے۔ حضرتِ اظہار الحق سے عرض کیا کہ فاروق گیلانی پر لکھی گئی اپنی نظم ارسال فرمائیں، انتظار میں ہوں۔ سویر اٹھا تو چند جملے مرحوم کے باب میں لکھے۔ پھر احساس ہوا کہ یہ تو صدیوں پہ پھیلی داستان ہے۔ کئی سو برس پہلے غزنی کا ایک سید بھائیوں سے بگڑا تو کشمیر کا رخ کیا۔ ایک شب گجرات کے ایک چھوٹے سے گائوں کی مسجد میں قیام کیا تو بستی والوں نے پائوں پکڑ لیے۔ سید کی اولاد اس دیار میں پھلی پھولی۔ رفتہ رفتہ، جیسا کہ ہمیشہ ہوتا ہے، بر صغیر کی وسعتوں میں پھیل گئی۔ ممبئی کے ساحل سے پشاور تک۔ سیاست سے شاعری اور رزم آرائی سے حکمرانی تک۔ اسی خاندان کی ایک خاتون کا نام نوشی گیلانی ہے، مشہور اور مقبول شاعرہ جو اب آسٹریلیا میں مقیم ہیں۔
سویر اٹھا توبی بی جی کی صورت نگاہوں میں پھرنے لگی۔ مائوں کو اپنی اولاد سے، اولاد کو مائوں سے محبت ہوتی ہے۔ یہ جذبہ آدمی کی فطرت میں ودیعت ہے۔ جانوریا پرندے کا بچّہ پیدا ہوتے ہی پائوں پہ کھڑا ہو جاتاہے۔ بس کوئی دن کا محتاج۔ پھر دانہ دنکا چگنے، پرواز کرنے یا شکار کھیلنے لگتاہے۔ آدم کی اولاد انحصار کرنے والی ہے۔ رزق ہی نہیں، اسے تحفظ، تربیت اور رہنمائی کی ضرورت بھی ہوتی ہے۔ ماں باپ اور اولاد کے رشتے کا جہاں کہیں ذکر ہے، اس میں ایک انس، وارفتگی بلکہ والہانہ لگائو کے مطالبے کا احساس ہوتاہے۔
ہر نماز میں آدمی اپنے ماں باپ کے لیے دعا کرتاہے۔ ایک دعا یہ ہے: رب ارحمھما کما ربیٰنی صغیرا۔ اے اللہ میرے ماں باپ پہ اس طرح رحم فرما، جس طرح کہ بچپن میں محبت اور ذمہ داری کے ساتھ انہوں نے مجھے پالا پوسا۔ ذکرِ پروردگار کو جو انسان کی زندگی کا اہم ترین، افضل ترین عمل ہے، اللہ نے اجداد کی یاد سے تشبیہ دی ہے: اس طرح اپنے مالک کو یاد کرو، جیسے اجداد کو کرتے ہو بلکہ اس سے بھی زیادہ۔ یعنی انس اور الفت کے ساتھ۔ ان مہربانیوں اور عنایات کی بازگشت کے ساتھ، جو ماں باپ نے روا رکھیں۔ اللہ کے آخری رسولؐ نے بندوں کے ساتھ اللہ کی محبت کو باور اور اجاگر کرنے کے لیے ماں ہی کی محبت کا ذکر کیا تھا : اپنے بندوں کو وہ ستّر مائوں سے زیادہ چاہتا ہے۔ خورشید رضوی کی مناجات یہ ہے
کتنا احسان ہے تیرا یہ عنایت کرنا
تجھ کو منظور ہوا مجھ سے محبت کرنا
دل کو دریوزۂ کثرت میں نہ الجھا دینا
مجھ کو ہر سانس میں تنہا تو کفایت کرنا
مقطع پڑھتے ہوئے بی بی جی یاد آئیں۔ کس رسان کے ساتھ دریوزہء کثرت سے اس خاتون نے نجات پالی تھی، جو صرف قرآن مجید پڑھ سکتی تھیں۔ ایک دن بڑے بھائی پہ بگڑیں تو ان سے یہ کہا : سارا دن تسبیح رولتے پھرتے ہو، جی لگا کر قرآن کیوں نہیں پڑھتے۔ کیا عجب ہے کہ دو لفظوں پہ مشتمل یہ آیت ان کے لیے کافی ہو گئی ہو : الھٰکم التکاثر۔ کثرت کی آرزو آدمی کو تباہ کرتی ہے۔
سحر قرآنِ کریم کی ایک آیت پڑھنے کا اتفاق ہوا، اس پہ غور کرتے ہوئے، ایک بار پھر ان کا چہرہ نگاہوں میں ابھرا۔ ایک بشاش اور مہربان نگاہ، جس میں ذرا سا ایک شکوہ بھی تھا: تم نے مجھے بھلا دیا۔
"نہیں، قسم ہے اس شہر کی۔ جس شہر میں تیرا قیام ہے اور قسم ہے باپ (آدمؑ) اور اس کی اولاد کی۔ بے شک انسان کو ہم نے مشقت میں پیدا کیا ہے۔ کیا اس نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ کوئی اس پر قابو نہ پا سکے گا؟ کہتا ہے کہ ڈھیروں مال میں نے اڑا دیا۔ کیا وہ سمجھتا ہے کہ کسی نے اس کو نہیں دیکھا؟ کیا ہم نے اسے دو آنکھیں اور ایک زبان اور دو ہونٹ نہیں دیے۔ کیا (نیکی اور بدی کی) دونوں اجاگر راہیں اسے دکھا نہیں دیں؟ مگر اس نے دشوار گزار گھاٹی سے گزرنے کی ہمت نہیں کی۔ اور تمہیں کیا خبر کہ کیا ہے وہ دشوار گزار گھاٹی؟ کسی گردن کو غلامی سے چھڑانا یا فاقے کے دن کسی قریبی یتیم یا خاک نشیں مسکین کو کھانا کھلانا۔
روحانیت کا لفظ وزیرِ اعظم نے پانچ بار ادا کرنے کی کوشش کی اور ناکام رہے۔ پھر کسی نے احتجاج کیا کہ روحانیت کی نہیں، ملک کو ترقی اور شعور کی ضرورت ہے۔ روحانیت کے بغیر؟ پروردگار اور یومِ آخرت پہ ایمان لائے بغیر؟ عالمگیر اخلاقی اقدار کی پاسداری کیے بغیر؟ یعنی حیوانیت؟ سابق صدر جمی کارٹر نے کہا تھا کہ صرف بارہ برس ہیں، جب امریکہ کسی داخلی یا خارجی جنگ میں مبتلا نہ تھا۔ عراق اور افغانستان تو آج کی بات ہے، ویت نام ابھی کل کی۔ پانچ کروڑ سے زیادہ ریڈ انڈینز کا قتلِ عام، برّ اعظم افریقہ سے کئی کروڑ ان کالوں کا اغوا، جن میں سے آدھے بحری جہازوں کے حبس میں ہلاک ہوئے۔ باقی آدھے صدیوں تک غلام۔ اور ابھی کچھ دیر پہلے ایران پہ بحری بیڑہ چڑھا دیا ہے۔ روحانیت کے بغیر، آدمی کیا حیوانیت سے نجات پا سکتا ہے؟
تمام مذاہب کے بنیادی اخلاقی اصول ایک ہیں۔ صلہ رحمی، افتادگانِ خاک پہ رحم و کرم، صداقت شعاری، جھوٹ اور جبر سے گریز۔ کسی سیکولر مفکر نے کبھی کوئی اخلاقی اصول بنی نوع انسان کو عطا نہیں کیا۔ زیادہ سے زیادہ یہ کہ مذہبی طبقات کی منافقت، ریاکاری اور استحصال کے خلاف احتجاج کی آواز بلند کی مگر شاہ حسین اور بلھے شاہ نے ان سے زیادہ۔ نکتہ یہ ہے کہ مذہب اپنی پوری روح کے ساتھ جب نافذ ہو تو مذہبی طبقے کا وجود ہی نہیں ہوتا۔ وہ زوال میں پروان چڑھتا ہے۔
چالیس برس پہ پھیلی رفاقت اور فاروق گیلانی کی داستاں تیرہ چودہ سو الفاظ میں رقم نہیں کی جا سکتی۔ بی بی جی کی تو بالکل ہی نہیں۔ 78سال کو محیط ایک قابلِ رشک زندگی، جس میں تقریباً ہر دشوار گزار گھاٹی انہوں نے عبور کر لی۔ عسرت یا خوشحالی، دور دراز تک کے غریب رشتے داروں کو یاد رکھا، ان کی دستگیری کرتی رہیں۔ دروازہ کھٹکھٹانے والے ہر بچّے اور خاتون کی بات سنی۔ آخر آخر کو عالم یہ تھا کہ جو کچھ ہاتھ میں ہوتا، سونے سے پہلے خیرات کر دیتیں۔
جتلانا تو بہت دور کی بات ہے، کبھی تذکرہ تک پسند نہ کرتیں، کبھی اشارہ تک نہ کرتیں۔ ان کی وفات پر دھاڑیں مار مار کر رونے والی عورتوں کا ہجوم تھا۔ فیصل آباد سے چار پانچ سو کلومیٹر پرے، رحیم یار خاں کی ایک گرد آلود گلی کے خوبصورت مکان میں، زندگی کے آخری ایام انہوں نے بسر کیے تھے۔ اب وہ وہاں نہیں تھیں لیکن گریہ کرنے والی عورتوں سے گھر اور گلی بھر گئی تھی۔ ان سب کے لیے وہ ایک مہربان ماں کی طرح تھیں۔
وزیرِ اعظم اور ان کے نقاد خدا جانے کیا چاہتے ہیں۔ جی چاہتا ہے کہ رفتگاں کی کہانی لکھوں۔ جی چاہتا ہے کہ اپنے دوست فاروق گیلانی اور ماسٹر محمد رمضان سے لے کر لالیاں کے مہرحبیب سلطان تک، سبھی کی۔ اس سچی اور کھری روحانیت کی جو آدمی کو حیوانیت سے نجات دلاتی اور بالیدگی عطا کرتی ہے۔