ہم کیسے لوگ ہیں کہ درد بھی ہمیں جگاتا نہیں۔ کوئی اور تو کیا، جیتے جاگتے لہو کی پکار بھی سنائی نہیں دیتی۔
دل گیا رونقِ حیات گئی
غم گیا ساری کائنات گئی
عاقبت اندیش اور نا عاقبت اندیش کا فرق کیا ہے؟ یہی کہ دانا آدمی آنے والے کل کو ملحوظ رکھتاہے اور نادان فقط لمحۂ موجود میں بسر کرتا ہے۔
انسانوں کو درجات بخشے گئے۔ اسی سے ان کے لیے ذ مہ داری کی نوعیت طے ہوتی ہے۔ اسی میں وہ آزمائے جاتے ہیں۔ اللہ کی آخری کتاب میں لکھا ہے کہ کسی پر اس کی استطاعت سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالا جا تا۔
ایک گرامی قدر استاد نے کہا: آدمی آتاہے اور کہتاہے کہ مصائب کے بوجھ تلے وہ پچک رہا ہے۔ کل کی سحر اسے طلوع ہوتی دکھائی نہیں دیتی۔ برسوں بیت جاتے ہیں۔ وہ جیتا رہتاہے۔ کھاتا پیتا ہے۔ کبھی لطف اٹھاتا اور چمکتا بھی ہے مگر یہی بات وردِ زباں رہتی ہے کہ روشنی کا کوئی امکاں اس کی حیات میں نہیں۔
کیا یہ کم ہمتی ہے، نا شکر گزاری یا خودترسی؟ شاید سبھی کچھ۔ باقی صدیقی نے کہا تھا:
نہ شاخِ گل ہی اونچی ہے نہ دیوار چمن بلبل
تری ہمت کی کوتاہی تری قسمت کی پستی ہے
زندگی تنوع میں ہے، کشمکش اور امتحان میں۔ خدا کی بستی چرنے چگنے کے لیے نہیں امتحاں کے لیے ہے۔ دائم وہ ایسی ہی رہے گی۔
کبھی کوئی جھلّا کر کہتاہے: ہمیشہ سے یہی سنتے آئے کہ ملک نازک دور میں ہے۔ جی ہاں، اوّل دن سے ہم سہاروں کی تلاش میں رہے۔ کبھی ادراک نہ کیا کہ جیسے اْس دنیا میں کوئی دوسرے کا بوجھ نہ اٹھائے گا، اِ س دنیا میں بھی کوئی نہیں اٹھاتا۔ ہر ایک کو اپنی صلیب خود تھامنا ہوتی ہے۔
راحت بھی بہت ہے۔ سانس لینے اور سستانے کے مواقع بھی بہت۔ زندگی کی اصل مگر جدوجہد، تگ و دو اور آزمائش ہے۔ اسی میں انسانی استعداد بڑھتی، بالیدگی پاتی اور سرخروئی کا ساماں کرتی ہے۔ کون ہے جو ابتلا کے مقابل جی جان سے اٹھا ہو اور سرفراز نہ ہوا۔
سفر ہے شرط مسافر نواز بہتیرے
ہزار ہا شجرِ سایہ دار راہ میں ہے
جاپان کے ایک نہیں، د و شہروں پہ ایٹم بم برسے تھے۔ بے شمار جوانِ رعنا، بچے عورتیں اور بزرگ راکھ ہو گئے۔ باغ اور کھیت کھلیان جھلس گئے۔ کوریا ایک ہولناک جنگ سے دوچار رہا۔ ایک پوری صدی چین کے لیے توہین اور ذلت کی صدی تھی۔ ترکی یورپ کا مردِ بیمار تھا۔ ملائیشیا میں ربڑ کے سوا کیا رکھا تھا۔ پام آئل تو افریقہ سے بہت بعد میں آیا۔ عسرت تھی، حتیٰ کہ ڈاکٹر مہاتیر محمد میدان میں اترے۔ دولت چینیوں کے پاس تھی۔ منصوبہ بندی، ریاضت، تدبیر اور مستقل مزاجی کے ساتھ معیشت استوار کی۔ افتادگان کو چلنا اور پھر دوڑنا سکھایا۔
ایک عشرے سے زیادہ ہونے کو آیا۔ کوالا لمپور سے گوارا فاصلے پر، بزرگ لیڈر کے سرسبز دولت کدے پر خان صاحب پہنچے۔ اس نے کہا: ہمارے پاس کچھ بھی نہیں تھا، جب ہم نے عصرِ حاضر میں داخل ہونے کا ارادہ کیا۔ الیکٹرانک مصنوعات کے پرزے جوڑنے سے ہم نے آغاز کیا۔ پھر سکول کھولے کہ انجان ہاتھوں کو سکھائیں۔ کالج اور یونیورسٹیاں اس کے بعد بنیں۔ کارخانے وجود میں آئے، جن میں وہ مصنوعات ڈھلنے لگیں، ساری دنیا میں جن کی طلب ہے۔ کہر اور آتش بردار زندگی سامنے آن کھڑی ہوتی ہے اور پیہم ریاضت کا مطالبہ کرتی ہے۔ یہ مطالبہ تسلیم نہ کیا جائے تو منہ پھیر کے چلی جاتی ہے۔
خان صاحب اقتدار میں آئے تو آموختہ بھول گئے۔ انفرمیشن ٹیکنالوجی کے ادارے بناتے۔ معاشرہ مستحکم اور منظم نہیں ہو سکتا اگر ایک ثمر خیز نظامِ انصاف سایہ فگن نہ ہو۔ ٹیکس وصول کرنے والوں کے تھیلوں میں اگر سوراخ ہوں؟
اوّل اوّل زکوٰۃ جمع کرنے والے بھیجے گئے تو وہ اپنے ساتھ نذر و نیاز بھی لائے۔ یہ وہ لوگ تھے، جو سرکارؐ کی صحبت سے سرفراز ہوئے تھے۔ آپؐ کو بتایا گیا تو تشریف لائے اور خطبہ دیا: وہ اپنے گھروں میں کیوں نہ بیٹھ رہے کہ لوگ ان کے لیے تحائف لاتے۔ بس یہ کافی تھا۔ وہ تھم گئے کہ اطاعت گزار تھے۔ اب ان کی امت میں دن دیہاڑے ڈاکہ زنی ہے، تدارک تو کیا، کسی کو ملال بھی نہیں۔ کوئی دل نہیں دکھتا۔ کسی کی نیند اچاٹ نہیں ہوتی۔
پولیس اگر سفاک ہو، جسے مظلوم کا سائبان ہونا چاہئیے؟ عدالتوں میں دن دیہاڑے اگر انصاف بکتا ہو بلکہ بولی لگا کر؟ سرکار اگر بے نیاز ہی نہیں، بے حس ہو تو کھیتوں میں کیا اگے گا؟ کارخانوں میں کیا ڈھلے گا؟
خوف نہیں، ہیجان نہیں، آدم زاد کو آزادی اور قرار چاہئیے۔ ایک آزاد اور پرسکون آدمی کی قوتِ عمل اور قوتِ متخیلہ ہی برگ و بار لاتی ہے۔ چھتوں اور دیواروں کے درمیان سبزہ نہیں اگتا۔
پٹرول، ڈیزل اور کوئلے کے دام اس قدر بڑھ گئے۔ کھانے کا تیل تین گنا تک گراں ہو گیا۔ کاشت کار کہتے ہیں، گیہوں اگانے کا فائدہ کیا۔ سرسوں کے اخراجات اب نصف اور یافت دو گنا ہوتی ہے۔ مصر اور انڈونیشیا کے بعد پاکستان گندم درآمد کرنے والا تیسرا بڑا ملک بن گیا، جو کبھی برصغیر کا اناج گھر تھا۔ یوکرین کے یدھ نے نرخ بالا ہی نہیں کیے، ایک سنگین بحران کی بنیاد رکھ دی ہے۔ اقوامِ متحدہ کے مطابق پچیس افریقی ملک ایسے ہیں، جو قحط کی سی کیفیت سے دوچار ہو سکتے ہیں۔
بھائی کو ئی تدبیر کرو۔ عصرِ حاضر کے شیر شاہ سوری صاحب کوئی تدبیر کیجیے۔ خان صاحب کوئی منصوبہ پیش کیجیے۔ آپ سب کے سب میں کیا کوئی ایک رجلِ رشید بھی نہیں۔ ساری کی ساری توانائی اقتدار کی جنگ میں جھونک دی ہے، سب کے سب لشکر۔ آیا بھی تو کوئی عثمان بزدار آئے گا یا وہی حمزہ شہباز مسلط۔ لکیر کے یہ فقیر کیا کریں گے۔
میکدے میں ایک دن اک رند زیرک نے کہا
ہے ہمارے شہر کا والی گدائے بے حیا
بہم بھی ہو، ڈیڑھ دو گنا قیمت پر عالمی منڈی سے گیہوں خریدنے سے کیا یہ بہتر نہیں کہ پاکستانی کاشتکار کی پشت پناہی کی جائے۔ بجلی پر ڈیڑھ سو ارب کے زرِ اعانت کی بجائے کیا یہ سیدھا سادا اقدام تحفظ کا ضامن نہ ہوگا۔ کاشتکار سرسوں اور سورج مکھی ضرور اگائیں مگر گیہوں بھی۔ شوق سے لختِ جگر نورِ نظر پیدا کرو / ظالمو تھوڑی سی گندم بھی مگر پیدا کرو۔ مسائل سنگین سہی مگر ایسے بھی لا ینحل نہیں۔ مشکل یہ ہے کہ ساری امیدیں لیڈروں سے وابستہ اور لیڈر کم ہمت اورخود غرض۔ کچھ کفایت شعاری، کچھ تدابیر، کچھ سعی، کچھ بھی نہیں۔ جنہیں تدبیر کرنا ہے، وہ ہیجان میں دیوانے ہو گئے۔ جو ٹوک سکتے تھے، عہدِ قدیم کے ایرانی مشاعروں کی طرح وہ داد میں مگن ہیں۔ برباد می کنم، سوختہ می کنم، سبحان اللہ، سبحان اللہ!
زندگی کیا ہے، ایک سستا سا تماشہ؟ جوش ملیح آبادی نے کہا تھا: جینا نہیں، یہ جینے کی نقل ہے۔ معالج کہتے ہیں: درد اور پھوٹ بہنے والا لہو مبدہء فیاض کی عنایت ہے۔ ٹیس اگر نہ اٹھتی تو ابنِ آدم دوا دارو سے بے نیاز رہتا، زندگی ہار جاتا۔ ہم کیسے لوگ ہیں کہ درد بھی ہمیں جگاتا نہیں۔ کوئی اور تو کیا، جیتے جاگتے لہو کی پکار بھی سنائی نہیں دیتی
دل گیا رونقِ حیات گئی
غم گیا ساری کائنات گئی