"سردار"، فارسی کا یہ لفظ کیسے گہرے معانی کا حامل ہے: وہ آدمی جو سر رکھتاہے۔ سوچنے سمجھنے کی صلاحیت جسے عطا ہو ئی ہو۔ دور اندیشی جس میں پائی جاتی ہے، جو آنے والے کل کو ملحوظ رکھّے۔ فرمایا: کلکم راع و کلکم مسؤل۔ تم میں سے ہر شخص حاکم ہے اور ہر شخص جواب دہ۔
رات گئے لوٹ کر آئے تو مرکزی دروازے پر لکھا تھا "ہم بنیاد رکھنے والے ہیں، ہم اس بستی کے مالک ہیں۔" چند دن ہوتے ہیں، ہاؤسنگ سوسائٹی کے انتخابات ہوئے۔ جیسا کہ ہمیشہ ہوتاہے، فضا میں حرارت تھی، بدگمانی اور الزامات کا لین دین۔ چیختا ہوا یہ بینر جیتنے والوں کا اعلان تھا۔ اس نادرِ روزگار کی بات تب سمجھ میں آئی۔
منیرؔ اس ملک پہ آسیب کا سایہ ہے یا کیا ہے
کہ گردش تیز تر ہے اور سفر آہستہ آہستہ
آسیب نہیں، شاید ذہنوں میں الجھاؤ ہے۔ نمود اور غلبے کی وہی خواہش، جو آدم زاد کو چین سے بیٹھنے نہیں دیتی۔ آزادی اچھی، جمہوریت اچھی مگر آزادی اور جمہوریت کے کچھ تقاضے بھی ہوتے ہیں۔ انہی پر غور کرنے کی فرصت ہمیں کبھی نصیب نہ ہوئی۔
1947ء میں دو صدیوں کے بعد مسلم بر صغیر کو اقتدارعطا ہوا۔ 1707ء میں آخری طاقتور مسلمان حکمران نگزیب عالمگیر دنیا سے اُٹھے۔ ہمارے ترکش کا آخری تیر۔ بظاہر اس کے بعد بھی مسلم حکومتیں قائم رہیں۔ لکھنو، حیدر آباد، میسور اور دہلی وغیرہ میں۔ میسور 1799ء میں سرنگوں ہوا، جب انگریزوں کے علاوہ نظام اور مرہٹوں کی افواج اس پہ چڑھ دوڑیں۔ یہ اپریل کا مہینہ تھا، جب مون سون کی بارشیں جل تھل ایک کِیا کرتیں۔ کھلے میدان میں ٹیپو نے دشمن کا سامنا کرنے کا منصوبہ بنارکھا تھا۔
جہاں اس کا خیال تھا کہ حریف کیچڑ میں خستہ و خراب ہوگا۔ آسمان وہی نیلے کا نیلا، بادل کا ایک ٹکڑا بھی نمودار نہ ہوا۔ تقدیر مسلم بر صغیر پہ نا مہربان تھی، اور کیوں نہ ہوتی کہ وہ ایک دوسرے کے دشمن تھے۔ آخر کار وہ آدمی جان ہار گیا، جس نے کہا تھا: شیر کا ایک دن گیدڑ کی سو سالہ زندگی سے بہتر ہے۔
رفتہ رفتہ بتدریج مسلم ریاستیں کمزور یا تحلیل ہوتی گئیں۔ پنجاب اور پختون خوا پہ سکھوں کے لشکر چڑھ آئے اور جنوبی ہند پہ مرہٹے۔
چور اچکے، سکھ مرہٹے، شاہ و گدا سب خواہاں ہیں
چین سے ہیں جو کچھ نہیں رکھتے فقر ہی اک دولت ہے یہاں
مشرق کے عظیم مفکر نے کہا تو یہ تھا: ترکانِ عثمانی سے کچھ کم نہ تھے ترکانِ تیموری لیکن مغل اقتدار بعض بنیادی کمزوریوں کا حامل تھا۔ بحری فوج کبھی نہ بنائی ؛حالانکہ زمانہ وہ تھا، جس میں سمندروں پر راج کرنے والے ہی راج کرتے۔ تجارت پانیوں کے راستے ہوا کرتی ؛حتیٰ کہ بہت سی جنگیں بھی سمندروں میں لڑی گئیں۔ عظیم الشان بحری بیڑے وجود میں آچکے تھے۔ ترکوں، ولندیزیوں اور انگریزوں میں کشمکش خشکی نہیں تری میں تھی۔
حیرت انگیز بات یہ ہے کہ ظہیر الدین بابر سے لے کر اورنگزیب عالمگیر تک کبھی کسی نے سنجیدگی سے اس بارے میں سوچا تک نہیں۔ وہ اندر ہی الجھتے رہے۔ بغاوتوں سے نمٹنے میں لگے رہے اور زمانہ انہیں چھوڑ کر آگے چل نکلا۔ دنیا میں صنعتی انقلاب برپا تھا۔ یورپ سائنسی اندازِ فکر سے آشنا ہو رہا تھا اور مسلمان ماضی میں زندہ تھے۔ محلات کی خیرہ کن عمارتیں بنانے اور عیش و نشاط کی محفلیں سجانے میں مگن۔
میں تجھ کو بتا تاہوں تقدیرِ امم کیا ہے
شمشیر و سناں اوّل طاؤس و رباب آخر
مغل سلطنت کا بانی ظہیر الدین بابر دو آدمیوں کو بغل میں دبائے قلعے کی چوڑی دیوار پہ دوڑلگایا کرتا۔ بہادر شاہ ظفر کا دستر خوان بچھانے کے لیے باورچیوں کی ایک پوری فوج درکار ہوتی۔ چنبیلی کی ڈنڈیوں کا ایک ڈھیر سکھاکر گوشت بھونا جاتا تو بادشاہ کی طبیعت طعام کو آمادہ ہوتی۔ مسلم معاشرے کی کمزوری یہ بھی تھی کہ کاروبار سے انہیں گھن آتی۔ اس امت کو، پیغمبرِ آخر الزماں ؐ نے جسے بتایا تھا کہ رزق کے دس میں سے نوحصے تجارت میں رکھے گئے۔ ان کے خیال میں یہ رعایا کا کام تھا، دریوزہ گر بنیوں کا۔ مسلمانوں کو حکومت زیبا تھی۔ سرکار دربا ر کا سایہ خواہ چھوٹی سی نوکری ہی یا پھر سپاہ گری۔ اقتدار کا ہما اڑ جانے کے بعد بھی ان کے شاعر نے اس پر ناز کیا تھا۔
ہفت پشت سے ہے پیشہء آبا سپاہ گری
شاعری کچھ ذریعہء عزت نہیں مجھے
اقتدار کا ہما اڑا تو کچھ بھی باقی نہ بچا۔ بس کہیں کہیں چھوٹی چھوٹی زمینداریاں۔ حکومت انگریز کی، کاروبار اور تجارت ہندو کے ہاتھ میں۔ فقط ماضی کی یاد رہ گئی۔ گل رخ ایام کی تصویریں، جب ان کے آبا آدھی دنیا کے تاجدار تھے۔
1947ء میں آزادی نصیب ہوئی تو مسلمان ریاست کے کاروبار سے اتنے ہی نا آشنا تھے، جتنا صحرا کا کوئی مکین باغبانی سے۔ شاذ شاذ، کہیں کہیں کوئی کاروبار سے وابستہ تھا۔ مہاجرین کا سیلاب امڈ کر آیا تو اس لیے کھپ گیا کہ دو ارب روپے کے مقابلے میں 22ارب کی جائیدادیں ہندو چھوڑ گئے تھے۔ حکومتی نظم و نسق کے معاملے میں نا پختگی کا عالم یہ تھا کہ قائدِ اعظم کی آنکھ بند ہونے سے پہلے ہی سندھ اور پنجاب میں درباری سازشیں قابو سے باہر ہو رہی تھیں۔ کراچی میں ایوب کھوڑو کی سرکشی، لاہور میں نواب افتخار ممدوٹ اور ممتاز دولتانہ کی۔
کاروبار کا سلیقہ اورنہ حکومت کا؛اگرچہ یہ کوئی ایسی چیز نہ تھی، جو سیکھی نہ جا سکتی۔ اللہ کی آخری کتاب یہ کہتی ہے کہ انسانوں پر ان کی استطاعت سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالا جاتا۔ اب یہ ان پر ہوتا ہے کہ سلیقہ مندی کی آرزو رکھتے ہیں یا نہیں۔ ہر آزمائش ایک انعام میں ڈھل سکتی ہے اگر آدمی اس کے تانے بانے اور اونچ نیچ کا ادراک کرسکے۔ کوئی بھی کامیابی تباہی لاسکتی ہے اگر وہ حد سے زیادہ آسودہ کر ڈالے۔
افلاس یا تونگری، اقتدار یا محرومی، علالت یا صحت کی تابناکی، زندگی آزمائش کے سوا اورکیا ہے؟ پروردگار نے زندگی کو تنوع اور کشمکش میں پیدا کیا اور دائم وہ ایسی ہی رہے گی۔ ظفرمندی اگر غرور پیدا کرے تو شکست سے بدتر۔ پسپائی اگر ادراک اور شعور کو بیدار کر دے تو ایک عظیم نعمت۔ بہادر شاہ ظفر کا شعردہرایا اور گایا جاتاہے لیکن غور و فکر کرنے والے کتنے ہوتے ہیں؟
ظفر آدمی اسے نہ جانیے، ہو وہ کیسا ہی صاحبِ فہم و ذکا
جسے عیش میں یادِ خدا نہ رہی، جسے طیش میں خوفِ خدا نہ رہا
فتح و شکست زندگی کا حصہ ہے۔ کامرانی پہ شاد یا کسی قدر مخمور ہو جانا فطری ہے لیکن ایسی بھی کیا سرشاری۔ زندگی میں کوئی کامیابی پائیدار ہے اور نہ ناکامی۔ اقتدار ایک گھر اور ایک بستی کا ہو یا پورے ملک کا، فضیلت اور انعام سے زیادہ آزمائش اس میں ہوتی ہے۔ اسی لیے عرب کہاکرتے: قوم کا سردار دراصل اس کا خادم ہوتاہے۔
"سردار"، فارسی کا یہ لفظ کیسے گہرے معانی کا حامل ہے: وہ آدمی جو سر رکھتاہے۔ سوچنے سمجھنے کی صلاحیت جسے عطا ہوئی ہو۔ دور اندیشی جس میں پائی جاتی ہے، جو آنے والے کل کو ملحوظ رکھّے۔ فرمایا: کلکم راع و کلکم مسؤل۔ تم میں سے ہر شخص حاکم ہے اور ہر شخص جواب دہ۔