Tuesday, 19 November 2024
  1.  Home/
  2. 92 News/
  3. Shadman Kyun Nahi, Sarshar Kyun Nahi?

Shadman Kyun Nahi, Sarshar Kyun Nahi?

تاریخ کا سبق تاہم یہ ہے کہ جذبات سے مغلوب، جلد باز اور مشتعل مزاجوں کے لیے سطحی کامیابیاں تو ہوتی ہیں، تاریخ ساز فتوحات کبھی نہیں۔

اپنے عہد کے سب سے بڑے سائنسدان ہی نہیں، آئن سٹائن ایک عظیم مفکر بھی تھے۔ ایک قول تو ایسا ہے کہ زمانے کے بدلتے تیوروں کو سمجھنے کے لیے ہمیشہ یاد رکھنا چاہیے۔ "دیکھنا صرف یہ چاہئیے کہ وہ ذاتِ قدیم کیا چاہتی ہے۔ باقی تفصیلات ہیں۔" قرآنِ کریم کی ایک آیت یاد آتی ہے "یہ دن ہیں، جنہیں ہم لوگوں کے درمیان گردش دیتے رہتے ہیں"۔

ایک اور جگہ ارشاد یہ ہے کہ بعض کو بعض کے ذریعے دفع کر دیا جاتاہے۔ ایک تیسری آیت کا مفہوم یہ ہے: گردشِ لیل و نہار میں کھوٹا کھرا چھانٹ کر الگ کر دیا جاتا ہے۔ آئن سٹائن کا ایک اور جملہ بھی فراموش نہ رکھنا چاہئیے: اگر اجزا یکساں ہوں تو خواہ سوبار تجربہ کیا جائے، نتیجہ وہی ایک نکلے گا۔

آدمی کو کمزور پیدا کیا گیا۔ وہ جلد باز ہے۔ اسے مایوسی آلیتی ہے؛حالانکہ مایوسی کفر ہے۔ حمزہ شہباز کے حلف اٹھانے پر پی ٹی آئی کے کارکن دل گرفتہ ہیں۔ شادماں کیوں نہیں، سرشار کیوں نہیں۔ ابھی آدھ گھنٹے میں سوشل میڈیا پر ان کے تاثرات دیکھے۔ اکثر کا کہنا یہ ہے کہ امریکہ اور قومی ادارے پی ٹی آئی کے خلاف متحد ہیں اور الیکشن نہ ہونے دیں گے۔ مایوسی کی شدت میں یہ ایک ناقص تجزیہ ہے۔

قدرت کے اٹل اصولوں میں سے ایک یہ ہے کہ انسان آزمائے جاتے ہیں۔ انفرادی اور اجتماعی دونوں اعتبار سے۔ 1937ء کے الیکشن میں قائدِ اعظم مسلمانوں کے صرف 24فیصد ووٹ حاصل کر پائے۔ اس کے باوجود کہ نہایت پرعزم، ریاضت کیش اور مستقل مزاج تھے، اپنی قوم اور رفقا سے مایوس ہو کر لندن تشریف لے گئے تھے کہ پریوی کونسل میں وکالت کریں گے اور زندگی کے باقی ایام آسودگی میں بسر کر دیں۔

پھر کیا ہوا؟ پھر یہ ہوا کہ مسلم لیگ یتیم سی ہو گئی۔ اور بھی شدت سے قائدِ اعظم کی اہمیت کا احساس ابھرنے لگا۔ خیرہ کن شجاعت کے محمد علی جوہر بیمار ہوئے تو ملاقاتیوں سے کہا: میرے پاس کیا لینے آئے ہو۔ اْس محمدعلی کے پاس جاؤ۔ وہی محمد علی، جس کے بارے میں ایک عشرہ پہلے حسرت موہانی نے کہا تھا "اس شخص کا لباس اسلامی ہے اور نہ زبان" اس تقریب میں ایسا ہنگامہ ہوا کہ قائدِ اعظم کو سٹیج چھوڑ کر جانا پڑا۔

پھر وہی حسرت ؔان کے عاشقِ زار ہو گئے۔ ابوالکلام انکے حریف تھے اور پنجاب کے عام مسلمانوں میں سب سے مقبول جماعت مجلسِ احرار بھی۔ پختونخوا کے بے تاج بادشاہ باچا خان سرحدی گاندھی کہلاتے تھے۔ محمود خاں کے والد عبد الصمد اچکزئی کو بلوچستان کا گاندھی کہا جاتا تھا۔

ابو الکلام کانگرس کا حصہ تھے۔ برصغیر کی تاریخ کے سب سے بڑے خطیب نیک طینت مگر سادہ لوح عطاء اللہ شاہ بخاری نے کہا تھا: پاکستان بن جائے تو میری داڑھی مونڈھ دینا۔ سندھ میں جی ایم سید خم ٹھونک کر مسلم لیگ کے خلاف کھڑے تھے کہ قائدِ اعظم نے صوبے میں انہیں ویٹو دینے سے انکار کر دیا تھا۔ شیرِ بنگال مولوی فضل الحق نے عین آخری موقعے پر قائدِ اعظم سے بے وفائی کا ارتکاب کیا۔ وقتی طور پر ہی سہی، ممتاز سیاستدان اور متحدہ بنگال کے وزیرِ اعظم حسین شہید سہروردی بنگال کو متحد رکھنے اور الگ ملک بنانے کی طرف مائل ہوئے تھے۔

پھر ایک معجزہ ہوا۔ قرار دادِ پاکستان منظور ہوتے ہی محمد علی جناح کی مقبولیت بڑھنے لگی۔ اب وہ قائدِ اعظم تھے۔ دیانت و امانت، راست گوئی اور خودداری کا ہمیشہ سے ایک لہکتا ہوا استعارہ تھے۔ بہت پہلے کانگرس نے ممبئی میں ان کے نام پر ایک ہال تعمیر کیا تھا لیکن اب عظمت ان پر ٹوٹ ٹوٹ کر برسنے لگی۔ حکمت کار وہ ایسے تھے کہ باید و شاید۔ ہاکی کے کسی کھلاڑی کی طرح، گیند جس کے ہاتھ میں آجائے تو دوسرا کوئی قریب نہ پھٹک سکے۔

پہل کاری میں آپ کا کوئی ثانی نہیں تھا۔ حریف کی اگلی چال پہلے سے بھانپ لیتے اور ناکام بنانے کی تدبیر بھی طے کر لیتے۔ سات سال کے مختصر عرصے میں جو کارنامہ قائدِ اعظم نے انجام دیا، سٹینلے والپرٹ کے سوا کوئی مورخ موزوں الفاظ میں بیان نہ کر سکا۔ اس نے لکھا: کوئی لیڈر زیادہ سے زیادہ یہ کر سکتاہے کہ ایک نئی قوم تشکیل دے یا اسے آزادی دلائے۔ یا پھر ایک ملک بخش دے۔ قائدِ اعظم انسانی تاریخ کے وہ واحد لیڈر ہیں، جنہوں نے بیک وقت یہ تینوں کارنامے سرانجام دیے۔

والپرٹ نے سچ کہا تھا۔ یہ قائدِ اعظم تھے، جنہوں نے مسلمانوں کو ایک الگ قوم ثابت کیا۔ دیوبند کے زہد و تقویٰ کی شہرت رکھنے والے پارسا حسین احمد مدنی نے یہ کہا تھا: قوم وطن سے بنتی ہے۔ اقبالؔ نے کہا:

عجم ہنوز نداند رموزِ دیں ورنہ

زدیوبندِ حسین احمد ایں چہ بو العجبی است

سرود برسرِ منبر کہ ملت از وطن اوست

چہ بے خبر زمقامِ محمدؐ عربی است

بمصطفی برساں خویش کہ دیں ہمہ اوست

اگر با او نہ رسیدی تمام بو لہبی است

عجم کو ابھی تک دین کے رموز کا ادراک نہیں ورنہ دیوبند کے حسین احمد ایسی بات نہ کہتے۔ برسرِ منبر کہا کہ قوم وطن سے ہوتی ہے۔ سرکارؐکے مقام سے کس قدر بے خبر ہیں۔ مصطفی ؐسے پوری طرح پیوسست ہو نا ہوتا ہے۔ اگر ایسا نہ ہو تو بولہبی کے سوا کچھ بھی نہیں بچتا۔ رباعی تو فارسی میں تھی، کتنے سمجھتے۔

رائے عامہ کو قائل کرنیوالے دلائل تو قائدِ اعظم نے پیش کیے۔ ہندوؤں کے ولن ہمارے ہیرو ہیں اور ان کے ہیرو ہمارے ولن۔ شہاب الدین غوری، محمود غزنوی اور ابدالی۔ ہماری موسیقی ان سے الگ ہے اور ہمارا طرزِ تعمیر بھی۔ ہمارا لباس اور کھانا پینا بھی۔ باہم ہماری شادیاں نہیں ہوتیں ؛حتیٰ کہ ہندو اور مسلمان ایک برتن میں کھاتے نہیں۔ کسی بھی منطقی تعریف کے اعتبار سے مسلمان ایک الگ قوم ہیں۔ ہندوستان کے ان خطّوں میں جہاں ان کی اکثریت ہے، وہ الگ وطن کے حقدار ہیں۔

اٹل اور دوٹوک، وہ اپنے دلائل دہراتے رہے؛حتیٰ کہ ابو الکلام آزاد، باچا خاں، عطاء اللہ شاہ بخاری اور حسین احمد مدنی کو ترک کر کے قوم ان پہ متحد ہو گئی۔ صلاح الدین ایوبی کے بعدکسی خطے میں ایک لیڈر پر مسلم رائے عامہ کا ایسا اتفاق شاید ہی کبھی ہوا ہوگا؛ہرچند کے اس میں سلطان محمد فاتح، سلطان سلیمان ذی شان، محمود غزنوی اور الپ ارسلان ایسے عظیم ہیرو اٹھے تھے، فاتح جگمگائے تھے۔

معاشرے مدّ و جزر سے گزرتے ہیں۔ چرچل الیکشن ہار گیا تھا اور ڈیگال کو مستعفی ہونا پڑا تھا۔ ڈیگال بھی لوٹ آئے اور اپنی شرائط پہ۔ چرچل بھی جیتے اور فاتحانہ شوکت کے ساتھ۔ قائدِ اعظم، ڈیگال اور چرچل ایسے عظیم مدبرین کے مقابل عمران خاں کیا ہے۔ وہ اسٹیبلشمنٹ اور اتحادیوں کی مدد سے اقتدار میں تھے۔

عمران اور انکے حامیوں کو شاد ہونا چاہیے کہ اسٹیبلشمنٹ اور اتحادیوں کی زنجیریں ٹوٹ چکیں۔ مقبولیت انکی عروج پر ہے۔ عزم و ہمت، لچک اور تدبیر کا مظاہرہ کریں تو اقتدار ایک بالشت کے فاصلے پر پڑا ہے۔ مایوسی کفر ہے۔ تاریخ کا سبق تاہم یہ ہے کہ جذبات سے مغلوب، جلد باز اور مشتعل مزاجوں کیلئے سطحی کامیابیاں تو ہوتی ہیں، تاریخ ساز فتوحات کبھی نہیں۔

About Haroon Ur Rasheed

Haroon Ur Rasheed

Haroon Ur Rasheed is a well known analyst and columnist. Currently, he is working with 92 News. He has worked for Dunya News, 92 News and Geo.