کوئی معاشرہ جب ہیجان میں مبتلا ہو جائے توادراک کی صلاحیت کھو دیتا ہے۔ محبت اور نفرت تجزیہ کرنے نہیں دیتی۔ کس کس کو مگریہ بات سمجھائی جائے۔ شہر کا شہر"مسلمان"ہوا پھرتا ہے۔
"کردار ایک انفرادی چیز ہے۔ کوئی علاقہ، لسانی گروہ یا قوم اور قبیلہ اچھا یا برا نہیں ہوتا۔ ایک بھائی فیاض اور دوسرا لالچی ہو سکتاہے۔ ممکن ہے کوہ مری میں لالچیوں کی تعداد زیادہ ہو، جیسا کہ نیو یارک کے ٹیکسی والوں میں لیکن مری کے تمام باسیوں کی مذمت کا کوئی جواز نہیں۔"
یہ پیر کی رات تین بج کر بارہ منٹ پر کیا جانے والا ایک ٹویٹ ہے۔ آخرِ شب کے باوجود فوراً ہی تبصروں کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ زیادہ تر تبصرے منفی تھے لیکن بہت سے تائید میں بھی۔ سب سے دلچسپ رائے محسن علی صدیقی نام کے کسی صاحب کی تھی۔"I think you or your family own hotel in Murree"۔ عرض کیا "ہوٹل تو دور کی بات ہے حضور، پچھلے تیس برس سے اتنی فرصت نہ ملی کہ برف باری دیکھنے جاتے۔"
جماعتِ اسلامی کے مرحوم سیکرٹری اطلاعات صفدر چوہدری کو اللہ تعالیٰ کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے۔ 1981ء میں پہلی بار ان کے ساتھ مری جانا ہوا۔ چند اور اخبار نویس، ان کے ذاتی دوست بھی شامل تھے۔ برف کے گالے گرنا شروع ہوئے تو بھاگ کر گاڑیوں میں سوار ہوئے اورشتابی سے گھر جا پہنچے۔ کچھ دیر برف پہ چہل قدمی کی تھی۔ یہ ادراک بھی نہ تھا کہ ہاتھ میں چھڑی اور سر پہ ٹوپی ہونی چاہئیے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ ٹھنڈ لگی۔ وہ دن اور آج کا دن آخرِ دسمبر سے اوائل فروری تک ٹوپی اور اوورکوٹ کے بغیر شاذ ہی کبھی گھر سے نکلنے کی جسارت کی۔ حتیٰ کہ سرما کے سفاک سیاہ دن بیت جائیں۔
دوسری بار 1991ء میں مری جانا ہوا۔ یہ اخبار نویسوں کے لیڈر افضل بٹ کی فرمائش پہ تھا۔ خاکسار ان دنوں روزنامہ پاکستان اسلام آباد کا نیوز ایڈیٹر تھا۔ افضل بٹ کڑیل جوان تھے۔ خورونوش اور گھومنے پھرنے کے شوقین۔ بٹ صاحب نے اصرار کیا توباقی بھی شامل ہو گئے۔ ایک دوست سے گاڑی منگوائی۔ کوہ مری میں ان کا ایک شاندار ہوٹل بھی تھا۔ شب بھر وہاں قیام کیا۔ دن میں گھومے پھرے۔ یہ بات کبھی سمجھ میں نہ آسکی کہ محض برف دیکھنے کو اتنا تردد کس لیے کیا جائے۔
مظفر آباد جاتے ہوئے کہ کشمیر کی سیاست سے دلچسپی رہی، کبھی کبھار مال روڈ مری کے Lintatریسٹورنٹ میں رک جاتے۔ مشرقی کھڑکی سے ایک حیران کن، مسحور کن نظارہ۔ کافی کی ایک پیالی اور ایک شاعر کی یاد
ساحلِ نیل پہ دمکتے ہیں
لانبے پیڑوں کے ملگجے سائے
ادھر دور وہ میز کے پاس
اس کی لمبی کٹار سی پلکیں
ہائے اس کے کمان سے ابرو
دو گھونٹ کوکا کولا کے
اور کیپسٹن کے سگریٹ کے
دور اڑتے دھویں کے مرغولے
یہ کنارِ نیل نہیں تھا۔ کوئی کٹار سی پلکیں، نہ کمان سے ابرو۔ وادیوں میں حدِ نظر تک پھیلا ہوا سبزہ۔ پہاڑوں پہ جھکے بادل اوران سب سے بے نیاز فضا ؤں میں تیرتے پرندے۔ بیتے ہوئے دن ایسے میں یاد آنے لگتے ہیں۔ روزِ ازل کے پیمان کی بازگشت سنائی دیتی ہے اور کبھی احسان دانش یاد آتے ہیں۔
گو اب بھی ہوائیں آتی ہیں شبنم میں دھلے گلزاروں سے
برکھا میں برستے ہیں نغمے، بوندوں کے لچکتے تاروں سے
تسکین کی تانیں اڑتی ہیں، جھرنوں کے حسین فواروں سے
بیتے ہوئے دن کچھ ایسے ہیں، تنہائی جنہیں دہراتی ہے
سیر کا قرینہ یہ ہے کہ کچھ دیر کے لیے آدمی شہر سے باہر چلا جائے۔ اس کے شورو شغب کو خیر باد کہہ دے۔ ایک آدھ دوست کے ساتھ سبزہ زار، چٹان یا چشمے کے کنارے بیٹھ رہے۔ کچھ دیر میں جب لاشعور شہر کے شور سے نجات پا لے تو تازہ ہوا کے لمس کو محسوس کیا جائے۔ لازم نہیں کہ بہت گفتگو ہو۔ ضروری نہیں کہ لذت و کام و دہن کا اہتمام بہت ہو۔ تازہ ہوا دل کا ملال لے جاتی ہے۔ بھولے بسرے پیمان یاد آنے لگتے ہیں۔ اپنے آپ سے آدمی کی ملاقات ہو جاتی ہے۔ یہی، بس یہی!
یہ بات کبھی سمجھ میں نہ آسکی کہ مری کی مال روڈ پہ کیا رکھا ہے۔ دستکاریوں کی خریداری ہی مطلوب ہو تو راولپنڈی کی مال روڈ کا رخ کیوں نہ کیا جائے۔ پہاڑ کے خوش منظر ہی دیکھنا ہوں تو ایبٹ آباد کیوں نہیں، ایوبیا کیوں نہیں۔ ایوبیا میں ہوا زیادہ پاکیزہ ہے اور وادیاں بہت فراخ۔ سیر و تفریح تو شہر کے سنگین ماحول سے نجات کا نام ہے۔ احمد ندیم قاسمی نے کہا تھا:
شہر ہیں یا کہ تمدن کے عقوبت خانے
عمر بھر لوگ چُنے رہتے ہیں دیواروں میں
زندگی سبزہ زاروں میں ہے یا ریگزاروں میں۔ آدمی اسے شہروں میں ڈھونڈتا پھرتا ہے۔
عمران خاں ابھی وزیرِ اعظم نہ بنے تھے۔ پی ٹی آئی کی حکومت پختون خوا تک محدود تھی۔ ان سے ملاقات کے لیے نتھیا گلی جانا پڑا۔ مختصر سے چیف منسٹرہاؤس کے مقابل پھیلی ہوئی وادی اتنی خوبصورت تھی کہ دنیا دیکھی، عمر بھر ایسا نظارہ نہ دیکھا۔ نیو یارک سے واشنگٹن تک پھیلے ہوئے جنگل میں بھی نہیں، جہاں آبشاروں اور جھیلوں کی تعداد دنیا بھر میں سب سے زیادہ ہے۔ ہالینڈ میں دو ر دور تک پھیلے لالے (Tulip)کے کھیتوں میں بھی نہیں، دنیا بھر کے سیاہ جن پہ لپکتے ہیں۔ سری لنکا میں بھی نہیں، جو پورے کا پورا ایک باغ ہے۔ برآمدے میں بیٹھے علیم خاں نے کہا: زمین کا یہ ٹکڑا میرے پاس ہوتا تو اس پر آٹھ منزلہ ہوٹل بناتا۔ مشکل یہ ہے کہ عمارت سرکاری ہے۔ مشکل یہ بھی ہے کہ میرا تعلق پارٹی سے ہے۔
کہیں سے کہیں جا نکلتی ہے، بات ادھوری رہ جاتی ہے۔ کوہ مری کے مکینوں پر مغلظات کی بارش ہے۔ کوئی گالی ایسی نہیں، جو روا نہ رکھی گئی ہو۔ خاص طور پر ہوٹل مالکان کے لیے۔ یقینی طور پر ان میں کچھ بد بخت اور بدنصیب بھی ہوں گے، جن کے لیے روپیہ ہی سب کچھ ہے۔ سیاحوں کا جہاں طوفان ہو، بازاری رویے وہاں زیادہ پروان چڑھتے ہیں لیکن لاہور، اسلام آباد، کراچی، پشاور، ملتان اور کوئٹہ میں فرشتے نہیں بستے۔ لاہور میں سے رقاصاؤں کے بے شمار گروپ دبئی کا رخ کرتے ہیں تو کیا شہر کے سب مکین ذمہ دار ہیں۔ تیس برس کے دوران سولہ ہزار بے گناہ شہری قتل ہوئے لیکن یہی وہ کراچی ہے، جس کے مکین سب سے زیادہ صدقات پیش کرتے ہیں۔
صرف ایک ادارہ ہر روز ایک لاکھ بھوکوں کا پیٹ بھرتا ہے۔ مرنے والے کوہ مری میں نہیں، شہر سے دور جاں بحق ہوئے۔ دوسری بات یہ ہے کہ اکثر ہوٹلوں کے مالکان دوسرے شہروں کے مکین ہیں۔ پی ٹی آئی والوں کی بات مانی جائے توزیادہ تر ہوٹل مسلم لیگیوں کے۔ پی ٹی آئی والوں کی بات اگر مانی جائے تو ان کے بارے میں پھر نون لیگ کی بات ماننا پڑے گی۔ کوئی معاشرہ جب ہیجان میں مبتلا ہو جائے توادراک کی صلاحیت کھو دیتا ہے۔ محبت اور نفرت تجزیہ کرنے نہیں دیتی۔ کس کس کو مگریہ بات سمجھائی جائے۔ شہر کا شہر"مسلمان"ہوا پھرتا ہے۔