جرأت و شجاعت منڈی کا مال ہوتی تو شریفوں اور زرداریوں کے کھربوں کام آتے۔ فہم و بصیرت بازار میں بکتی تو عمران خاں خرید لیتے۔ عظمتِ کردار کا کوئی بدل نہیں، کوئی شعبدہ بازی، کوئی ہنر، کوئی سرپرستی، حتیٰ کہ عوامی مقبولیت بھی نہیں۔ انسانی جذبات نہیں، تاریخ کا رخ تقدیر متعین کرتی ہے۔ زندگی اور کائنات کے دیر پا، ازلی اور ابدی قوانین۔
اڑنے سے پیشتر ہی میرا رنگ زرد تھا۔ تیاری کے ہنگام ہی لیگیوں کا خیال یہ تھا کہ شاید دو تین ہزار سے زیادہ لوگ جمع نہ ہوں ؛اگرچہ ہدف دس بارہ ہزار کا۔ وفادار برجیس طاہر کو ایک ہجوم لانا تھا۔ وہ کہیں سنائی دکھائی نہ دیے۔ میاں جاوید لطیف البتہ شیخو پورہ سے پچاس ساٹھ کو لے آئے۔ لاہور کے کھوکھر برادرز اور برکی روڈ پہ جائیداد وں کا دھندا کرنے والے رانا مبشر کو بھی ذمہ داری سونپی گئی تھی مگر وہ اقتدار میں جگمگاتے ہیں، ابتلا میں نہیں۔
لیگی شاد ہیں کہ آخر کو تعداد چار پانچ ہزار تک جا پہنچی۔ اخبار، اشتہار کی بات الگ، نجی گفتگوئوں میں کوئی ایک ہمدرد بھی چھ ہزار سے زیادہ کا مدعی نہیں۔ غیر جانبدار اخبار نویس کہتے ہیں، زیادہ سے زیادہ چار، ساڑھے چار ہزار۔ ایک چھوٹے سے اخبار نے البتہ پچیس ہزار کی ہانکی ہے۔ تعداد کے باب میں خود مریم نواز نے بھی کوئی دعویٰ کیا، نہ شاہد خاقان عباسی اور احسن اقبال مد ظلہ العالی نے، جو کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔ بحیثیتِ مجموعی بہترین مواقع کے باوجود کہ کہیں کوئی دوسری تقریب نہ تھی، معرکہ نون لیگ سر نہ کر سکی۔ فتح کا جشن کتنا ہی منائے، ہار گئی ہے۔
میڈیا کو بہرحال اپنا پیٹ بھرنا اور سنسنی بیچنا ہوتی ہے، غیر معمولی اہمیت اس کے باوجود نہ دی گئی۔ سوشل میڈیا پہ البتہ راج رہا۔ مریم نواز اور ان کی میڈیا ٹیم کا۔ پیغام حکومت اور فوج کے لیے یہ ہے کہ ہم سے نرمی نہ برتو گے تو اکھاڑ پھینکنے کی کوشش کریں گے۔ کس برتے پر؟ حضور، کس برتے پر؟ ظفر مندی سودا سلف نہیں کہ بازار میں دستیاب ہو۔
سیاست میں شعبدہ بازی کا عنصر بھی ہوتاہے۔ کہا یہ جاتا کہ تحریر جھوٹ بولتی ہے، تصویر نہیں۔ اب تصویریں بھی جھوٹ بولتی ہیں۔ اس طرح کیمرہ برتنے کی کوشش کی جاتی ہے کہ دوچار ہزار کا ہجوم انسانوں کا سمندر نظر آئے۔ تشہیری دستے کی قیادت مریم نواز فرما رہی تھیں۔ شب بھر سوشل میڈیا پہ انہوں نے سما ں باندھے رکھا۔ ایک آدھ وڈیو تو ایسی بھی تھی، جس میں لگا کہ مئی 2019ء کا لاہور نہیں، یہ فروری 1979ء کا تہران ہے۔ شہنشاہِ ایران رخصت ہوئے اور تاریخ کا نیا در کھولنے آیت اللہ خمینی اپنے حیرت انگیز اعتماد اور چونکا دینے والے انکسار کے ساتھ وطن لوٹے ہیں۔
کہا جاتاہے کہ اس دن مجبوروں کے سوا تہران کے شاید ہی کسی گھر میں کوئی ٹھہرا ہو۔ آس پاس کے قصبات بھی امنڈ پڑے تھے؛حتیٰ کہ دوردراز کے مکین بھی۔ صدیوں کی ملوکیت کے بعد یہ سلطانیء جمہور کا دن تھا۔ یہ الگ بات کہ آخر کار ثمر بار نہ ہو سکا۔ ایرانی قیادت کی ترجیحات اور اندازِ فکر الگ، آیت اللہ کی اولو العزمی، فقر اور شجاعت پہ کسی کو کبھی کلام نہ تھا۔ کابینہ کو مدعو کیا تو عشائیے پر صرف 52تومان صرف کیے۔
شریف خاندان کا کارنامہ کیا ہے؟ سازباز سے اقتدار، اقتدار میں دولت کے انبار۔ ایک ملک گیر مافیا کی تشکیل، سمندر پار دولت کے ڈھیر۔ دفاع یہ کہ دوسرے بھی تو ایسے ہیں۔ اگرچہ میاں جاوید لطیف کے بقول ملک سے دہشت گردی کا خاتمہ، ایٹمی پروگرام کی تشکیل اور one belt، one road کا چینی منصوبہ دراصل نواز شریف کا کارنامہ ہے۔
پاپوش میں لگا دی کرن آفتاب کی
جو بات کی، خدا کی قسم لاجواب کی
شہرِ لاہور میں کبھی بھارتی غلبے پر اظہارِ نفرت کرتا ہوا لیڈر اترا تھا۔ اخبار نے سرخی جمائی تھی "شہرِ ستمبر بھٹو پہ نچھاور ہو گیا "۔ کبھی مادرِ ملّت محترمہ فاطمہ جناح تشریف لائی تھیں۔ شہر فدا ہی نہیں، احترام سے سر نگوں تھا۔ اسی شہر میں 30اکتوبر2011ء کو تبدیلی کے پیمان پہ یقین رکھنے والی خلقِ خدا امنڈ پڑی تھی۔ اس طرح کہ مائیں اپنے بچوں کو ساتھ لائی تھیں۔ جلسہ گاہ میں دوسروں کے ساتھ وہ بھی ہنسے اور روئے، جو کبھی گھروں سے نکلے نہ تھے۔ یہ الگ بات کہ اس تبدیلی کا عَلم اب مشرف اور زرداری کے سابق فدائین فواد چوہدری اور فردوس عاشق اعوان کے ہاتھ میں ہے۔ اسی شہر کی شاہراہِ قائدِ اعظم کو اپریل 1986ء میں بے نظیر بھٹو نے ہجوم سے اس طرح بھر دیا تھا کہ شمار ممکن نہ تھا۔ ہر چند بعد میں ان کا سب اندوختہ جنابِ زرداری اڑا لے گئے اور برباد کیا۔
وسطی پنجاب اور لاہور میں نواز شریف کے حامی اب بھی دوسروں سے زیادہ ہیں۔ قومی اسمبلی کی 42میں سے 33سیٹیں انہوں نے جیتی ہیں۔ اس الیکشن میں، جب کوئی ان کا حلیف اور سرپرست نہ تھا۔ اخبارنویسوں کی پیش گوئی یہ ہے کہ جہانگیر ترین کی ہنر مندی کے باوجود، آئندہ بلدیاتی الیکشن بھی وہ جیت سکتے ہیں۔ اس شہر میں، جہاں ان کے 32اراکینِ اسمبلی ہیں، 21صوبائی اور 11قومی، وہ کوئی قابلِ فخر ہجوم کیوں نہ جمع کر سکے؟ بریانی کی دیگیں، شور شرابا، منت سماجت، التجا اور فریاد، خود اپنے حامیوں کو وہ گرما کیوں نہ سکے؟
اس لیے کہ خود قیادت نے ہمت ہار دی، روتی اوربسورتی ہے۔ جلوس کے اختتام پر نواز شریف کا انٹر ویو۔ اپنی جیل یاترا کو وہ تاریک رات کہتے ہیں، جس کی سویر ان کی رہائی پہ طلوع ہوگی۔ مرجھایا ہوا چہرہ، بجھی ہوئی آواز۔ کوئی عزم و ولولہ نہ ملک و ملت پہ ٹوٹنے والی کسی افتاد کا ذکر۔ بس اپنا ہی رونا۔
شام ہی سے بجھا بجھا سا رہتاہے
دل ہوا ہے چراغ مفلس کا
با ہمت ہوتے تو 6بجے شام سے پہلے خود اپنی گاڑی میں سوار جیل چلے جاتے۔ اقتدار اور دولت کی حرص اور دلاوری؟ ذہن کی لوح پہ محمد علی جوہرؒ کی تصویر جگمگا اٹھی ہے۔
عافیت کوش میری فطرتِ پاکیزہ نہ تھی
میں نے شمشیر فروشوں کو سپاہی نہ کہا
محمد صلاح الدین یاد آئے۔ قتل و غارت کی بھارتی الطافی مہم کے دوران کتنے برس کراچی کے مقتل میں سر اٹھائے کھڑے رہے۔
اتنے آدمی تو کسی بھی وقت جماعتِ اسلامی جمع کر سکتی ہے۔ طاہر القادری کر سکتے ہیں۔ مولانا فضل الرحمٰن کر سکتے ہیں۔ نون لیگ اب بھی بڑی پارٹی ہے لیکن کیسی پارٹی؟ جس کا صدر لندن میں پناہ گزین ہے۔ جس پر خود اس کے بھائی اور اس کی پارٹی نے اظہارِ عدم اعتماد کر کے عملاً قیادت صاحبزادی کو سونپ دی ہے۔ ایک بار نواز شریف نے کہا تھا، میں کشمیریوں کی تاریخ کا سب سے بڑا لیڈر ہوں۔ جی نہیں لیڈر سید علی گیلانی جیسے ہوتے ہیں۔ 60، 65سال سے مقتل میں کھڑا ہے۔ آج تک کبھی آواز نہیں کانپی۔ کشمیر کی آنے والی نسلیں ہمیشہ ان کی مقروض رہیں گی۔
جرات و شجاعت منڈی کا مال ہوتی تو شریفوں اور زرداریوں کے کھربوں کام آتے۔ فہم و بصیرت بازار میں بکتی تو عمران خاں خرید لیتے۔ عظمتِ کردار کا کوئی بدل نہیں، کوئی شعبدہ بازی، کوئی ہنر، کوئی سرپرستی، حتیٰ کہ عوامی مقبولیت بھی نہیں۔