ان پہ حیرت ہے، آن واحد میں جو کسی کو خطا کار ٹھہراتے ہیں۔ کسی کو آن واحد میں معصوم۔ جذبات اور جنون کے مارے، سوشل میڈیا کے شہ سوار۔ !اور اب تو اللہ کے فضل سے ہمارے عظیم سیاسی لیڈر بھی۔
لگ بھگ تین عشرے قبل ایک ملک گیر سروے سے انکشاف ہوا کہ مسلم تاریخ خطیبوں کا سب سے بڑا موضوع ہے۔ قرار اورفروغ کے مثالی دور، عہد فاروقی کے قصے بہت کہے جاتے ہیں، بالکل صحیح اور درست، مبالغہ آمیز اور کبھی تراشی کی گئی ان داستانوں کا خلاصہ یہ ہوتا ہے کہ شب بھر فاروق اعظمؓ مدینہ منورہ کی گلیوں میں گشت کیا کرتے۔ ایک ایک شخص کو وہ خوب جانتے تھے اور ایک ایک تنازعہ خود نمٹایا کرتے، کیا یہ ممکن ہے؟
فرض کیجیے زیادہ سے زیادہ چار پانچ ہزار کے شہر نبی میں ایسا ہی ہوتا ہو۔ سوال یہ ہے کہ ہزاروں میل پرے دمشق، بصرہ، نہاونداور ابھی ابھی فتح کئے گئے فسطاط میں ان امور کا اہتمام کون کیا کرتا؟
جی نہیں، محض ایک جامع الصفات شخصیت نہیں، ایک کارگر نظام تھا، ربع صدی میں جو بتدریج استوار ہوا تھا۔ سرکارؐ کا زریں زمانہ، سید ابوبکر صدیق کا بغاوت اور ہیجان کو استحکام میں بدل دینے والا دور اور اس عظیم منتظم کا عہد، جو اب بروئے کار تھا۔
گورنروں، ججوں حتیٰ کہ سرکاری اہلکاروں کا انتخاب پوری احتیاط کے ساتھ کیا جاتا۔ ان کی نگرانی کی جاتی، ضرورت پڑنے پر ان کا احتساب کیا جاتا اور کبھی ان میں سے کسی کو برطرف کر دیا جاتا۔
مسلمانوں کا مزاج یہ ہے کہ انہیں ایک طاقتورحکمران درکار ہوتا ہے، اصولوں کی پاسداری کرنے والا آدمی۔ اتنا ہی زیادہ وہ کامران رہتا ہے جتنا زیادہ انصاف پسند اور ایثار کیش ہو۔ اسی تصور کی روشنی میں بہت سے لوگ صدارتی نظام کے حامی ہیں۔
جمہوریت؟ جی ہاں سلطانیٔ جمہور، مگر ایک نظام کے تحت۔ بہترین عدالتیں، بہترین پولیس، صوبائی عہدیداروں کے انتخاب کا مرتب کوئی طریق۔ سول اداروں کے بل پر ہی کوئی معاشرہ مضبوط اور موثر ہوتا ہے۔ دفاع، ٹیکس وصولی، مظلوم کی داد رسی، علاج، تعلیم کا فروغ۔ ریاست کی بہت سی ضروریات ہوتی ہیں۔ تاریخ کی شہادت ہے کہ صرف سول ادارے ہی کسی معاشرے کو متوازن بنا سکتے اور بے چینی سے بچا سکتے ہیں جو اگر بڑھتی چلی جائے تو خرابی کو جنم دیتی اور آخر کار لے ڈوبتی ہے۔
کیا ہم کوئی ایک بھی سول ادارہ رکھتے ہیں، پوری طرح عام آدمی، جس پر بھروسہ کر سکے؟ پولیس کا حال سب جانتے ہیں، عدالتوں کا بھی، رہی سہی کسرتازہ ترین واقعات نے پوری کر دی ہے۔ عدلیہ کے بہترین ججوں کا کردار بھی مشکوک ٹھہرا ہے۔ ایسی ایسی کہانیاں اسلام آباد میں سنائی دے رہی ہیں کہ خدا کی پناہ، کراچی اور لاہور میں بھی۔ سچ جھوٹ تو اللہ جانے یا تحقیق کرنے والے۔ کراچی اور لاہور کے بعض قاضی صاحبان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ فرمائش پوری کرنے میں تامل نہیں کرتے۔ بشرطیکہ ان کی فرمائش کو بھی ملحوظ رکھا جائے۔
اسلام آباد کے ایک جج صاحب کے بارے میں ناچیزکا تاثر یہ تھا کہ علم گو زیادہ نہیں، داد پانے کی تمنابھی رکھتے ہیں مگر ڈھنگ کے آدمی ہیں۔ اسٹیبلشمنٹ اور حکومت کی پرواہ نہیں کرتے۔ سفارش نہیں سنتے۔ شب راولپنڈی سے لاہور آتے ہوئے میرے ہم سفر نے ان کے واقعات بیان کیے۔ ایک مشترکہ دوست کے حوالے سے بتایا کہ ایک سابق وزیر اعظم کے فرستادہ پیغام لے کر جاتے۔ من و عن ان پیغامات پر عمل کیا جاتا۔
جسٹس قیوم کی کہانی تو معلوم ہی ہے، کئی اور جسٹس قیوم بھی ہوں گے، جو آشکار نہ ہوئے، جن کے ٹیلی فون ٹیپ نہ کئے گئے۔ ایک زمانہ تھا کہ حکمران لوگ خود ہی قاضی چن لیا کرتے۔ ان دنوں بحث یہ ہے کہ ججوں کے انتخاب کا طریق کار ہی غلط ہے۔ خود جج حضرات ہی ججوں کا انتخاب کرتے ہیں۔ کوئی نظام ان کی نگرانی کا نہیں۔ اس دعویٰ میں کچھ مبالغہ یقینا ہے۔ ہم ایک جذباتی قوم ہیں۔ چیزوں کو سیاہ دیکھتے ہیں یا سفید۔ ہاں مگر چونکا دینے والے واقعات تو آئے دن ہوتے ہیں۔ ایسے لوگوں کی ضمانتیں قبول کر لی جاتی ہیں جن کے سنگ دل اور سفاک ہونے کے شواہد سامنے پڑے ہوتے ہیں۔ لوٹ مار میں جنہیں کوئی تامل نہ تھا، جن میں سے بعض پھر ملک سے فرار ہو جاتے اور لوٹ کر نہیں آتے۔
پون صدی ہوتی ہے، لاہور کے موچی دروازے میں قدرے ناراض ہو کر اس نادرِروزگار مگر سادہ اطوار خطیب سید عطاء اللہ شاہ بخاری نے کہا تھا" لاہور کے لوگو! تمہیں قرآن سناتے، میری داڑھی کے بال سفید ہو گئے لیکن تمہارے دلوں کی سیاہی نہ دھل سکی"
محض کتاب اللہ کی سماعت سے قلب و نظرکی تاریکیاں اجالوں میں بدل نہیں جاتیں۔ غور کرنا ہوتا ہے، اپنی خامیوں، کوتاہیوں اور تضادات کا جائزہ لینا ہوتا ہے۔ خود سے لڑنا پڑتا ہے۔ فلسفی نے کہا تھا انسانی کردار اسی طرح تشکیل پاتا ہے جس طرح جولاہا کپڑابنتا ہے۔ ایک ایک دھاگہ "من عرف نفسہ فقد عرف ربہُ، جس نے خود کو پہچانا اللہ کو پہچان سکے گا، پا سکے گا۔ قرآن کریم خود کہتا ہے کہ بے شمار اس سے گمراہ ہوتے اور بے شمار ہدایت پاتے ہیں۔ بے سبب نہیں کہ اپنے عہد کا وہ علمی مجدد اقبال سحر دم مصحف کی تلاوت کیا کرتا۔ سید ابوالاعلیٰ مودودی نے لکھا ہے کہ دیر تک، اور یہ کہا کہ قرآن کریم ان کیلئے شاہ کلیدتھا، master key، ایسی چابی، ہر تالہ جس سے کھل سکتا ہے۔ پروفیسر منور مرزا اور ڈاکٹر خورشید رضوی ایسے کریدنے والوں کو، عمر بھر کے خادم علی بخش بتایا کرتے کہ علامہ دن میں کئی بار قرآن کریم منگواتے، کچھ دیر تک اوراق میں محو رہتے رفتہ رفتہ چہرے پر اطمینان اترنے لگتا۔ حتیٰ کہ لوٹا دیتے۔
کتاب میں وہ کیا ڈھونڈا کرتے،؟ روشنی، جی ہاں روشنی، مشعل، جی ہاں قندیل۔ خود کہا تھا ؎
گرتومی خواہی مسلماں زیستن
نیست ممکن جزبہ قرآں زیستن
تو اگر مسلمان کی زندگی جینا چاہتا ہے تو قرآن کریم کے بغیر یہ ممکن نہیں۔ عمل کیا، ادراک بھی ممکن نہیں۔
فوج میں احتساب کے، حیران کر دینے والے تازہ واقعے پر غورکرتے ہوئے قرآن کریم کی قصاص کے متعلق وہی آیت یاد آئی۔ یاد آئی تو ایک جھماکا سا ہوا، چاروں طرف نور سا پھیل گیا۔
آفتاب ایک دھماکے سے افق پر آیا
اب نہ وہ رات کی ہیبت تھی، نہ ظلمت کا وہ ظلم
"و لکم فی القصاص حیاۃیا اولی الالباب۔" اے وہ لوگو جو فہم رکھتے ہو، جان لو کہ زندگی قصاص میں رکھی گئی، کوئی ابہام نہیں، کوئی پیچیدگی نہیں۔ ایک کھری اور مکمل بات، اصل الاصول، جڑ اوربنیاد۔
کوئی بھی معاشرہ تبھی زندہ رہ سکتا ہے، اپنے امراض اور خرابیوں سے نجات پا سکتا ہے، اگرایک بھر پور نظام عدل اس میں کارفرماہو۔ پوری طرح نہ سہی فوج اکثر سرخرو ہو تی ہے کہ وہ ایک طے شدہ طریق اور سسٹم میں بروئے کار آتی ہے، افسر شاہی کیوں نہیں؟ سیاست دان کیوں نہیں۔؟
کیا عدل کے ہم فقط آرزو مند ہیں یا اس کے تقاضوں کا ادراک بھی رکھتے ہیں؟ انصاف وہ ہوتا ہے جو نہ صرف رونما ہو بلکہ رونما ہوتا نظر بھی آئے۔ عدل کی بارگاہ میں کوئی معصوم ہے نہ خطا کار، جب تک اس کا فیصلہ صادر نہ ہو جائے۔ قانون کے تحت حکم لگائیں، قرائن و شواہد اور ثبوتوں کی بنیاد پر۔ ختم المرسلین کے ایک ممتاز صحابی تھے جن پر مقدمہ قائم ہوا۔ یہ جناب عمر فاروقؓ کی بارگاہ میں تھا کہ امام، قاضی بھی ہوتا ہے۔ بری ہونے کے بعد حیرت سے انہوں نے کہا: امیر المومنین آپ نے مجھ پر مقدمہ چلایا؟ فرمایا گواہ نہ ملے وگرنہ میں آپ کو سزا دیتا اور سخت سزا۔
ان پہ حیرت ہے، آن واحد میں جو کسی کو خطا کار ٹھہراتے ہیں۔ کسی کو آن واحد میں معصوم۔ جذبات اور جنون کے مارے، سوشل میڈیا کے شہ سوار!اور اب تو اللہ کے فضل سے ہمارے عظیم سیاسی لیڈر بھی۔