اس سے پہلے کیوں نہیں؟ اس سے پہلے کہ اس اثنا میں آپؐ نے صدقات کا نظام قائم فرمایا، حتیٰ کہ کوئی محتاج نہ رہا۔ کوئی بے کس نہ رہا۔ اے اہل دانش، اے اہل دانش!
اس اجڑی ہوئی فیکٹری کو دیکھا اور عبرت ہوئی۔ جوتوں کا کارخانہ جو جنرل حمید گل کے صاحبزادوں نے تعمیر کیا تھا۔ ایک جوتا انہوں نے تحفے کے طور پر پیش کیا۔ نمک منڈی پشاور کی ایک چپل کے سوا، ایسا آرام دہ جوتا زندگی بھر کبھی نہیں پہنا۔ پوچھا کہ بازار میں اس کے لئے، اس کی تھوک قیمت کیا ہے۔ "120روپے" عبداللہ نے بتایا۔ اس زمانے کی قیمتوں کے اعتبار سے بھی، اگر یہ ایک تہائی نہیں تو آدھے نرخ کا تھا۔
حیرت ہوئی کہ اس قدر عمدہ جوتے بنانے والا کارخانہ بند کیسے ہو گیا۔ جنرل صاحب کا جواب بالکل سادہ تھا۔ سود کے سبب۔ کارخانے کی مشینری بنک سے لی گئی تھی۔ حافظہ اگر درست ہے تو اس زمانے میں بنکوں کی شرح منافع 15فیصد کے لگ بھگ تھی۔ جنرل صاحب کی صاحبزادی نے جو ان کے نقش قدم پر ہیں اور جن کی روداد لکھ چکا، برسوں بعد، ڈیڑھ سو بسوں کے ایک بیڑے کا پروگرام جاری کرنے کا فیصلہ کیا۔ گھبرایا ہوا میں جنرل صاحب کے پاس گیا اور دلیل پیش کی: سودی کاروبار شرفا کو ہضم نہیں ہوتا۔ آپ کو اس کا تجربہ ہے۔ اکثر و بیشتر ٹرانسپورٹ یوں بھی بازاریوں کا پیشہ ہے۔
کاروبار کا میاں بیوی کو وسیع تجربہ تھا۔ وسطی ایشیا میں دوائوں کے کاروبار سے کروڑوں روپے انہوں نے کمائے تھے۔ اس کے باوجود یہ سوال اپنی جگہ موجود تھا کہ کاروبار کے لئے سود کا جواز کیا موجود ہے؟ جنرل صاحب نے دخل در معقولات کا برا منایا اور نہ یوسف گل اور ان کی بیگم صاحبہ نے۔ میرے دلائل نہایت تحمل سے سنے۔ قسمت آزمائی پر لیکن وہ تلے تھے۔ سر منڈاتے ہی اولے پڑے۔ شہباز شریف رخصت ہوئے، ایسے منصوبوں کی جو حوصلہ افزائی کیا کرتے اور خاندان سے جن کے مراسم تھے۔ جنرل مشرف تحت نشین ہوئے۔ باقی تاریخ ہے۔
ایک واقعہ اس سے پہلے رونما ہو چکا تھا اور ایک بعد میں۔ فیصل آباد میں، میرے مرحوم بڑے بھائی اور ان کے دوستوں نے ایک کروڑ کے قرض سے کارخانہ قائم کیا اور امارت کا خواب دیکھا۔ والدہ مرحومہ بی بی جی کو پتہ چلا تو برہم وہ رحیم یار خان سے لائل پور پہنچیں اور سخت گوشمالی کی۔ اس قدر وہ ناراض تھیں کہ بیٹے کے ہاں کچھ کھانے پینے سے انکار کر دیا۔
ساری زندگی قرآن کریم پڑھتے گزری تھی۔ آخری برسوں میں حال یہ تھا کہ دور دراز مقامات پر رشتہ داروں کے ہاں جاتیں۔ ان کی ضروریات کا تعین کرتیں اور ہاتھ بٹاتیں۔ پھر وہ وقت بھی آیا کہ ہر شب بستر پر جانے سے پہلے ساری نقدی خیرات کر دیتیں۔ اپنی اولادمیں دولت کی محبت کیوں کر گوارا ہوتی۔
کارخانہ ڈوب گیا اور جرمانہ اداکرنا پڑا۔ قسمت مہربان تھی کہ زمین کی قیمت بڑھ گئی تھی اور بنک نے سود معاف کر دیا۔ لاکھوں روپے اس کے باوجود ادا کرنا پڑے۔
پندرہ برس ہوتے ہیں۔ پروفیسر احمد رفیق اختر نے راولپنڈی کے دو تاجروں کو بھیجا۔ پی ٹی آئی کے ایک لیڈر نے جو اب زمانے کی گرد میں گم ہو چکے؛ایک کروڑ روپے سود پر انہیں دیے تھے۔ ساڑھے چار کروڑ وہ ادا کر چکے تھے اور ساڑھے سات کروڑ باقی تھے۔
عمران خان سے ان دنوں گاڑھی چھنتی تھی اور پی ٹی آئی کے لیڈروں کو اس کا ادراک تھا۔ وہ یوں بھی ناتراشیدہ سا آدمی تھا۔ مالدار مگر لاچار سا۔ اتفاق سے میرے بھائی سینیٹر طارق چودھری بھی موجود تھے۔ موصوف سے فون پر بات کی تو گھبرائے کہ دس فیصد ماہانہ سود کا جواز کیا ہے؟
عمران خان سے بات کی تو دونوں ہاتھوں سے انہوں نے اپنا سر پکڑ لیا۔ بولے کچھ نہیں۔ تاجروں سے پوچھا:آپ کو سوجھی کیا؟ جواب ملادرآمدی ملبوسات پہ پندرہ بیس فیصد منافع تھا۔ ہر ماہ پانچ دس لاکھ بچ جاتے، پھر زوال آیا اور بربادی اتری۔
گوجرانوالہ میں میرے ایک دوست کی داستان، اس سے بھی زیادہ عبرت انگیز ہے۔ چھوٹے بھائی کا قرض اتارتے بوڑھے ہو گئے۔ ترس آتا ہے کہ اس بھلے آدمی کے آخری برس نحوست کی نذر ہو گئے۔
سود حرام ہے۔ قرآن کریم کی آیات اس باب میں اس قدر شدید ہیں کہ لرزہ طاری ہو جاتا ہے۔ لاہور میں میرے خاندان کی کچھ زمین تھی۔ نظم ونسق جس کا میرے پاس تھا۔ عامیوں کے لئے ایک عدد رہائشی کالونی کی تعمیر ممکن تھی۔ غیر سودی قرضوں کے بارے میں تحقیق کی تو معلوم ہوا کہ دراصل سودہی ہیں۔
پھر اخوت کے سربراہ سے جان پہچان ہوئی، نوبل پرائز کے لئے جن کا نام تجویز ہو چکا۔ ایک غیر سودی بنک قائم کرنے کا ارادہ رکھتے تھے۔ میں انہیں پروفیسر صاحب کے پاس لے گیا۔ اب میں تھک چکا ہوں اور اکثر معذرت کر لیتا ہوں۔ اس زمانے میں عمران خان اور جنرل کیانی سمیت ہر ایک کو ان کے گھر کا دروازہ دکھایا کرتا۔
پروفیسر صاحب نے کہا:سود کے انسداد کا ایک ہی طریق ہے، صدقات بنک۔ اور سرکارؐ کے ارشاد سے آشنا کیا:ایک زمانہ آئے گا کہ اگر سود نہیں تو سود کا دھواں ہر کسی تک پہنچے گا۔ چھوٹے صاحبزادے اویس رشید حد سے زیادہ محتاط آدمی ہیں اتنے کہ جنرل کیانی بھی ان کی کم گوئی سے پریشان ہو گئے۔ ایم بی اے کی تعلیم مکمل کر چکے تو ایک معقول ادارے میں اپرنٹس شپ کے لئے بھیجا۔ کچھ دن میں لوٹ آئے۔ اپنی ماں سے کہا:وہاں تو سود کا لین دین ہے۔ بتایا کہ سود کی یہ رقم غربا میں بٹتی ہے۔ منتظمین کے دسترخوان پر نہیں پہنچتی۔ آنجناب نے انکار کر دیا کہ گھر کی دال روٹی اچھی۔
تقویٰ اچھا، اچھا نہیں، عظیم ترین بالیدگی۔ فہم و فراست بھی مگر ایک چیز ہے۔ قرآن کریم اللہ کا کلام ہے۔ کتاب ہدایت اور کتاب تخلیق۔ حدیث مبارک مگر دیکھنا ہوتی ہے۔ سنت کا مطالعہ کرنا پڑتا ہے۔ تاریخ کے اوراق چھاننا پڑتے ہیں۔ میرے مرحوم استاد حافظ اسمٰعیل، ہم سب نے جن سے قرآن کریم باترجمہ پڑھا، نابینا تھے مگر دانا ایسے کہ سبحان اللہ۔ 1968ء میں ایک خواب کی تعبیر بتاتے ہوئے کہا:مشرقی پاکستان الگ ہو جائے گا، حالانکہ اخبار پڑھ نہ سکتے تھے، ٹی وی دیکھتے تھے اور اہل سیاست سے گریز تھا۔
میرے چھوٹے بھائی محمد امین سے جو خود بھی فقہ کے طالب علم ہیں۔ ایک بار کہا:حدیث کی تفہیم تاریخ کی روشنی میں کی جاتی ہے۔ سود کے خلاف شرعی عدالت کا فیصلہ سر آنکھوں پر۔ پانچ سال کی مہلت بھی دانائی کی دلیل ہے۔ آدمی ایک تجزیہ کرتا ہے اور پھر یہ دعا کہ یا رب یہ غلط ثابت ہو۔
پانچ برس بعدشائدہم اس دنیا میں نہیں ہوں گے مگر لکھ لیجیے کہ یہ فیصلہ نافد نہ ہو گا۔ کون نافذ کرے گا؟ نواز شریف، آصف علی زرداری یا عمران خان یا ہماری پیاری اسٹیبلشمنٹ۔ اس سے پہلے بھی تو شریعت کورٹ ایسا ہی حکم صادر کر چکی۔ محمود غازی، اس مکرم اور پاک باز استاد کو اللہ تعالیٰ کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے، کئی راتیں اس فیصلے کے لئے جاگ کر گزاری تھیں۔
اسلام کے اصول اٹل ہیں۔ ان سے اعتراف جرم نہیں، گناہ ہے اور گناہ کی سزا آگ، بہتریہ کہ توبہ کر لی جائے۔ ایک قدسی حدیث مگر یاد دلاتی ہے۔ اللہ نے عقل کو پیدا کیا تو اس پہ ناز فرمایا۔ ارشاد کیا کہ آج کے بعد جو بھی دوں گا، اس کے ذریعے دوں گا۔ آج کے بعد جو بھی لوں گا، اس کے سبب۔
اور سرکارؐ کا طریق؟ وہ جن کے بارے میں ارشاد ہے کہ اپنی آرزو سے وہ کچھ نہیں کہتے۔ بس وہی جو ان پر اتارا جاتا ہے۔۔
سود کی آیات نازل ہو چکیں اور آپؐ نے ارشاد فرمایا؛ حتیٰ کہ آخری حج کا خطبہ ارشاد کیا، آج میں سارے سود باطل قرار دیتا ہوں۔
اس سے پہلے کیوں نہیں؟ اس سے لئے کہ اس اثنا میں آپؐ نے صدقات کا نظام قائم فرمایا، حتیٰ کہ کوئی محتاج نہ رہا۔ کوئی بے کس نہ رہا۔ اے اہل دانش، اے اہل دانش!