ہمیشہ عرض کیا کہ سیاست میں سب سے زیادہ اہمیت لیڈروں اور گروہوں کی نہیں، اُبھرتی ہوئی صورتِ حالات کی ہوتی ہے۔ قرائن یہ ہیں کہ صورتِ حالات اب پاکستان کے حق میں ہے، عمران خان کے لیے سازگار ہے۔
کم از کم وقتی طور پراس کا علم بلند ہے۔ ملک کے اندر اور باہر بھی۔ کم از کم فی الحال اپنے حریفوں کو زچ کرنے میں وہ کامیاب ہے۔ میاں محمد نواز شریف، آصف علی زرداری اور مولانا فضل الرحمٰن کی ترجیح اور تمنا یہ تھی کہ اسے اکھاڑ پھینکا جائے۔ کم از کم کمزور اور پست ضرور کر دیا جائے۔ ان کی بات بنی نہیں۔
سب سے بڑی وجہ تو شاید یہی ہے کہ عام لوگ روز روز کی اکھاڑ پچھاڑ کے حق میں نہیں ہوتے۔ وہ ہر حکومت کو مہلت دیتے ہیں۔ جبلی طور پہ وہ جانتے ہیں کہ افراتفری خطرناک ہوتی ہے۔ ایک عام آدمی کا مسئلہ امن اور روزگار ہوتا ہے۔ سیاستدانوں اور سیاسی پارٹیوں کے باب میں ایک بڑی تعداد کی پسند اور ناپسند ہوتی ہے لیکن اس سے بھی زیادہ وہ اپنے شب و روز میں تحفظ اور قرار کے آرزومند ہوتے ہیں۔
ہجوم اکھٹا کرنے کی زیادہ صلاحیت کے باوجود، اگست 2014ء میں جو تحریک عمران خان نے شروع کی تھی، اپنا بنیادی مقصد وہ حاصل نہ کر سکی ؛اگرچہ پرجوش کارکنوں کی ایک بہت بڑی تعداد پشت پر کھڑی تھی، خواتین میں بھی۔ خفیہ تائید بھی حاصل تھی۔ اس قدر بھرپور کہ چیف آف آرمی سٹاف جنرل راحیل شریف نے ذاتی طور پر انتخابی دھاندلی کی تحقیقات کی پیشکش کی تو آنجناب نے مسترد کر دی۔ نواز شریف کے استعفے سے کم کسی چیز پر وہ راضی نہ تھے۔ تحقیقات میں فوجی نگرانی کا انہوں نے وعدہ کیا تھا۔
کہا جاتاہے کہ شہباز شریف کو الگ کرنے کا بھی۔ اس ناچیز سمیت بہت سے لوگوں نے کہا کہ سپہ سالار کی ضمانت سے تحقیقات ایک تاریخی کامیابی ہوگی، جیسے بعد ازاں پانامہ کے معاملے میں۔ وہ مان کر نہ دیے۔ دھرنے میں مظاہرین کی تعداد کم سے کم ہوتی چلی گئی۔ بالاخر آرمی پبلک سکول کے سانحے سے جواز پاکر قومی اسمبلی کے ایوان میں ان کے ارکان داخل ہوئے۔ یکسر بجھے ہوئے اور ان کا مذاق اڑایا گیا۔ 126دن کا دھرنا، ٹی وی سکرینوں پہ ہمہ وقت موجودگی بھی کام نہ آسکی۔
اپوزیشن کی تحریک بھی قبل از وقت ہے۔ 2018ء کے الیکشن میں عمران خان کی کامیابی بے داغ نہیں تھی۔ بلوچستان میں بساط جس طرح بچھائی گئی، الگ صوبے کے نام پر جنوبی پنجاب کا محاذ جس طرح وجودمیں آیا اور بالاخر پی ٹی آئی کا حصہ بنا۔ غیر سیاسی طاقتوں نے انہیں جو مدد فراہم کی وہ تاریخ کا حصہ ہے۔
عمران خان کی کامیابی کو مگر اکثریت نے مان لیا۔ حریفوں کی ناکامی صرف یہ نہ تھی کہ نشستیں ان کی کم رہیں بلکہ بدعنوانی کے سنگین الزامات بھی۔ فعال طبقات کی اکثریت اور اسٹیبلشمنٹ ان کے بارے میں مایوسی کا شکار تھی۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ کرپشن کا مسئلہ اجاگر ہوتا گیا۔ یہ احساس بڑھتا گیا کہ آصف علی زرداری اور نواز شریف کے ہوتے ہوئے بدعنوانی کا عفریت پھلتا پھولتا رہے گا۔ ملک مصیبت سے نجات نہیں پا سکے گا۔ وہ ادھوری تصویر دیکھتے ہیں جو یہ سمجھتے ہیں کہ عمران خان کی کامیابی محض خاموش طاقتوں کی مرہونِ منت ہے۔
وہ نظر انداز کرتے ہیں کہ پرجوش نوجوانوں کی کتنی بڑی تعداد یکسو ہو کر میدان میں اتر آئی تھی۔ ان میں بہت سے وہ تھے، پہلے جنہیں سیاست سے دلچسپی نہ تھی۔ روایتی سیاست سے جو تنگ آچکے تھے۔ یہ پہلی بار نہیں ہوا۔ کبھی بھٹو بھی اسی طرح ابھرے تھے اور اس سے بہت پہلے پچھلی صدی کے اوائل میں اقبالؔ نے یہ کہا تھا:
پرانی سیاست گری خوار ہے
زمیں میر و سلطاں سے بے زار ہے
دانائے راز تب تصورِ پاکستا ن کے بارے میں یکسوہو چکا تھا اور قائدِ اعظم محمد علی جناح کو غالب آتے دیکھ رہا تھا۔ اپنی زندگی کے آخری برسوں میں کمال انہماک سے اس پر زور دیا کرتے تھے کہ مسلم بر صغیر کو مسلم لیگ کے پلیٹ فارم پر جناح کی قیادت میں متحد ہو جانا چاہیے۔ ابو الکلام سے کبھی ان کا حسنِ ظن تھا ہی نہیں۔ اب وہ دیو بند کی سیاسی قیادت سے بھی ناخوش تھے۔ وہ ان نادرِ روزگار ہستیوں میں سے ایک تھے جو زمین اور زندگی کو آسمان سے دیکھتی ہیں۔ عہدِ آئندہ کی جھلکیاں جن کے ضمیر میں جھلکنے لگتی ہیں۔ اسی زمانے میں کہا تھا
ز دیو بندِ حسین احمد ایں چہ بو العجبی است
سرود بر سرِ منبر کہ ملت از وطن اوست
مصطفی برساں خویش را کہ دیں ہمہ اوست
اگر بااو نہ رسیدی تمام بولہبی است
دیوبند کے جناب ِ حسین احمد نے کیسی عجیب بات کہی کہ قوم وطن سے ہوتی ہے۔ مصطفیﷺ کا ارشاد تو یہ ہے کہ دین ہمہ گیر ہے۔ اگر یہ نہیں تو باقی سب ابو لہب کا راستہ۔
وقت جب پلٹتا ہے، زمانہ جب کسی پہ مہربان اورکسی پہ نا مہربان ہوتاہے تو کوئی کاوش، کوئی حربہ کسی کے کام نہیں آتا۔ تاریخ میں جب طوفان اٹھتے ہیں تو لشکر اور گروہ، پارٹیاں اور لیڈر تنکوں کی طرح اڑنے لگتے ہیں۔ ایک لہر اٹھتی ہے اور عوامی نفسیات بدل جاتی ہیں۔ فرمایا: لوگوں کے دل دشت میں پڑے ہوئے پر کی مانند ہیں، ہوا جسے الٹاتی پلٹاتی ہے۔
انسان کا المیہ یہ ہے کہ وہ قدر ت کے اشاروں پہ کم غور کرتا اور عالمِ اسباب پہ تکیہ زیادہ کرتا ہے۔ بھول جاتاہے کہ یہ عالمِ اسباب جس نے پیدا کیا ہے، وہی اسے زیر وزبر بھی کر دیتاہے۔ جسے چاہتا ہے، ملک عطاکرتاہے اور جس سے چاہتا ہے، چھین لیتاہے۔ کوئی تدبیر کام نہیں آتی۔ کوئی تدبیر کام نہیں آتی۔ تمام تر توانائی آدمی جھونک دیتاہے مگر سب برباد ہوتی ہے۔ کبھی ایسا ہوتاہے کہ آدمی پوری تدبیر نہیں کرتا۔ عمران خان کی طرح غلطیوں اور حماقتوں کا مرتکب ہوتا ہے مگر کامیابی کو جا لیتاہے۔
پرسوں پرلے روز شہباز شریف نے کہا: عمران خان کے دورے پہ بات کرنا وقت ضائع کرنے کے مترادف ہے۔ ابتدا میں عمومی تاثر یہی تھا کہ امریکہ میں خان کی کوئی خاص پذیرائی نہ ہوگی۔ مخالفین شاد تھے اور تیز و تند جملوں کی بارش، جیسے کسی کمزور لشکر پر ایک جما ہوالشکر تیر برسائے۔
یکا یک پھر کیا ہوا؟ بادل یکا یک جس طرح جھوم کر اٹھیں اور جل تھل ایک ہو جائے۔ حالات نے کروٹ ہی ایسی لی ہے کہ سب کچھ بدلتا دکھائی دیتا ہے۔ افغانستان میں لڑنے والے سارے فریق تھک ہار چکے۔ بنیادی حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کی امریکہ کو ضرورت آن پڑی ہے لیکن خود افغانستان میں امن کی آرزو غالب آچکی۔ پھر یہ کہ روس اور چین بھی اس سرزمین میں قرار کے آرزومند ہیں۔ بڑھتے پھیلتے چین کو ٹھہراؤچاہیے۔
روس وسطی ایشیا میں استحکام کا خواہشمند ہے۔ اس صورتِ حال نے پاکستان کے لیے امکانات کے دروازے چوپٹ کھول دیے ہیں۔ اس لیے کہ وہ افغانستان اور وسطی ایشیا کادروازہ ہے۔ ا س لیے کہ قیامِ امن میں وہ اہم ترین کردار ادا کرنے کا اہل ہے۔ واپسی میں شرمندگی اور جانی نقصان سے بچنے کے لیے وہی انکل سام کی مدد کر سکتاہے۔
ہمیشہ عرض کیا کہ سیاست میں سب سے زیادہ اہمیت لیڈروں اور گروہوں کی نہیں، ابھرتی ہوئی صورتِ حالات کی ہوتی ہے۔ قرائن یہ ہیں کہ صورتِ حالات اب پاکستان کے حق میں ہے، عمران خان کے لیے سازگار ہے۔