فقط ایک لیڈر نہیں، محض ایک پارٹی بھی نہیں، ادبار سے نجات کے لیے پوری قوم کو بروئے کار آنا ہوتا ہے۔ ہر شعبہء حیات کو۔ فقط بحث و تمحیص، چیخ و پکار اور گریہ و فریاد سے زندگی نہیں سنورتی، ادبار نہیں ٹلتا۔ انسانوں کے لیے وہی کچھ ہے، جس کے لیے وہ ریاضت کریں، جس کے لیے وہ سرگرمِ عمل رہیں۔
کیا عمران خان تعمیرِنو کا کارنامہ انجام دے سکتے ہیں؟ کیا وہ اس معاشرے کو دلدل سے نکال سکتے ہیں، جہاں آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے۔ ملاوٹ اتنی عام کہ دودھ کا ایک بھی خالص قطرہ میسر نہیں۔ زہریلے سپرے کے بغیر کوئی سبزی اور پھل میسر نہیں۔ رشوت عام ہے۔ خیانت، جھوٹ اور قوانین سے انحراف۔ کام چوری شعار ہے۔ دن بھر ٹی وی بحث مباحثوں میں دھڑلے سے جھوٹ بولا جاتا ہے۔ تاجر ٹیکس ادا نہیں کرتے، تمام سوجھ بوجھ تاویلیں تراشنے میں۔
اخبار نویس اور دانشور ذہنی طور پر الجھے ہوئے ہیں۔ بعض کو سچائی سے غرض ہی نہیں۔ علما فرقہ پرستی میں پڑے ہیں۔ یا حبّ ِ جاہ اور اقتدار کی سیاست میں۔ میدانِ صحافت کے بعض شہسوار این جی اوز سے وابستہ ہیں۔ ظاہر ہے کہ اپنی نہیں، سرپرستوں کی ترجیحات۔ افسر شاہی بگڑ چکی۔ جزا و سزا سے بے نیاز، حکمرانوں کے لیے سرگرم ہوتے ہیں۔
تحریکِ انصاف کی بنیادپڑی تو امید کی کرن جگمگائی اور لوگ لپکے۔ رحیم یار خان کے میاں عبد الخالق ان میں سے ایک تھے، ناتراشیدہ مگر صاف ستھرے۔ وہ بیک وقت قومی اسمبلی کے ممبر اور بلدیہ رحیم یار خان کے منتخب چئیرمین تھے۔ لاہور میں گلبرگ کی مرکزی شاہراہ پر جو فوارہ دس لاکھ روپے میں نصب ہوا تھا، رحیم یار خان ٹاؤن ہال کے سامنے ستر ہزار روپے میں لگوا دیا۔ ان سے کہا گیا: آپ کا نام لکھ لیا ہے۔ انتظار کیجیے۔ انتظار کرتے کرتے وہ اس دنیا سے چلے گئے۔ رفتہ رفتہ گھوڑے اور گدھے کی تمیز جاتی رہی ؛حتیٰ کہ ٹھگ اور ولی اللہ کی بھی۔ ابھی ابھی کسی نے پارٹی کے ایک تازہ نوٹیفیکیشن کی نقل ارسال کی ہے، مرکزی مجلسِ عاملہ کے نئے اراکین کی فہرست۔ ناقص و اعلیٰ اس میں ایک ہی تھان پر بندھے ہیں۔
آٹھ نو برس ہوتے ہیں، راولپنڈی کے دو تاجر تشریف لائے۔ ایک ایسی معزز شخصیت کے توسط سے، جن کا علم، صداقت شعاری، دردمندی اور انسان دوستی ضرب المثل ہے۔ میرے خالہ زاد بھائی، سابق سینیٹر طارق چوہدری بھی اتفاق سے موجود تھے۔ موسمِ بہار میں درختوں کے سائے تلے جو کہانی ان لوگوں نے سنائی، ناقابلِ یقین سی تھی۔
تحریکِ انصاف کے ایک لیڈر سے جو اصلاً ایک تاجر تھا ایک کروڑ روپے قرض انہوں نے لیا تھا۔ دس فیصد ماہانہ شرح سود پر۔ چار کروڑ ادا کر چکے مگر سات کروڑ اب بھی باقی تھے۔ خوفزدہ تھے، ا س لیے کہ سود پر قرض دینے والے ہر طرح کے حربے استعمال کرتے ہیں۔ وہ غنڈے پالتے اور گردن سے دبوچ لیتے ہیں۔ تاجروں کی حماقت پہ افسوس کااظہار کیا تو انہوں نے بتایا کہ سلے سلائے ملبوسات وہ درآمد کیا کرتے، جس میں پندرہ بیس فیصد بیک مشت منافع ہوتا۔ لیکن پھر حالات بگڑے اور وہ بے دست و پا۔
ان صاحب کو میں نے فون کیا۔ پوچھا کہ ان کا موقف کیا ہے۔ انہوں نے وعدہ کیا کہ تفصیل سے بات کریں گے۔ اگلے ہی دن پارٹی دفتر میں عمران خان سے ملاقات کی اور قصہ کہہ سنایا۔ دونوں ہاتھوں سے کپتان سر پکڑ کر بیٹھ گیا، جیسا کہ ایسی صورتِ حال میں موصوف کیا کرتے ہیں۔ ایک لفظ بھی زبان سے ادا نہ کیا۔ میں نے فقط یہ کہا کہ اس آدمی کو چلتا کرو۔
حیرت اس پر ہوئی کہ وہ وہیں کا وہیں رہا۔ اخبارات میں اس کے بیانات چھپتے اور ادنیٰ قسم کے ٹی وی چینلز پر پارٹی کا موقف پیش کرنے کے لیے وہ نمودار ہوتا۔ تھوڑی سی تحقیق سے معلوم ہوا کہ لقمہء تر پیش کرنے کے بل پر۔
اس طرح کے لوگ کائیاں بہت ہوتے ہیں۔ ایک اچھے بھلے اخبار میں، جس سے میں وابستہ تھا، بلیک میلنگ اور رشوت ستانی کا جہاں دخل نہ تھا، دو بار اس کا بیان رنگین تصویر کے ساتھ چھپا۔ پہلی بار نیوز ایڈیٹر کو جتلایا، دوسری بار سختی سے تنبیہہ کی گئی تو وہ باز آیا۔ فوراً تو نہیں، کچھ عرصے بعد منصب سے الگ کر دیا گیا۔ ٹکٹ بھی مل نہ سکا مگر گاہے اب بھی خاں صاحب کے اردگرد دکھائی دیتاہے۔ اسی قماش کے کچھ اور لوگ بھی۔ ان میں سے بعض اہم فیصلوں پہ اثر انداز ہوتے ہیں۔
نئی مجلسِ عاملہ میں ایک ایسا وزیر بھی شامل ہے، بڑے پیمانے کی خرابی پھیلانے اور کرپشن کے ثبوت ملنے پر جس سے استعفیٰ لے لیا گیا۔ جمعہ کے دن میانوالی کے جلسہء عام میں وہ موجود تھا اور نئی مجلسِ عاملہ میں نمایاں۔ وہ ایک گروپ کا حصہ ہے، جو کبھی پارٹی سے اکھاڑ پھینکے جاتے ہیں اور کبھی لوٹ آتے ہیں۔ معلوم نہیں، کس طرح۔ یہ تو ہم سب جانتے ہیں کہ مردم شناسی کپتان میں نام کو نہیں۔ کانوں کے کچّے اور ہمہ وقت حاضر رہنے والے لوگ موصوف پہ زیادہ اثر انداز ہوتے ہیں، چرب زبان اور خوشامدی۔
کبھی میاں عبد الخالق ایسا صاف ستھرا آدمی تحقیق کے بغیر قابلِ قبول نہ تھا۔ اب بازاری لوگ بھی گوارا ہیں۔
جمعے کی شام پارٹی کے چار ممتاز رہنماؤں سے الگ الگ بات ہوئی۔ ان سب نے وہی سوال پوچھا، سارا وقت جس پہ بحث ہوا کرتی ہے۔ ملک کا کیا بنے گا؟ خان صاحب ا ور پارٹی کا کیا ہوگا؟ عرض کیا: بعض اعتبار سے حالات اب قدرے سازگار ہیں۔ ملک کے دیوالیہ ہونے کا خطرہ ٹل چکا۔ افغانستان کی صورتِ حال نے امریکی دباؤ کم کرنے کے امکانات روشن کر دیے۔ اپوزیشن لیڈر جیلوں میں پڑے ہیں یا نیب اور عدالتوں کی زد میں۔ اسٹیبلشمنٹ پشت پر کھڑی ہے۔ اب یہ خان صاحب اور ان کے ساتھیوں پر ہے کہ نسبتاً ہموار پانیوں میں بھی کشتی کو ساحل تک کھینچ لاتے ہیں یا نہیں۔
گزارش کی کہ عثمان بزدار ایسے دانا ملک نہیں چلایا کرتے۔ کارِ سیاست میں ترجیحات مرتب کرنے اور نفاذ کے لیے پرعزم رہنا ہمیشہ لازم ہوتاہے۔ کامیاب حکمران وہ ہوتاہے، جو مشکل فیصلے صادر کر سکے۔ تنقید اور اختلاف کی تند ہوائیں جسے متزلزل نہ کر سکیں۔ لچک ضرور دکھائے، کمزوری کا مظاہرہ نہ کرے۔ سرکاری اداروں کی جلد نجکاری سے کم از کم چھ سات اور بالاخر گیارہ سو ارب روپے ہر سال بچائے جا سکتے ہیں۔
بجلی اور گیس چوری روکنا ہوگی۔ ہر روز ایک نئی ریل گاڑی چلانا خطرناک ہے کہ خسارہ بڑھتا جائے گا۔ معیشت کو بہرحال دستاویزی کرنا ہوگا۔ پولیس، پٹوار اور افسر شاہی کی اصلاح کا آغاز لازم ہے۔ پختون خوا کی طرح دیگر صوبوں کے ہسپتالوں اور تعلیمی اداروں کو بہتر بنانا ہوگا۔ ان سب چیزوں کے لیے وفاق، محکموں اور صوبوں میں بہترین افراد کا انتخاب کرنا ہوگا، خاص طور پر ایوانِ وزیرِ اعظم کے لیے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ تقریباً سبھی نے اتفاق کیا۔ عجیب تر یہ ہے کہ ان میں سے کوئی پارٹی کے اجلاسوں میں آواز نہیں اٹھاتا، اخلاقی اعتبار سے ایک کمزور معاشرہ۔
فقط ایک لیڈر نہیں، محض ایک پارٹی بھی نہیں، ادبار سے نجات کے لیے پوری قوم کو بروئے کار آنا ہوتا ہے۔ ہر شعبہء حیات کو۔ فقط بحث و تمحیص، چیخ و پکار اور گریہ و فریاد سے زندگی نہیں سنورتی، ادبار نہیں ٹلتا۔ انسانوں کے لیے وہی کچھ ہے، جس کے لیے وہ ریاضت کریں، جس کے لیے وہ سرگرمِ عمل رہیں۔