Tuesday, 19 November 2024
  1.  Home/
  2. 92 News/
  3. Teergi Hai Ke Umadti Hi Chali Aati Hai

Teergi Hai Ke Umadti Hi Chali Aati Hai

زندگی گل رنگ کبھی نہ تھی۔ اب تو محض کچرے کا ڈھیر ہو گئی۔ دکھ کی بات یہ ہے کہ کسی کو احساس ہی نہیں۔ ادراک ہی نہیں۔ اخلاق ہی اگر نہیں تو سیاست کیا۔ آدمی کیا جانور ہے کہ فقط راتب پہ جی لے۔

تیرگی ہے کہ امڈتی ہی چلی آتی ہے

ڈونلڈ ٹرمپ کے ووٹ آٹھ کروڑ اور جو بائیڈن کے 7 کروڑ تھے۔ ٹرمپ ہار گئے اور بائیڈن جیت گئے۔ بظاہر یہ امریکہ کے نئے انتخابی نظام کا ثمر ہے، جہاں ووٹ ریاستوں کے ہوتے ہیں، فقط آباد ی کے تناسب سے نہیں۔ ایک روایت ہے جو صدیوں سے چلی آتی ہے اور محترم ہے۔

ایک نکتہ لیکن اور بھی ہے۔ ٹرمپ میں من مانی کا رجحان اگر نہ ہوتا۔ اگر وہ جھوٹ کے عادی نہ ہوتے۔۔ ایک امریکی اخبار نے گن کرلکھا: روزانہ اتنی بار کذب بیانی کا وہ ارتکاب کرتے ہیں۔۔ اگر مخالفین کا وہ تمسخر نہ اڑاتے۔ اگر وہ دوسروں کی عزت کرنے کے قائل ہوتے تو خود بھی تکریم سے بہرہ ور ہوتے۔ اگر جذبات بھڑکانے کے وہ قائل نہ ہوتے۔ اداروں کی اہمیت اگر تسلیم کرتے۔ اڑھائی صدیوں کی ریاضت سے جو ان کی قوم نے مرتب کیے ہیں۔ اگر وہ حلیفوں کو امریکی شیر کا مارا ہوا شکار نہ سمجھتے۔

عرب حکمرانوں کے بارے میں انہوں نے کہا کہ ایک ہفتہ بھی ان کی مرضی کے بغیر وہ اقتدار میں نہیں رہ سکتے۔ غیر مصدقہ ہی سہی، خفیہ اداروں کی اطلاع یہ تھی کہ سعودی عرب کے پرنس محمد بن سلمان پر گولی چلانے کا حکم انہوں نے صادر کیا تھا۔ نتیجہ یہ ہے کہ آج سعودی عرب کے ولی عہد نے ٹکا سا جواب امریکہ کو دیا۔ تیل کی پیداوار بڑھانے سے انکار کر دیا اور یہ کہا کہ اگر ان کی وہ عزت نہیں کرتے تو انہیں بھی اس کی پرواہ نہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ براہِ راست اگرچہ ذمہ دار نہیں مگر واقعات کے تسلسل اور آخری نتیجے میں ان کا کردار بھی ہے۔

نوبت یہاں تک پہنچی کہ یوکرین کے تنازعہ میں بھارت، بنگلہ دیش اور متحدہ عرب امارات نے بھی امریکہ کی حمایت سے انکار کردیا۔ امارات کو ریاست ہائے متحدہ نے ایف 35طیارے دینے سے انکار کر دیا۔ یہی نہیں بلکہ کالا دھن سفید کرنے کا الزام لگایا اور FATFکے پلیٹ فارم سے بھورے ممالک کی فہرست میں شامل کر دیا۔ ثمر یہ کہ دونوں ممالک نے امریکہ سے برسرِ جنگ پیوٹن سے رابطہ کیا۔

ان حالات میں کہ قدم قدم چین آگے بڑھتا جا رہا ہے، بچت کی خوگر قوم کے پاس دولت کا ایک انبار پڑا ہے۔ وہ ایک ایسا معاشرہ ہے، بچت کرنے والوں کے جہاں کلب قائم ہیں۔ ریاست ہائے متحدہ کے مقابلے میں، جس کی کئی نسلیں تمول میں پلی ہیں، آسودگی کے باوصف چینی ابھی سخت جان ہیں۔ روپے پیسے کے معاملات میں اگرچہ وہ امریکیوں سے بھی زیادہ سخت گیر ہیں۔ اقلیتوں کے ساتھ ان کا سلوک مثالی نہیں۔ محروم اور کمزور ممالک مگر یہ دیکھتے ہیں کہ امریکیوں کا سا گھمنڈ ان میں نہیں پایا جاتا۔ پھر یہ کہ سوچ سمجھ کر وہ فیصلے کرتے ہیں۔ اقتصادی، عسکری، سائنسی اور ابلاغی اعتبار سے کہیں زیادہ طاقتور ہونے کے باوجود۔ جاپان، بھارت، آسٹریلیا اور برطانیہ کی کھلی تائید کے ساتھ یورپی یونین کی حمایت کے باوجود امریکی پیچھے ہٹ رہے ہیں۔ روس کل ادبار کا ماراتھا، آج وہ ان کے خلاف خم ٹھونک کر کھڑا ہے۔ عوامی جمہوریہ چین نے اعلانِ جنگ واشنگٹن کے خلاف نہیں کیا۔ مسلسل مگر وہ آگے بڑھتا اور امریکہ پیچھے ہٹتا جا رہا ہے۔ عالمی بینکاری نظام کے علاوہ آئی ایم ایف اور عالمی بینک سمیت اقوامِ متحدہ پر اس کا غلبہ ہے۔ اس کے باوجود امریکہ کے مقدر میں زوال کیوں ہے؟ عوامی جمہوریہ چین فروغ پذیر کیوں؟

یہ دنیا اس کی ہے، جس نے تخلیق کی ہے۔ ایک پتہ بھی اس کے حکم کے بغیر ہلتا نہیں۔ اس کے طے کردہ قوانین کمال خوبی اور شان کے ساتھ پیہم بروئے کار رہتے ہیں۔ بندگانِ خدا ہی کیا، شجر اور حجر تک، انحراف کی کسی کو مجال نہیں۔ جسے چاہتا ہے، وہ ملک عطا کرتا ہے۔ عزت و ذلت اس کے ہاتھ میں ہے۔ علم اور رزق کا اختیار بھی۔

نسیم بیگ مرحوم کی قبر کو اللہ نور سے بھردے۔ جنرل حمید گل، مجید نظامی مرحوم، ایس ایم ظفر اور ڈاکٹر شعیب سڈل کے علاوہ کتنے ہی اخبار نویس اور سرکاری افسر ان کی خدمت میں حاضر ہوا کرتے۔ تحریکِ پاکستان کے کارکن تھے۔ ذاتی صلاحیتوں کے علاوہ بھی غالبا اسی بنا پر اقومِ متحدہ کے ایک ادارے میں نامزد کیے گئے۔ عمر وہیں بتا دی۔ سبکدوشی کے بعد پاکستان پہنچے تو اسلام آباد کے ایف 7سیکٹر میں قدرت اللہ شہاب ایک خوبصورت مکان ان کے لیے تعمیر کر چکے تھے۔ اہلیہ وفات پا گئیں۔ اولاد تھی نہیں۔ پنشن غالباً 5ہزار ڈالر کے لگ بھگ تھی۔ مجلس آرائی شیوہ اورشعار۔ گفتگو میں شائستگی اور قرینہ ایسا کہ سبحان اللہ۔ سورج ڈھلتے ہی لوگ کھنچے چلے آتے۔ سابق وزیرِ داخلہ عبد الستار اور وزیرِ اعظم کے ذاتی سیکرٹری زاہد صاحب بھی شامل ہوتے۔

یہ آپ ہم تو بوجھ ہیں زمین کا

زمیں کا بوجھ اٹھانے والے کیا ہوئے

نہایت رسان سے ایک بار انہوں نے کہا: آپ باخبر دانشور لوگ تجزیہ کرتے ہیں تو سبھی عوامل ملحوظ رکھتے ہیں۔ بس ایک ذاتِ باری تعالیٰ کو بھول جاتے ہیں۔ مراد یہ تھی کہ وہی اپنے بندوں کا رب ہے۔ آدمی اس کے مقابل من مانی کیسے کر سکتاہے۔

پالتا ہے بیج کو مٹی کی تاریکی میں کونکون دریاؤں کی موجوں سے اٹھاتا ہے سحابوہ چلے گئے تو چراغ بجھ گیا۔ اسلام آباد میں اب کوئی گھر ایسا نہیں، خیالات کے دیے جہاں روشن ہوں۔ آج وہ بہت یاد آئے اور بے طرح یاد آئے۔ شام اترنے لگی تو خیال آیا کہ ان کی خدمت میں حاضر ہوتے۔

دوسرا ٹھکانا فاروق گیلانی مرحوم کا تھا۔ ایڈیشنل سیکرٹری تھے مگر اس سے زیادہ اہم یہ کہ راست فکر، جہاندیدہ، صاحبِ مطالعہ اور صداقت شعار۔ اظہارالحق، ناچیز اور کچھ دوسرے دوست ان کی خدمت میں حاضر ہوتے۔ ان کی وفات پر ایسا مرثیہ اظہار الحق نے لکھا کہ فراق کے درد اور گئے دنوں کی یادوں کا سارا گداز اس میں سمٹ آیا تھا۔ کہیں آنسوؤں سے بھیگا، کہیں آنسوؤں سے مٹا ہوا۔

آج زندہ ہوتے تو ان کی خدمت میں حاضر ہوتے۔ دل کا بوجھ ہلکا کرتے۔ روشنی کی ایک کرن مانگ لاتے۔ کیسی تاریکی ہے، کس قدر تاریکی۔

وہ جن کے ہوتے ہیں خورشید آستینوں میں

انہیں کہیں سے بلاؤ بڑا اندھیرا ہے

سوشل میڈیا ہے، کہیں کہیں کوئی قندیل بھی، بالعموم مگر کوڑے کرکٹ سے بھرا ہوا۔ اخبارات اور چینل بھی کیا ہیں۔ ایک میز کے گرد چار آدمی اور چاروں ایک دوسرے کے لتّے لیتے ہوئے، شخصیت پرست، ذہنی غلام۔ بادشاہ مر گئے، رعایا شہری نہ بن سکی۔ جہالت، جہالت۔ میرؔ صاحب نے کہا تھا:

آسودگی سوختہ جاناں ہے قہر میر

ؔدامن کو ٹک ہلا کہ دلوں کی بجھی ہے آگ

دلوں کی آگ کیا، ایک طوفانِ بدتمیزی ہے۔ حریف کو پامال کرنے کے آرزومند لیڈر۔ ایک سے بڑھ کر ایک طعنہ زنی کرنے والا۔

زندگی گل رنگ کبھی نہ تھی۔ اب تو محض کچرے کا ڈھیر ہو گئی۔ دکھ کی بات یہ ہے کہ کسی کو احساس ہی نہیں۔ ادراک ہی نہیں۔ اخلاق ہی اگر نہیں تو سیاست کیا۔ آدمی کیا جانور ہے کہ فقط راتب پہ جی لے۔

تیرگی ہے کہ امڈتی ہی چلی آتی ہے

About Haroon Ur Rasheed

Haroon Ur Rasheed

Haroon Ur Rasheed is a well known analyst and columnist. Currently, he is working with 92 News. He has worked for Dunya News, 92 News and Geo.