رعایت نہیں کرتا، وقت کسی سے رعایت نہیں کرتا۔ قدرت کے قوانین اٹل ہیں، اٹل، دائمی اور ابدی۔ فرمایا:اللہ کے طریق کو تم کبھی بدلتا نہ دیکھو گے۔
گو شد و مد سے بھارتیوں نے تردید کر دی ہے، امریکی صدر کو اصرار ہے کہ مودی نے ان سے کشمیر میں مصالحت کاری اور ثالثی کی درخواست کی تھی۔ بدھ کو صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے چیف اکنامک ایڈوائزر نے بھارتی پرپیگنڈے کی قلع کھول دی ہے۔ انہوں نے کہا، صدر نے اپنی طرف سے بات نہیں گھڑی۔ یہ سوال پوچھنا کہ کیا ایساہوا تھا یا نہیں، بجائے خود ایک طرح کا گنوار پن ہے۔ زیادہ اصرار کیا گیا تو مسٹر کڈلو نے کہا مجھے اب صرف یہ کہنا ہے کہ یہ میری ذمہ داری نہیں۔ یہ(نیشنل سیکورٹی ایڈوائزر) مسٹر بولڈن کا کام ہے یا (وزیر خارجہ)مسٹر مائیک پوپمیو اور خود صدر کا ؛ چنانچہ مزید تبصرہ میں نہیں کروں گا۔ بس اتنی سی بات پھر کہوں گا کہ صدر صاحب واقعات تراشتے نہیں۔
عمران ٹرمپ ملاقات کے ہنگام، اس انکشاف نے دنیا بھر میں تہلکہ مچا دیا کہ بھارتی وزیر اعظم نے کشمیر کے مسئلے پر امریکی صدر سے مداخلت کی اپیل کی تھی۔ مسٹر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا:دو ہفتے قبل مودی میرے ساتھ تھے۔ ہم نے اس موضوع پر تبادلہ خیال کیا۔ فی الواقع انہوں نے مجھ سے کہا: کیا آپ مصالحت کار بننا پسند کریں گے۔ میں نے پوچھا:کس معاملے میں؟: انہوں نے جواب دیا" کشمیر" سالہاسال سے یہ معاملہ معلق چلا آتا ہے۔
امریکی صدر نے کہا:میں سمجھتا ہوں کہ بھارتی اب قضیے کا حل چاہتے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ آپ بھی یہی چاہتے ہیں۔ اگر واقعی میں کوئی مدد کر سکتا ہوں تو اس کا طریق یہی ہو گا کہ مصالحت کنندہ کا کردار میں قبول کر لوں۔ بے ساختہ عمران خان کا تبصرہ یہ تھا" ایک ارب سے زیادہ انسانوں کی دعائیں آپ کے ساتھ ہوں گی اگر آپ کوئی حل نکال سکیں "
فوراً ہی بھارتی وزارت خارجہ نے تردید کر دی۔ اس کے ترجمان نے ایک بیان میں کہا کہ وزیر اعظم نریندر مودی نے ہرگز ایسی بات نہیں کی تھی "صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا بیان میڈیا میں ہم نے دیکھا ہے کہ بھارت اور پاکستان ان سے درخواست کریں تو مصالحت کاری کے لیے وہ تیار ہیں۔ بھارتی وزیر اعظم نے امریکی صدر سے ایسی کوئی درخواست نہیں کی تھی"
دو دن سے بھارتی لوک سبھا میں ہنگامہ برپا ہے۔ چیخ چیخ کر ارکان پارلیمنٹ وضاحت کا مطالبہ کرتے رہے۔ اصرار کرنے والوں میں کانگرس کے سربراہ، اندراگاندھی کے فرزند، جواہر لعل نہرو کے نواسے راہول گاندھی شامل تھے۔ عمران ٹرمپ ملاقات کے بعد سے ہندوستان میں زلزلے کی سی کیفیت ہے۔ جو کچھ رونماہوا بھارتیوں نے کبھی اس کا تصور بھی نہیں کیا ہو گا۔ انہی پر کیا موقوف دنیا بھر کے لیے یہ ایک حیران کن واقعہ تھا۔ اسلام آباد اور واشنگٹن کے تعلقات میں جو ڈرامائی تبدیلی رونما ہوئی، اس کے عوامل کئی ماہ سے بروئے کار تھے۔ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا یہ فیصلہ کہ افغانستان سے واپسی لازم ہے۔ ایک بے ثمر جنگ میں امریکی وسائل برباد ہو رہے ہیں۔ انیس برس گزر جانے کے باوجود، دور دور تک کامیابی کے کوئی آثار نہیں۔
ایک بہت چونکا دینے والی بات بھی، اس آدمی نے کہی، جس کے بارے میں باور کیا جاتا ہے کہ اپنے لاابالی پن کی وجہ سے، کسی وقت بھی کچھ بھی وہ کہہ سکتا ہے۔ امریکی صدر نے کہا کہ وہ جنگ جیت سکتے ہیں، مگر اس کے لیے ایک کروڑ افغانیوں کو قتل کرنا ہو گا۔" افغانستان کو صفحہ ہستی سے مٹایا جا سکتا اور کامیابی حاصل کی جا سکتی ہے، مگر میں ایسا نہیں کرنا چاہتا۔ حقیقت واقع یہ ہے وہ ایسا کر ہی نہیں سکتے۔
امریکی اداروں اور اپنی قوم کو وہ کیسے آمادہ کریں گے کہ اس ملک کی ایک تہائی آبادی فنا کے گھاٹ اتار دی جائے۔ باقی دنیا تو الگ رہی، کیا خود امریکہ کے اندر ایسے بڑے پیمانے کے احتجاجی مظاہرے شروع نہ ہو جائیں گے کہ بساط ہی الٹ جائے۔ کیا خود ان کی سیاسی پارٹی اس ہولناک خوں آشامی کی مزاحمت نہ کرے گی۔ بالفرض محال نہ کرے تو کیا امریکی عوام اسے معاف کر دیں گے۔ ہم اکیسویں صدی میں زندہ ہیں۔ یہ چنگیز خان اور تیمور کی دنیا نہیں ہے کہ کوئی فاتح لشکر زمین کے ایک کنارے سے دوسرے کنارے تک قتل عام کرتا چلا جائے۔
اس کے باوجود کہ مغرب میں صدر صدام کا تاثر بہت برا تھا۔ اس کے باوجود کہ ان کے پاس جراثیمی اسلحے اور ایٹم بموں سمیت، ہلاکت خیز ہتھیاروں کا اندیشہ ظاہر کیا گیا تھا، یورپ میں طوفانی مظاہرے دیکھنے میں آئے تھے۔ دو عالمگیر جنگوں کے سائے انسانیت کے لاشعور پہ لرزاں ہیں۔ سمٹتے سمٹاتے بعض اعتبار سے دنیا ایک گاؤں کی شکل اختیار کر چکی۔ ایک خطہ کا تصادم دوسرے پر اثر انداز ہوتا ہے۔
دو ملکوں کی جنگ، باقی دنیا کو فوراً ہی متاثر کرنے لگتی ہے۔ تمام کر ہ خاک کی معیشت باہم جڑی ہے۔ اقتصادی اعتبار سے ایک علاقے کی تباہی، فوراً ہی دوسرے دیار میں خرابی کو جنم دیتی ہے۔ دنیا بھر میں آزاد میڈیا فیصلہ کن قوت کا حامل ہے۔ بہت تیزی سے وہ عوامی احساسات کی قوت کو نمایاں کرتا اور گاہے طوفان میں ڈھال دیتا ہے۔ ایک مہم جو کے گرد جمع ہونے والے لشکروں کا نہیں، یہ جدید افواج کا عہد ہے۔ دنیا بھر میں ہر کہیں ان افواج کی قیادت اور ان سے جڑی خفیہ ایجنسیاں منصوبہ بندی میں لگی رہتی، اور اہم سرکاری فیصلے ان کی توثیق کے بغیر نافذ نہیں ہو سکتے۔
من مانی کرنے والے بادشاہوں کا نہیں یہ اداروں کا عہد ہے، خاص طور پر مغرب میں۔ ذاتی مسرتوں کی متلاشی، ژولیدہ فکری میں مبتلا آدمیت میں ڈولنڈ ٹرمپ اوربورس جانسن ایسے لیڈر نمودار ہو رہے ہیں ؛بایں ہمہ پرانی دنیا مر چکی اور نئی دنیا میں کوئی ایک شخص تاریخ ساز فیصلے صادر نہیں کر سکتا۔ اسی کا نام جمہوریت ہے اور اسی کو جمہوری دنیا کہا جاتا ہے۔ ایک طے شدہ نظام میں، آئین کی حدود کے اندر، فیصلے کرنے کے لیے لیڈر آزاد ہے۔ جونہی آئین کی حدود عبور کی وہ کوشش کرتا ہے، اس کے ہاتھ باندھ دئیے جاتے ہیں۔ مغرب ہو یا مشرق، اعتماد سے سرشار بعض رہنما اس حقیقت کا ادراک نہیں کر سکتے۔
چیخ چیخ کرعمران خان اپنے مخالفین کے بارے میں جب یہ کہتے ہیں " میں انہیں چھوڑوں گا نہیں " تو اسی بنیادی سچائی کو وہ نظر انداز کرتے ہیں۔ ہر ناقص تجزیے اور ہر ناقص حکمت عملی کو ایک دن منہ کے بل گرنا ہوتا ہے۔ بدھ کے دن مولانا فضل الرحٰمن کی بارگاہ میں سرکاری وفد کی حاضری، اسی واقعہ کی مظہر ہے۔ جیسا کہ سب جانتے ہیں، برسوں سے دونوں لیڈر ایک دوسرے کے خلاف نفرت کا پرچار کرتے چلے آئے ہیں۔ مولانا فضل الرحٰمن وزیر اعظم کو یہودیوں کا ایجنٹ قرار دیتے رہے۔ کپتان انہیں مولوی ڈیزل کہتا رہا۔ خود اپنے طور پہ یا خاموشی سے برؤئے کار آنے والے داناؤں کے مشورے سے بلآخر انہیں ادراک ہوا کہ ایک دوسرے سے بات انہیں کرنی ہی پڑے گی۔
عمران خان کا دورہ کامیاب رہا، کامیاب نہیں تاریخ ساز۔ جس پر جشن منانے کا جواز ہے لیکن فقط اس دورے کی کامیابی سے عشروں سے الجھی ڈور سلجھ نہیں جائے گی۔ ہر ایک کو اپنے انداز فکر پر غور کرنا ہو گا۔ حقائق کا ادراک کرنا ہو گا۔ اپنی اصلاح کرنی ہو گی۔ جو کرسکیں وہ پار اتر جاتے ہیں وگرنہ وقت کا دھارا انہیں روند کر گزر جاتا ہے۔
رعایت نہیں کرتا، وقت کسی سے رعایت نہیں کرتا۔ قدرت کے قوانین اٹل ہیں، اٹل، دائمی اور ابدی۔ فرمایا:اللہ کے طریق کو تم کبھی بدلتا نہ دیکھو گے۔