Tuesday, 19 November 2024
  1.  Home/
  2. 92 News/
  3. Ya Elahi Ye Kya Majra Hai?

Ya Elahi Ye Kya Majra Hai?

ایک نہیں، لاتعداد سوال ہیں۔ سوال ہی سوال اور جواب دینے والا کوئی نہیں۔ عمران خان پر اعتماد ہیں اور اپوزیشن بھی۔ یا الٰہی یہ ماجرا کیا ہے؟ اسٹیبلشمنٹ خاموش ہے۔ تاثر یہ ہے کہ اب وہ غیر جانبدار اور لا تعلق ہے۔ افراتفری پھیلی تو کب تک وہ خاموش اور لا تعلق رہے گی۔ ایک اپوزیشن لیڈر سے ابھی ابھی بات ہوئی۔ ان سے پوچھا کہ جہانگیر ترین کہاں ہیں، کس حال میں ہیں اور ان کا ارادہ کیا ہے۔ کہا کہ لندن جا چکے۔ پیغا م بھیجا ہے کہ معالج نے فوری طور پر برطانیہ آنے کو کہا۔ یہ بھی کہا کہ دن بھر استفسار کرنے والوں سے وہ اکتا چکے تھے۔ بتایا کہ ایک چینل نے جو خبر ان کے بارے میں دی کہ بے ہوش ہوئے تھے، یکسر بے بنیاد ہے۔

آنے والا کل کیا لائے گا؟ ان کا جواب یہ تھا: مارچ میں خان صاحب رخصت ہو جائیں گے۔ ایک اور سوال تھا: پی ٹی آئی کے کتنے لوگ اپوزیشن سے جا ملے؟ بتایا گیا کہ ان کے علاوہ جو پہلے سے نون لیگ، پیپلزپارٹی اور جمعیت علماء ِ اسلام کے ساتھ رابطے میں ہیں۔ پتوکی سے تعلق رکھنے والے صوبائی وزیر آصف نکئی صاحب نے الگ سے ایک گروپ بنا لیا۔ ان کا ارشاد یہ ہے کہ چودھریوں کے در پہ آپ کیوں کھڑے ہیں۔ ہمارے پاس تشریف لائیے۔ موصوف کے والد کبھی وزیرِ اعلیٰ تھے۔ شاید اسی منصب کی آرزو نے آنجناب کو بے چین کیا ہے۔

ان سے پوچھا: عدم اعتماد کی تحریک میں وزیرِ اعظم کے خلاف ووٹ ڈالنے والے ارکان کی رکنیت تو ختم ہو جائے گی۔ نئی حکومت کی تشکیل پھر کیسے ہو گی؟ فرمایا: سپیکر کے ذریعے ان کے مقدمات الیکشن کمیشن کو بھیجنا ہوتے ہیں۔ قومی اسمبلی کے سپیکر جب رخصت ہو جائیں گے اور پنجاب کا سپیکر اپوزیشن سے جا ملے گا تو معاملے کی نوعیت بدل جائے گی۔ فیصلہ صادر کرنے کے لیے متعلقہ شکایات الیکشن کمیشن کو ارسال ہی نہ کی جائیں گی۔

شریف اور چودھری برادران کے درمیان مفاہمت کیسے ہوگی۔ نون لیگ کے کچھ لیڈر کہتے ہیں کہ سمجھوتہ ان سے ہو سکتاہے۔ بالکل برعکس کچھ یہ کہتے ہیں کہ ایسا نہیں ہوگا۔ ان کی ہمیں ضرورت ہی نہیں۔

دعویٰ یہ ہے کہ جہانگیر ترین گروپ نے بغاوت کا فیصلہ کر لیا۔ فقط موزوں لمحے کا انتظار ہے۔ بجا ارشاد مگر اس گروپ کو ملے گا کیا؟ وزارتِ عظمیٰ کا تو سوا ل ہی نہیں۔ وزارتِ اعلیٰ بھی نہیں۔ کچھ اور سوالات چودھری صاحبان کے بارے میں:اوّل تو مشکل ہی سے نواز شریف انہیں وزارتِ اعلیٰ سونپنے پر آمادہ ہوں گے۔ فرض کیجیے مان جائیں۔ فرض کیجیے کہ ڈیڑھ برس کے لیے وزیرِ اعلیٰ بنا دیں۔ اس کے بعد چودھری صاحبان کی سیاست کیا اپنی موت آپ نہ مر جائے گی؟ اب تو چار پانچ اضلاع میں ان کا سکّہ چلتا ہے۔ وزیرِ اعلیٰ کے آدھے اختیارات بھی انہیں حاصل ہیں۔ 1122کے لیے رقوم درکار ہوں یا وزیرِ آباد میں امراضِ قلب کے ہسپتال کے لیے، عثمان بزدار کچھ دن کے لیے ہی ٹال سکتے ہیں۔

آئندہ الیکشن میں نواز شریف ان کے ساتھ کیا وہی سلوک نہ کریں گے جو چٹھہ گروپ کے ساتھ کیا تھا۔ باقاعدہ سمجھوتے کے باوجود آخر کو ایک بھی ٹکٹ دینے سے انکار کر دیا۔ وہ اِدھر کے رہے نہ اْدھر کے۔ کیا چودھری صاحبان کا انجام بھی یہی نہ ہوگا۔ وہ کچی گولیاں کھیلنے والے نہیں۔

یوکرین میں جنگ جاری ہے۔ دنیاایک سیلِ بے پناہ کی زد میں ہے۔ تیل کی قیمت ایک سو ڈالر فی بیرل سے بڑھ چکی۔ جنگ اگر تھم نہیں جاتی اور سمجھوتہ اگر نہ ہوا تو 120ڈالر تک جا سکتی ہے۔ ایران پہ پابندیاں عائد ہیں۔ اپنی پیداوار وہ بڑھا نہیں سکتا۔ سعودیوں سے امریکہ کے مراسم ایسے خوشگوار نہیں۔ جوبائیڈن کی آرزو کے باوجود ریاض نے تیل کی پیداوار میں اضافے سے انکار کر دیا۔ غالباً یہ پہلی بار ہوا ہے۔ پہلی بار ہی یہ ہوا ہے کہ پاکستان ہی نہیں، سعودی عرب بھی ماسکو سے مراسم بہتر بنانے میں سنجیدہ ہے۔ روس کے پیچھے چین کھڑا ہے۔

غیر معمولی واقعہ یہ ہے کہ اب پاکستان امریکی کیمپ کا حصہ نہیں۔ روس، چین اور ایران بعض اعتبار سے اب ایک بلاک ہیں۔ روس پہ پابندیاں عائد ہوچکیں۔ بینکنگ کے عالمی نظام کا اب وہ حصہ نہیں۔ چین سے کاروبار کس کرنسی میں ہوگا؟ یورو یا چین اور روس کے سکے میں؟

ایک سوال اور بھی ہے۔ آج کی معیشت صنعتوں کے سوا کچھ بھی نہیں۔ صنعتوں کو توانائی درکار ہے۔ مغربی ممالک گیس کے سب سے بڑے ذخائر رکھنے والے روس سے خریدیں تو کم از کم ساٹھ فیصد کم قیمت پر۔ امریکہ سے یورپ کا زمینی رابطہ ہی نہیں کہ پائپ لائن بچھائی جا سکے۔ روسی تیل اور گیس اگر مہیا نہ ہوئے تو یورپی ممالک کی معیشت کا کیا ہوگا؟ ایک دو چھوٹے یورپی ملک اپنی توانائی کی سو فیصد ضروریات روسی گیس سے پوری کرتے ہیں۔ دنیا بھر میں مہنگائی کا طوفان کیا نہیں اٹھے گا؟

چین آسودہ ہے۔ ایران ہی نہیں، وہ عرب ممالک سے بھی خریداری کر سکتاہے۔ تو کیا مغرب بیجنگ کے لیے میدان کھلا چھوڑ دے گا؟ معاشی قوت کے بل ہی پر تو وہ عالمی طاقت ہے۔ مغربی ممالک انکل سام کی خاطر ایک المناک زوال کو دعوت دیں گے؟ میرؔ صاحب نے کہا تھا:

رات دن گردش میں ہیں سات آسماں

ہو رہے گا کچھ نہ کچھ گھبرائیں کیا

مغرب جانے او راس کا کام۔ وہ دانا لوگ ہیں۔ دو عالمگیر جنگوں کے بعد برباد کن جذباتیت سے وہ نجات پا چکے۔ کوئی راہ ڈھونڈ نکالیں گے۔ ہمارا کیا ہوگا؟

ایک آدھ نہیں، لا تعداد حماقتوں کے عمران خان مرتکب ہوئے۔ انتہا یہ کہ عثمان بزدار کو وزیرِ اعلیٰ بنا دیا۔ عالی جناب کے فدائین کے سوا کسی کو ان سے ہمدردی نہیں۔ اب تو اسٹیبلشمنٹ کو بھی نہیں۔ میڈیا سے وہ نفرت کرتے ہیں۔ موثر اخبار نویسوں کی ایک قابلِ ذکر تعداد اب قرض چکانے پر تلی ہے۔

سوال یہ ہے کہ وہ چلے گئے تو حاصل کیا ہوگا۔ خواجہ میر دردؔکا مصرع یہ ہے: فائدہ اس زیان میں کچھ ہے؟

افراتفری پھیلی تو بچی کھچی معیشت کا کیا ہوگا؟ سب جانتے ہیں کہ سرمایہ حساس ہوتاہے۔ پہلے ہی سے دولت کا فرار جاری ہے۔ کچھ اور بڑھ جائے گا۔ باقی ماندہ تجوریوں میں بند ہو جائے گا۔ گرانی اور بڑھے گی اور بے روزگاری بھی۔

معاشرے کی اخلاقی حالت پہلے ہی قابلِ رشک نہیں۔ انارکی میں اور بھی بگڑ جائے گی۔ بگڑتی چلی جائے گی۔ خلفشار ہوگا تو اسٹیبلشمنٹ کیا ہاتھ پہ ہاتھ دھرے بیٹھی رہے گی؟ سیاستدانوں کی اخلاقی ساکھ پہلے ہی برباد ہے۔ ہمہ وقت ایک دوسرے کی کردار کشی کے وہ درپے رہتے ہیں۔ ایسے میں لوگ کیا راولپنڈی کی طرف نہ دیکھیں گے؟ ایک نہیں، لاتعداد سوال ہیں۔ سوال ہی سوال اور جواب دینے والا کوئی نہیں۔

About Haroon Ur Rasheed

Haroon Ur Rasheed

Haroon Ur Rasheed is a well known analyst and columnist. Currently, he is working with 92 News. He has worked for Dunya News, 92 News and Geo.